سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ لاء کمیشن بھی!

محمد بہاؤالدین

سپریم کورٹ میں جاری مقدمہ نسبت طلاق ثلاثہ کے دوران 5؍ستمبر کو مرکزی حکومت کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنا حلف نامہ داخل کرے۔جس کی بناء پر حکومت ہند نے 7؍اکتوبر کو اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے اپنی معلنہ پالیسی و پروگرام کے تحت کہا کہ طلاق ثلاثہ اسلام کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نکاح،حلالہ، کثرت ازدواج والے معاملات کی مذہبی عمل آوری میں غیر مکسود یعنی صحیح نہیں ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم ممالک جن کا سرکاری مذہب اسلام ہے جنہوں نے اس قسم کی مذہبی تبدیلی کی ہے جس کی بناء پر 29؍صفحات پر مشتمل حلف نامہ عائلی قوانین میں مروجہ اصولوں سے اختلاف کیا ہے۔ اور اپنے حلف نامہ میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسلم ممالک جیسے ایران، مصر، انڈونیشیا، ترکی، ٹیونیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کا بھی ذکر کیا ہے۔ حکومت کی سوچ کے پیچھے مسلمانوں میں عورتوں کے ساتھ ہونے والا غیر مساویانہ سلوک و برتاؤ ہے جس کے بارے میں حکومت کوئی بھی گفتگو قابل شنید نہیں سمجھتی۔ اس طرح دستوری اقدار ، مساوات کے خلاف حکومت کے پاس کوئی بھی عمل ناقابل برداشت ہے۔ اس حلف نامہ کی بنیاد میں حکومت خود کو یو این اے کے مستقل ممبر ہونے کے ناطہ یونائٹیڈ نیشن سے چارٹر کی مطابقت میں اپنی مساویانہ حقوق کے لئے کوشش ظاہر کی ہے۔ اور اس تناظر میں سول کوڈ پینل کے صدر نے بھی ایک اپیل 8؍اکتوبر کوشائع کی ہے اور اس خصوص میں وہ مختلف سماجی، غیر سرکاری، ماہرین قانون، عام شہریوں، سیاسی جماعتوں سے خواہش کی ہے کہ وہ اس اپیل کے ساتھ منسلکہ 16 سوالات پر مشتمل سوال نامہ کوپر کرتے ہوئے اندرون 45 دن اپنے جوابات داخل کریں تاکہ مستقبل میں ضرورت محسوس ہو ان سے مشاورت بھی کی جاسکے گی۔ یہ اپیل لاکمیشن کی ویب سائٹ پر جاری ہوئی ہے اور لاکمیشن نے خواہش کی ہے کہ اپنے جوابات ذریعہ پوسٹ روانہ کریں یا پھر ذریعہ ای میل اس ویب سائٹ پر [email protected] پر روانہ کریں۔
مذکورہ اپیل و سوال نامہ صرف انگریزی میں ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا ہے۔ جبکہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں رہنے بسنے والے لوگ ریاستی زبان کو ہی سمجھتے، پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ کیونکہ کشمیر سے کنیا کماری تک اقلیتی طبقہ کے لوگ مسلمان، سکھ ، عیسائی، جین، پارسی اور بودھ کے پرسنل لاء جو اس وقت لاء کمیشن کے زیر نظر ہے اور انہی کے لئے یکساں سول کوڈ بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔ اس لئے چونکہ صدر نشین لاء کمیشن سپریم کورٹ کے سابق جج و ماہرقانون ہیں اس لئے کسی بھی قانون کے تدوین سے پہلے جن کے لئے قانون بنایا جارہا ہے ان کی رائے جاننے کی کوشش فطری عدل کا تقاضہ ہے۔ جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن جن کے لئے کوشش کی جارہی ہے انہیں معلومات، علم و اطلاع، واقفیت کرانے کے بعد ہی اگر لاء کمیشن اس خصوص میں پہل کرے تو عدل فطرت انسانی کے عین مطابق ہوگا۔ اس لئے عملاً ہمارا مطالبہ ہے کہ لاء کمیشن کم سے کم ریاستی زبانوں میں اپنی اس اپیل اور سوال نامہ کو مہیاکراکر ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اس کی اہمیت، افادیت، ضرورت سے عوام کو واقف کراکر ریاستی زبان کے سرکاری اخبارات، ریڈیو ، ٹی وی پر مہیا کرنے کے بعد ہی اس خصوص میں پہل ہو۔ یہ جمہوریت کا سب سے اہم پہلو ہے کہ قانون سازی عوام کے لئے، عوام کے ذریعہ ہورہی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو اس خصوص میں کی جانے والی قانونی کارروائیوں میں بنیادی نقص ہوگااور وہ عدالت کی نظر میں یہ عوام کی پیٹھ پیچھے کئے ہوئے قانون کے وہ پابند نہ رہیں گے۔اس لئے ریاستی زبانوں میں شائع کرنے کے بعد اس خصوص میں جوابات داخل کرنے کی تاریخ میں توسیع کی جائے۔
مشاہیر اسلام، مفکرین اسلام، ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے وکلاء، سابقہ ججس ہائیکورٹ و سپریم کورٹ کے مشوروں سے دستوری بنچ پر اب تک اٹھائے گئے سوالات کے مقدمات کی روشنی میں فیصلے جات کے مطابق مشاورتی میٹنگ ریاستی اور مرکزی سطح پر ضروری امر ہے تاکہ عام لوگوں میں بھی پرسنل لاء سے متعلق شعور بیدار ہوسکے اور اگر رائے دینی ہو بلالحاظ مسلک متفقہ و مشترکہ طور پر اپنی آراء کو لاء کمیشن تک پہنچا سکے۔ چونکہ یہ مسئلہ قانونی سطح پر ہونے والا ہے اس لئے سیاسی، سماجی تنظیموں کا اس میں اہم رول رہے گا۔ جنہوں نے اب تک آزادی کے بعد سے ضرورت نہیں سمجھی کہ آرٹیکل 44 کے ذریعہ یکساں سول کوڈ نافذ ہو۔ اس وقت جبکہ ایک معاملہ طلاق ثلاثہ کی نسبت سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے لیکن حکومت کی معلنہ پالیسی کے مطابق یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا جن کا انتخابی منشور تھا انہوں نے پوری طریقہ سے ماحول کو پرنٹ، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا سے یکساں سول کوڈ کے لئے ماحول تیار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یعنی مذکورہ مقدمہ طلاق ثلاثہ ایک بہانہ تھا اور مسلم پرسنل لاء اصل میں حکومت کانشانہ ہے۔ اقلیتوں میں مسلم ہی نہیں بلکہ سکھ، جین، پارسی، عیسائی وغیرہ بھی شامل ہے اس لئے انہیں بھی اس سلسلے میں متوجہ اور متحرک کرانے کی ضرورت ہے۔ اس مختصر مدت میں آزادی کے بعد سے جو کوشش حکمت، مصلحت اور عوام کے مزاج و معیار کے لحاظ سے نہیں کی گئی اس سے موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے سے متعینہ مدت میں تکمیل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ لیکن مذکورہ بالا تجویز عوام کی مطلع کے لئے انہیں موقع فراہم کرنا اور ریاستی زبانوں میں اس کی اطلاع دینا نہایت از حد ضروری ہے۔ گو کہ موجودہ حکومت اپنی معلنہ پالیسی و ایجنڈہ کے باوجودجون 2016ء ؁ میں ہی لاء کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی تھی جس کی تعمیل و تکمیل میں لاء کمیشن نے مذکورہ اپیل شائع کی ہے۔ جس میں یکساں سول کوڈ کے خطوط کا اظہار بھی نہیں ہے کہ پالیسی کس طرح کی ہوگی۔ ہندوستان میں مذہب کا مطلب عقیدے کا قبول کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف عبادت گاہوں کا تصور بھی شامل ہے۔ مندر، گردوارہ، مساجد، کلیسا، پارسیوں کی اگیاری وغیرہ کے علاوہ عقیدہ عبادت، رسوم اور مذہب کے ماننے والوں کو سیکولرازم میں ان سب کو دستوری آزادی ہے۔ جنہیں بنیادی حقوق کے عنوان سے دستور کے باب نمبر 3 میں شامل کیا گیا ہے تاکہ مقننہ انتظامیہ اس میں مداخلت نہ کرسکے۔ سپریم کورٹ ہو یا ہائیکورٹ عدلیہ ہمیشہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے جو یونائیٹیڈ اسٹیٹس کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی نوٹ لیتی ہے۔ چنانچہ SAINT XAVIAR COLLEGE مقدمہ میں ہندوستان کے مشہور جسٹس کھنہ نے 1974ء ؁ میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ مہذب قومیں اپنا جو دستور بناتی ہیں اور جو قانون نافذ کرتی ہیں ان میں عام طور پر اقلیتوں کے تحفظات کی دفعات موجود ہوتی ہیں۔ حقیقت میں یہی تہذیب کی نشانی ہے۔ یہ ہمارا اور اس طرح کا ایقان اقلیتوں کو احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں محفوظ ہے ان پر کوئی جبر نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘ اس فیصلہ کے وقت بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ہمیں انسانی حقوق کمیشن اور بین الاقوامی معاہدہ کمیٹی International Covenant On Civil & Political Right(ICCPR)کی دفعات 18,23,40 اقلیتوں کے متعلق ہیں جسے حکومت کے علم میں لانا چاہئے۔ قارئین کی تازہ یادداشت کے لئے آئین کی دفعہ25 صرف اقلیتی شہریوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ ملک کے ہر باشندہ پر لاگو ہوتی ہے۔

مذہب کی آزادی کا حق
(1)آرٹیکل 25(1)، امن عامہ،اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصے کی دیگر توضیحات کے تابع تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادئ مذہب قبول کرنے اور اس کی پیروی و تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے۔
(2) اس دفعہ کا کوئی امر کسی ایسے موجودہ قانون کے نفاذ کو متاثر نہ کرے گا اور نہ ایسے قانون کے بنانے میں مملکت کے معنی ہوگا جو
(الف) کسی معاشی، مالیاتی، سیاسی یا دیگر غیر مذہبی سرگرمی کو جس کا تعلق مذہبی عمل سے ہوسکتا ہے منضبط کرے یا اس پر پابندی لگائے۔
(ب) سماجی بہبود اور سدھار کے لئے یا ہندوؤں کے عوامی نوعیت کے مذہبی اداروں کو ہندوؤں کے تمام طبقوں اور فرقوں کے لئے کھول دینے کے بارے میں توضیح کرے۔
تشریح نمبر(1): کرپان باندھنا اور اس کو ساتھ رکھنا سکھ مذہب کے عقیدوں میں شامل ہونا متصور ہوگا۔
تشریح نمبر (2) کے ذیلی فقرے (ب) میں ہندوؤں کے حوالے سے یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ ، جین یا بودھ مذہب کے پیروؤں کا حوالہ شامل ہے اور ہندو مذہبی حوالوں کی حسبہٗ تعبیر کی جائے گی۔
دستور کے باب (3) میں بنیادی حقوق میں مذہبی آزادی سے متعلق شامل ہے جبکہ دستور کے باب (۴) میں جو مملکت کی حکمت عملی کے ہدایت و اصول ہے جس میں آرٹیکل 44کا ذکر اس طرح ہے کہ
( آرٹیکل 44 مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو)
آئین ساز کمیٹی، سپریم کورٹ اس حکمت عملی کے اصول کو بنیادی حقوق کے تابع رکھا ہے۔ لیکن اب موجودہ ماحول، معیار و لحاظ کے حساب سے موجودہ حکومت کی مینو فیسٹو اور اس کی بنیاد پر منتخب ہوکر حکومت سازی کرنا جس کے بعد سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے ذمہ داروں نے یکساں سول کوڈ کے لئے افراد کی طاقت کے بل بوتے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اس لئے ہندوستان کی تمام اقلیتیں سکھ، عیسائی،جین ، پارسی وغیرہ تکثیریت کے باوجود وہ اپنی اکائی حیثیت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ہندوستان کی یہی خصوصیت کی وجہ سے اس کی عظمت ساری دنیا میں ہے۔ جس کی شناخت اور حفاظت قانونی طور پر متحدہ، متفقہ و مشترکہ کوششوں سے متعینہ مدت میں کرنا ضروری ہوگا۔ اس لئے لاء کمیشن کی شروع کردہ کارروائی کا سنجیدگی اور ٹھنڈے دل سے یکسو ہوکر ہندوستان کی تکثیری حیثیت کو قائم رکھنا یہ وقت کا تقاضہ ہے۔ لاء کمیشن کی اپیل کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہندوستان میں ان لوگوں کے لئے جو امتیازات کی چوٹ کا شکار ہیں اور جس سے حکومت و لاء کمیشن سمجھتا ہے کہ وہ غیر محفوظ حملے کی زد میں ہیں اس لئے انہیں یا اس طبقہ کو مختلف تہذیبی عمل معمول سے ہم آہنگ کرنے کے لئے یہ قانونی کوشش کا روپ دھار لیا گیا۔ جس کے لئے ہندوستانی شہریوں، مذہبی گروپس، سماجی گروپس، اقلیتی گروپس، غیر سیاسی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی سے مشورہ مطلوب ہے۔ جس کے بعد ہی اس خصوص میں نام نہاد اصلاح جسے دستوری اور مذہبی سمجھا جارہا ہے ان پر سیاسی مباحثہ بھی ہوسکے گا۔ مذکورہ بالا اپیل کے پس منظر میں سپریم کورٹ میں زیر تصفیہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کس طرح سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینل پر پروگرام وغیرہ سے متاثر ہوئے بغیر عدلیہ کو قانونی، دستوری حدود میں فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن مجوزہ سول کوڈ کی تیاری اس وقت گرم لوہے پر ہتھوڑا مارنے کے مصداق ہے۔ سوالات کی ترتیب سے مجوزہ سول کوڈ کے دائرہ اور خاکہ کا اظہار ہوتا ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا اگر مجوزہ سول کوڈ کا ایک خاکہ مرتب کرکے اپیل کے ساتھ منسلک کیا جاتا۔ تاکہ عام سکھ، عیسائی، جین، پارسی، اس خاکہ نقشے کے بعد ہی لاء کمیشن کی نیت سے واقفیت کرلیتے اور اپنی رائے بھی انہیں دینے میں آسانی ہوتی۔ عام آدمی سوال نامہ کے پس منظر سے واقف نہیں ہوسکے گا جتنا کہ ماہرین دستور، قانون، سماجیات اور سیاست سے واقف حضرات، ان کے جوابات مختصر مدلل مبسوط طریقہ پر دے سکتے ہیں۔ کیونکہ مرکز کا محکمہ قانون انصاف اس وقت متحرک ہی نہیں بلکہ متعین مدت پر عمل آوری پر مجبور ہے۔ حکومت کو آرٹیکل 44 کے منشاء اور مقصد کے لئے جن وجوہات کی بناء پر قانون سازی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اسے عام عوام کے سامنے واضح کردیا جانا چاہئے تھا تاکہ مسلم اقلیت کے علاوہ عیسائی، جین، پارسی، سکھ وغیرہ بھی واقف ہوجاتے۔ آرٹیکل 25 بنیادی حقوق ہمیشہ سے دستور کے باب (چہارم) میں دئے گئے۔ مملکت کی حکمت عملی کے اصول پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے۔
ماضی میں سپریم کورٹ میں لئے گئے فیصلہ جات، دستور ساز اسمبلی کے مباحث، بین الاقوامی چارٹر میں دئے گئے مذہبی آزادی کے تیقنات اور عالمی معاہدات کے تحت منظور کردہ پالیسیوں پر نظر رکھتے ہوئے مختلف سماجی، سیاسی، مذہبی تنظیموں کے مشترکہ اجلاس منعقد ہوکر یکساں سول کوڈ کے ہونے والے اثرات پر قانونی رائے زنی ہو۔ جس میں فالی نریمان، سولی سراب جی، ایڈوکیٹ تلسی،حاتم مچھالا، ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء، سابق سالیسٹر اٹارنی جنرل و سابق ججس کے مشوروں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ تاکہ حکومت کے مافی الضمیر اور ایجنڈے سے متعلق دستوری حدود میں مشاورت ہوسکے۔ کیونکہ بھی مسلمانوں کا شریعت ایکٹ اور اس کے مطابق دئے گئے فیصلے جس میں جسٹس کریم چاؤلہ کا فیصلہ کے 1937 کا ایکٹ دستور کے چوکھٹے میں ہے جس کی آج تک تنسیخ نہیں ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ سے متعلق ٹائمز آف انڈیا مورخہ 8اکتوبر کے مطابق مسلم ممالک کی فہرست جس میں ایران، مصر، ترکی، انڈونیشیاء، پاکستان، بنگلہ دیش کا ذکر کیا۔ ان ممالک میں شخصی قوانین میں اصلاح کی ہے۔ لیکن جن اصلاحات و ترمیمات کے لئے جن ممالک کے ناموں کا استعمال ہوا ہے وہ تو حلف نامہ کودیکھنے کے بعد ہی ان ممالک کے نام نہاد ترمیمات کے بارے میں ان کے متن کے ساتھ رائے دہی کی جاسکے گی۔ لیکن ہندوستان کو جمہوریت نے ان ممالک سے ممتاز و ممیز رکھا ہے۔ جس کی عظمت کی ہمیں فکر ہے۔ جس کے لئے ہم کوشاں بھی رہیں گے۔ لیکن اس بات کا ذکر پڑوسی بنگلہ دیش جہاں سیاست ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی اور وقتاً فوقتاً اس کا ملٹری غلبہ بھی رہا اور پاکستان میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ بنیادی حقوق عوام کو حاصل ہے جس کی معلومات عام شہریوں سے زیادہ حکومت وقت اور لاء کمیشن کو ہے۔ جن ممالک کا ذکر حکومت نے اپنے حلف نامہ میں کیا ہے اور جنہیں استدلال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے وہاں کے دستور میں ہندوستان کی طرح بنیادی حقوق و مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول جو یہاں بانی دستور نے اپنی بے لاگ رائے، رات دن کی جاں فشانی اور بے لوث خدمات کے ذریعہ دستور سازی کی ہے جس کے مباحث کے اس موقع پر حکومت کے لئے مشعل راہ ہے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے وکلاء کا بمبئی، بنگلور، کلکتہ، لکھنؤ، حیدرآباد جیسے شہروں میں ماہرین قانون کی موجودگی میں میٹنگ کے انعقاد سے سینئر صحافی، سینئر وکلاء و ججس کو متحرک ہی نہیں بلکہ متحد کرنا،سماجی مذہبی تنظیموں کی جوابداری ہے۔ جس میں جماعت اسلامی، مجلس مشاورت، جمعیت علماء وغیرہ کل ہند سطح پر اپنے اثرات رکھتی ہیں۔
ہمیں ہندوستان جیسے کثیر مذہبی معاشرہ میں سماجی انصاف کو یقینی بنانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ یہاں متعدد مذاہب ،بعض مذاہب اقلیت میں ہے ۔ محض عددی تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی شخص یا جماعت کسی کے خلاف ضد نہ کرے۔ معاشرہ کی ترقی اور بہتر ہندوستان کی تشکیل جو ہمارے اسلاف کا ہدف تھا اس کے لئے ضروری ہے کہ یہاں کا ہر شہری محسوس کرے کہ اس کے ساتھ انصاف ہوگا۔ اگر مذہبی بنیاد پر ظلم ہوگا تو یہ پورے ملک کے لئے تباہ کن ہوگا۔ انصاف کے دئے جلتے ہیں تو حق کی روشنی پھیلتی ہے اور ظلم کا مضدر ہی ظلمات یعنی اندھیرے ہیں۔ معاشرتی سطح پر رواداری، برداشت اور انصاف مستقبل کے ہندوستان کے لئے وہی بہارلاسکتا ہے جو سابق میں تھا۔ ظلم و انصافی ملک کے لئے نقصاندہ ہے اس لئے تاریخ سے سبق سیکھ کر بہتر مستقبل کے لئے متحرک و متحد ہونا ہے۔ ہندوستان کی اس خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ شبلی نے لکھا تھا ؂
یہی وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی
کہ جن سے بوستان ہند برسوں تک معطر تھا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔