سپریم کورٹ کا دائرہ کار قانون سازی نہیں قانون کی تعبیر و تشریح ہے

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کو کم سے کم اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے
عبدالعزیز

کلکتہ.26دسمبر:کل ہند مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال کے جنرل سکریٹری عبدالعزیز نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی کے بیان کو قابل افسوس اور قابل مذمت بتاتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ اگر یکساں سول کوڈ نافذ کرے گا تو مسلم پرسنل لاء بورڈ اسے قبول کرے گا۔ مولانائے محترم کو اس ملک کے قانونی نظام کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ قانون بنانے یا قانون میں ترمیم کرنے کا کام عدلیہ کا نہیں بلکہ مقننہ (قانون ساز ادارے مثلاً پارلیمنٹ یا اسمبلیوں) کا ہے۔ عدلیہ قانون کا نفاذ بھی نہیں کرتی بلکہ یہ کام انتظامیہ (Executive) کا ہوتا ہے۔ مولانا نے یہ بات بھٹکل میں بورڈ کی ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ اس میں بورڈ کے دیگر ذمہ داران بھی موجود ہوں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دوسرے ذمہ داروں نے مولانا رحمانی کی غلطی پر ٹوکنے، روکنے یا تصحیح کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بورڈ کی قیادت لاعلمی اور ناواقفیت یا دباؤ کی شکار ہے۔ اگر بورڈ کا یہی حال رہا تو شریعت کے تحفظ کا معاملہ سنگین ہوسکتا ہے۔
بیان کے آخر میں مشاورت کے سکریٹری نے کہاکہ بورڈ کے ذمہ داروں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ موجودہ حکومت اگر یکساں سول کوڈ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے یکساں سول کوڈ کا سرکاری بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا۔ دونوں ایوانوں میں بحث و مباحثہ کے بعد خدا نخواستہ اگر بل پاس ہوگیا تو صدر جمہوریہ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ اگر صدر جمہوریہ نے منظوری نہیں دی تو اس پر حکومت غور و خوض کے بعد دوبارہ بھیج سکتی ہے پھر صدر جمہوریہ منظوری دینے کا پابند ہوگا۔ قانون کے ماہرین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہندستان مختلف مذاہب اور مختلف رسوم و رواج کا ملک ہے۔ یہاں یکساں سول کوڈ بنایا ہی نہیں جاسکتا ۔ دستور ساز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر کی دستور ساز کمیٹی کی بحث کی روداد میں یہ بات آج بھی پڑھی جاسکتی ہے کہ کوئی پاگل حکومت ہی یکساں سول کوڈ بنا سکتی ہے۔ بورڈ کے نمائندے یا ذمہ دار اگر سپریم کورٹ کو عدل و انصاف کرنے کا ادارہ تسلیم کرنے کے بجائے قانون ساز ادارہ مانتے ہیں تو ناواقفیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ جہاں تک بابری مسجد کے تنازعے کے فیصلے کی بات ہے تو وہ یقیناًسپریم کورٹ فیصلہ دے سکتا ہے کہ دونوں فریقوں میں سے کس کی بات عدل و انصاف کے قریب ہے۔ یکساں سول کوڈ کے تعلق سے جو بات سپریم کورٹ میں کہی جاتی ہے یا کہی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ سپریم کورٹ حکومتوں پر یکساں سول کوڈ بنانے پر زور کیوں نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ جب بھی یکساں سول کوڈ پر زور دیتا ہے اسے Judicial Activism کہا جاتا ہے جسے قانون کے ماہرین ناپسند کرتے ہیں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔