موجودہ حالات میں علما ء کے لئے کرنے کے چند کام

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

     ملک کے موجودہ حالات سے ہرمسلمان بالعموم اور ہر عالم بالخصوص باخبر ہے،تیزی کے ساتھ اپنے اہداف ومقاصد کی تکمیل کے لئے اسلام مخالف طاقتیں لگی ہوئی ہیں ،اور آئے دن کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑ کر الجھنوں اور فکروں کو بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ،مختلف قسم کے مسائل کھڑے کرکے انتشار کا ماحول پیداکرنے اور دین کے خلاف نفرت کو عام کرنے کی فکر کی جارہی ہے۔فتنوں کے اس دور میں نت نئے فتنوں کا رونماں ہونا کوئی نئی با ت نہیں ،مخالفت کے ماحول میں نفرت انگیزمہم کا چلانا بھی کوئی انوکھی چیز نہیں ،فتنوں کے خوگروں اور نفرت کے سوداگروں سے بھلا اس کے سوا کیا امید کی جاسکتی ہے۔یہ حالات پوری ملت کے لئے جھنجوڑدینے والے ہیں اور ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے کی دعوتِ فکر وعمل دے رہے ہیں ،صرف خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا اور کسی اور کے کاندھوں پر بوجھ ڈال کر دامن بچانے کا وقت نہیں ہے بلکہ جس سے جو خیر اور نفع کا کام ممکن ہو اسے کرگزرنے کا دور ہے ،امن وسلامتی کی بقا اور دین وشریعت کے تحفظ کے کے لئے ایک مسلمان جو کرسکتا ہو اسے کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے ،یہ ایک حقیقت ہے کہ جن کا رتبہ بڑا ہوتا ہے ان کی ذمہ دارایاں بھی بڑھی ہوتی ہیں ۔

چناں چہ ان حالات میں امت کی رہبری کا فریضہ انجام دینا اور مؤثر رہنمائی کا کردار اداکر نا علماء دین کا ایک اہم فریضہ ہے۔علماء نے ہر دور میں امت کی ڈوبتی کشتی کو ساحل ِ مراد تک لانے کے لئے جان وتن کا نذرانہ پیش کیا،ایمان واسلام کی سلامتی و تحفظ کے لئے نسلوں کو قربان کیا،پوری تاریخ باوفا،پرخلوص،جذبہ ٔ محبت وایثار سے سرشار اور قوم وملت کی فلاح وبہبودی کے لئے بے چین رہنے والے علماء کرام سے بھری ہوئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت علمائے کرام مختلف دینی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں اور ملک وملت کی گراں بار ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی سنبھالے ہوئے ہیں ۔علماء چوں کہ انبیاء ؑ کے وارث ہیں اور انبیاء کی کام بہت اہم ہوتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :ان العلماء ورثۃ الانبیاء،ان العلماء لم یورثوا دیناراولادرھما ،انما ورثواالعلم،فمن اخذ بہ اخذ بحظ وافر۔( ترمذی:2625) کہ انبیاء علما کے وارث ہیں ،انبیاء نے دینار ودرھم کی میراث نہیں چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے ۔

پس جس نے بھی ان کاعلم حاصل کیا اس نے ( انبیاء کی میراث ) سے بڑا حصہ پالیا۔انبیاء کی سیرت اور زندگیاں حالات ومواقع میں کام کرنے کے اسلوب وانداز بھی سکھاتی ہیں اور خود نبی آخرالزمان سید الرسل حضرت محمد ﷺ کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے ،آپ ﷺکی مبارک زندگی کی ترجمانی کرتے ہوئے حضرات ِ صحابہ کرام ؓ نے فرمایا کہ :متواصل الاحزان،دائم الفکرۃ ، لیست لہ راحۃ ۔(شمائل ترمذی:218 )اور قرآن میں آپ کے درد و کڑھن کو دور کرنے اور آپ کی بے قراریوں کم کرنے لئے کہا کہ :ماأنزلنا علیک القراٰن لتشقی  الا تذکرۃ لمن یخشی:(طہ:3)ہم نے قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم تکلیف اٹھا ؤ۔البتہ یہ اس شخص کے لئے ایک نصیحت ہے جو ڈرتا ہو۔ آپﷺ کی سیرت کا ایک ایک پہلو ظاہر ہے کہ دعوت دین اور تبلیغ اسلام کے لئے آپ کو اور آپ کے جاں نثا ر صحابہ کوکن صبر آزماء مراحل سے گذرنا پڑا کہ جس کہ صرف تصور سے بھی قلب و جگر تھرا اٹھتے ہیں کہ کیسی کیسی مشقتوں کو جھیل کراسلام کے علم کو دنیا میں بلند کیا ۔آپ کی رحم دلی اور انسانیت کے تئیں محبت کو قرآن میں بیا ن کرتے ہوئے کہا کہ :لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رء وف الرحیم۔(التوبہ:128)تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے ، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے ،جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے ، جو مومنوں کے لئے انتہائی شفیق نہایت مہربان ہے۔

آپ کی دھن اور فکر کا اندازہ لگایئے کہ ایک موقع پر سرداران مکہ نے ابوطالب سے کہا کہ اپنے بھتیجے کو کہہ کر دین کی دعوت کے کام کو بند کروادیجئے جب قوم کی زبردستی پر یہی بات چچا نے اپنے بھتیجے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے کہی تو آپ نے فرمایا کہ :یاعم ! لو وضعت الشمس فی یمینی والقمر فی یساری ماترکت ھذاالامر حتی یظھر اللہ تعالی او اھلک فی طلبہ ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:522)اسی لئے بعض خاص حالات میں سیرت کی روشنی میں جو کام کرنے ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ دینا بھی علماء کا کام ہے ۔فتنوں کی سرکوبی کے لئے اور موج ِ بلاخیز کے تھپیڑوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے کیا جدوجہد کرنے ہوگی ان پر غورخوض کرناعلماء کی ذمہ داری ہے۔

 ملت کے فکر مند علماء کرام اس وقت مختلف انداز میں امت کے سامنے عملی ترتیب کا نقشہ پیش کررہے ہیں کہ کن کاموں کواختیارکرکے اور کن چیزوں کا اہتمام کرنے ہم ملک وملت اور دین وشریعت کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں ۔ابھی حال ہی میں مولانا محمد یحییٰ نعمانی صاحب( جو حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ کے نواسے ہیں ) نے علماء کی ایک مجلس میں چند باتیں ذکر کی تھیں ہم ذیل میں اس کو اختصار اورکچھ اضافہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔

 ایک کام جو اس وقت علماء کرام کو کرنا چاہیے وہ تثبیت ہے یعنی امت کے قدموں کو دین پر مضبوط جماناہے ،اگر یہ محنت کی گئی تو ہزار ریشہ دوانیاں بھی کچھ نہیں بگا ڑ سکتی ،ورنہ معمولی معمولی پروپیگنڈے بھی ایمان لیوا ثابت ہوں گے ،اس لئے ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان کی قدر وعظمت اور اہمیت کو بٹھایا جائے ،حالات کامقابلہ کرنے کے قابل ان کو بنایاجائے ،اور ان کے ذہن ودماغ میں ایمان کی برتری اور اسلام کی عظمت کا سکہ بٹھایا جائے ،ان کے شکوک وشبہات کو علمی انداز میں حل کیا جائے نبی کریمﷺ کی سیرت کا ابتدائی دور مکہ مکرمہ کا اس بات کی طرف رہبری کرتا ہے ،اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو کیسے دین پر مضبوط کیا اور ان کو کس طرح دین پر جمے رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔

آج ہر طرف اسلام کے خلاف مکمل ماحول بنایا جارہاہے اور اسکول سے لے کر کالج اور باہرسے لے کر گھر تک ہر طرف دین بے زاری کا ماحول تیار کیا جارہا ہے ،ایسے میں ہم دین پر قائم رہنے اور شریعت سے وابستہ رہنے کی محنتیں کریں ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ۔( ابراھیم:27)’’کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ،اللہ ان کو اس مضبوط بات پر دنیا کی زندگی میں بھی جماؤعطاکرتا ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘دنیامیں جماؤعطاکرنے کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن پر کتنی زبردستی کی جائے ،وہ توحید کے اس کلمے کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ،اورآخرت میں جماؤ پیداکرنے کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں جب اس سے سوال وجواب ہوگا تو وہ اپنے اس کلمے اور عقیدے کا اظہار کرے گا ،جس کے نتیجے میں اسے آخرت کی ابدی نعمتیں نصیب ہوں گی۔( توضیح القرآن :2/788)

 رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے کہ:ہر آنے والادن پہلے کے مقابلہ میں خراب ہوگا،دین سے دوری پیدا ہوتی چلی جائے گی،حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے،خیر القرون سے جتنی دوری ہوگی،اتنے حالات اور خراب ہوں گے،لیکن آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: بلاشبہ تم ایسے زمانے میں ہو کہ تم میں سے کوئی اس کادسواں حصہ چھوڑدے گا جس کا حکم دیا گیا ہے توہلاک ہوجائے گا(یعنی آخرت میں اس پر گرفت ہوگی )پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ جو اس دسویں حصہ پر عمل کرے گا جس کا حکم دیا گیا ہے وہ نجات پالے گا۔( فضائل امت ِ محمدیہ :51)۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ایک وقت ایسا آئے گا کہ دین پر قائم رہنا مٹھی میں انگارہ لینے کے برابر ہوگا۔(ترمذی:2191)علماء امت کو دین پر مضبوط کھڑاکرنے کی فکر وکوشش کریں تو پھر یہ آئے دن جو مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں ،ان کا ازالہ ہوگا اور مسلمان اپنے دین وشریعت سے محبت کرنے والے بنیں گے ،کسی دشمن کی باتوں کا شکار ہوئے بغیر اپنے دین سے اٹوٹ وابستگی رکھیں گے۔

 اسی طرح ایک کام مکاتب کا منظم اور مستحکم قیام بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔جہاں امت کے نونہالوں کو زیورِ علم سے آراستہ کیا جاسکتا ہے ،دن میں اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی دینی تعلیم کایہ ایک بہتر نظام ہے ۔آج کل اسکولوں میں دین کا باغی اور شریعت سے نفرت کرنے والا بنایاجارہا ہے اور ایک ایسے نظام کے تحت صبح وشام بچے رہ رہے ہیں جہاں خدا کا کوئی تصور نہیں ،لہذا ان بچوں کے ایمان کی سلامتی اور آنے والے نسلوں کے ایمان کی بقا کے لئے مکاتب کانظام ضروری ہے۔اگرگھر سے ایک بچہ بھی مکتب آئے گا تو اس کا ایمان اور اس کے خاندان کا ایمان محفوظ ہوجائے گا۔جو بچہ بچپن میں دین سیکھا ہوگا ان شاء اللہ وہ بڑا ہوکر مرتد وملحد نہیں ہوگا۔

  ایک کام یہ ہے کہ علماء اپنے علاقوں کے عام غیر مسلموں سے اچھے روابط پیداکریں ،ان سے ملنے جلنے کا مزاج بنائیں ،ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کریں ،بیماروں کی خبر گیری کریں ،ضرورت مندوں کے کام آنے کی کوشش کریں ،اہل مدارس اور تنظیموں کے ذمہ داراپنے فنڈکا ایک حصہ اس کے اس کام کے لئے بھی مختص کریں ،ان کو اپنے یہاں مدعو کریں ،ہمارے مدارس کا معائنہ کروائیں ،خدمت ِ خلق کے ذریعہ ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں ۔اگر علماء اپنے علاقوں اور محلوں کے عام غیر مسلموں سے ربط ضبط شروع کردیں تو پھر یہی لوگ ہمارے حمایتی بنیں گے ،یہ ہمارے اخلاق کا مشاہدہ کریں گے اس کے بعد دنیا کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہمارے خلاف کبھی قبول نہیں کریں گے۔یقینا اس سلسلہ میں ہمارے پاس بہت کمی پائی جاتی ہے ،ہم عوامی رابطہ رکھتے ہی نہیں ،اجتماعات اور جلسوں کے موقع پر لیڈر اور سیاسی آدمی کو تو بلاتے ہیں مگر عام لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔اس سلسلہ میں اب پہل کرنا چاہیے ،حال ہی میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے بھی اہل ِ مدارس کو اس جانب متوجہ کیا کہ وہ وقفہ وقفہ سے سیکولر ذہن سے غیر مسلم بھائیوں کو اپنے یہاں بلاتے رہیں تو اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

  ایک کام ان حالات میں اللہ سے رجوع ہونا اور دعائیں کرنا بھی ہے ،جس کی جانب بھی فکر نہیں ہورہی ہے بلکہ صر ف زبانی تذکرے ہورہے ہیں اور حالات پر صرف اندیشے اور خدشے ظاہر کئے جارہے ہیں ۔حالات کا آنا جانا رہے گا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:وتلک الایام نداولھا بین الناس ۔( ال عمران:141)’’یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں ۔‘‘  لہذایہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی سے خوب رجوع کریں اور اس سے دعائیں مانگیں ۔ ان حالات میں ’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ کا ورد رکھیں ۔قرآن کر یم میں اس دعا کا پس منظر بیان کرتے ہوے کہا گیا ہے :الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزاھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔( ال عمران:173)’’وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا کہ یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے ) کے لئے ( پھر سے ) جمع ہوگئے ہیں ،لہذا ان سے ڈرتے رہنا ۔تو اس ( خبر ) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ :کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے،اور وہ بہترین کارساز ہے ۔‘‘

 یہ چند باتیں جوانہوں نے تفصیل کے ساتھ علماء کی مجلس میں رکھی تھیں ،اس کو بہت اختصار کے ساتھ ذکرکیا گیا اس کے علاوہ بھی اوراہم ترین کام ہیں جو علما ء کو اس وقت انجام دینے ہیں ،اور الحمدللہ اکابر اور مفکر علماء کرام اس جانب اپنے خطابات میں توجہ دلارہے ہیں ،اتحاد اتفاق کے ساتھ جدوجہد کرنے اور دینی تعلیم کو عا کرنے کی بھی ضرورت ہے ،آپسی اختلاف وانتشار کو ختم کے متحدہ فکر کے ساتھ باطل طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے ،دین و شریعت کی تفہیم اور مسائل واحکام کی آسان تشریح کے ذریعہ ذہنوں ودماغ کے شکوک وشبہات دورکرنا ہے ۔

آخر میں مفکر اسلام حضرت ابوالحسن علی ندوی ؒکی یہ ایما ن افروز اور احساسِ ذمہ داری کو مزید پروان چڑھانے والی فکر انگیز بات کو بھی ملاحظہ کریں جو انہوں نے غلو پسند لوگوں کی تحریف ،اہل باطل کے غلط انتساب ودعوے اور جاہلوں کی دور از کار تاویلات سے دین کی حفاظت کرنے والی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ’’وارثین ِ کتاب ،نائبین انبیاء اور عام فہم الفاظ میں ’’علمائے دین ‘‘ کی یہ اتنی بڑی ذمہ داری اور اتنا نازک معاملہ ہے کہ اگر اس کا صحیح ادارک ہوتو جن لوگوں کو اللہ نے یہ شرف عطا فرمایا ہے ،اور ان کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے ،ان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ،راتوں کی نیند اڑجائے اورکھانے پینے کی لذت ختم ہوجائے اور ان کا سکون ہمیشہ کے لئے جاتا رہے۔‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔