سچ یہی ہے نوشتہ دیوار پڑھ لیجئے!

یوپی کے عوام کا خواب ،سیکولر جماعتوں کا اتحاد
ڈاکٹر اسلم جاوید
جیسے جیسے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں اسی کے مطابق سیاسی جماعتوں کی سانسیں تیز ترہوتی جا رہی ہے۔ہر کوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ ریاست میں اس کی سرکار بننی طے ہے۔اس معاملے میں بی ایس سپریمو مایا وتی خود اعتمادی سے لبریز نظرآ تی ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتی ہیں وہاں اپنی تقریروں میں صرف وزیر اعظم کوکوسنے اور ریاستی حکومت کو ناکام قرار دینے میں ہی اپنی ساری قوت ضائع کرتی دکھا ئی پڑ تی ہیں۔حالاں کہ ریاست میں شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں اکھلیش حکومت کے سبھی ترقیاتی کام زبان حال سے چیخ چیخ کر یہ نہ بتا رہے ہیں کہ یوپی کو سماجوادی حکومت نے جس قدر ترقی دلائی ہے، اتنی ترقی کے بارے میں بی ایس پی سر براہ مایا وتی نے کبھی خواب خیال میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ کبھی وسیع و عریض یو پی کے چاروں سمت مساوی ترقی کا ایسا نظام نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکیں گی۔وہ بھی ایسے حالات میں جب مرکز میں ایسی سرکار موجود ہے جس کے ایجنڈے میں صرف وہی ریاستیں مرکزی حکومت سے تعاون اورفنڈحاصل کرنے کی مستحق ہیں جہاں یرقانی پرچم لہرا رہا ہے اور بی جے پی یا اس کی اتحادی حکومتیں قائم ہیں۔اس کے برعکس جس زمانے میں مایاوتی اترپردیش کی وزیر اعلیٰ ہواکرتی تھیں اس وقت مرکز میں یو پی اے زیر اقتدار تھا اور کانگریس پارٹی کی قیادت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھال رہے تھے ،جبکہ بی ایس پی سابقہ یوپی اے حکومت کو باہر سے حمایت دے رہی تھی۔ایسے مناسب اور معاون حالات میں بھی اگر مایا وتی ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بجائے اپنی ذخیرہ اندوزی اور مٹی گاڑے کے ہاتھی بنانے میں ملک کے قیمتی اثا ثے کو ضائع کرتی رہیں تو سمجھا جاسکتا ہے کہ بی ایس پی خاص کر مایا وتی کے ذہن میں ترقی کا محور کیا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مایا وتی کا سارا بھاشن مودی اور اکھلیش کو کوسنے تک محدود رہتا ہے اور وہ ریاست کو ترقی دلانے کیلئے کون سا پلان رکھتی ہیں یہ سننے سے عوام کے کان محروم رہ جاتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کے خیال میں انتخابات سے پہلے کا موسم عوام کو رجھانے کیلئے اپنے کاموں اور ترقیاتی منصوبوں کو واضح کرکے پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔مگر بی ایس پی کے پاس نہ ماضی میں ایسا کوئی ایجنڈہ رہا ہے اور نہ مستقبل میں اس کے نظریات ترقی سے آ ہنگ ہیں ،لہذا عوام کو گمراہ کرکے اپنا کام نکالنے کا مایا وتی نے یہی آسان راستہ منتخب کیا ہے۔رہی بات بی جے پی کی تو اس کے ہاؤ بھاؤ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زعفرانی پارٹی نے الیکشن سے پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کرلی ہے ۔دورروز پہلے ہی اترپردیش بی جے پی اور آر ایس ایس کے سیاسی تجزیہ کاروں کی رپورٹ بی جے پی ہائی کمان کو موصول ہوئی ہے ،جس میں ریاستی بی جے پی اورسنگھ سیوکوں نے کہا ہے کہ یا تو نوٹ منسوخی کے تغلقی فرمان کو مودی جی واپس لیں یا انتخابات کو آگے تک ٹالا جائے ،ورنہ بی جے پی کی ہار یقینی ہے ۔یہاں کے مزدوروں ،کسانوں اور متوسط طبقہ میں مودی کی نوٹ بندی کیخلاف شدید بے چینی پا ئی جا تی ہے اور اگر اس صورت حال میں انتخابات کرائے جاتے ہیں تو رائے دہندگان بی جے پی کیخلاف ووٹ دیکر مودی حکومت کو بیک فٹ پر بھیجنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ گزشتہ10دسمبر2016کو وزیر اعظم نریندر مودی بہرائچ میں ریلی کرنے والے تھے ۔جہاں مودی جی کے شاہی استقبال کیلئے کروڑو ں روپے پانی کی طرح بہائے گئے تھے اور ایسے وقت میں جب نوٹ منسوخی کی وجہ سے عام لوگ بھوکے مرنے پر مجبور ہیں ،کسان کھیتی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرپارہے ہیں ،دوہزرار روپے کیلئے بنکوں کے سامنے لمبی قطاروں میں لگے بدحواس عوام اپنی قیمتی جان گنوا رہے ہیں۔ بی جے پی کی ریاستی یونٹ نے مودی کے لئے شاہی اسٹیج تیار کرنے میں خطیر رقم لگادی اور اتنی موٹی رقم بی جے پی کوکیسے دستیاب کرائی گئی ،یہ ایک پیچیدہ سوال ہے ،جس کا جواب بی جے پی کیخلاف غصہ کی شکل میں ریاست کے رائے دہندگان کے سینوں دہک رہا ہے۔غالباً عوام کے اضطراب کی بھنک مودی جی کو عین موقع پر ہی لگ گئی تھی ۔اس لئے وزیر اعظم نے ریلی میں جانے کا فیصلہ ملتوی کردیا اورہیلی کاپٹر اوپر سے ہی موڑ لیا گیا اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ وزیر اعظم نے ریلی سے خطاب کیا۔بی جے پی نے مودی جی کے ریلی میں نہ پہنچنے کی وجہ موسم کی ناسازی بتائی تھی ،مگر حقیقت یہ ہے کہ مودی کے نوٹ منسوخی کیخلاف زبردست غصہ اوراحتجاج کا اندیشہ پارٹی میں کھلبلی مچانے لگا تھا اور مودی جی عوام کا سامنا کرنے کی ہمت جٹانے میں ناکام ثابت ہورہے تھے ،اسی وجہ سے انہوں نے ریلی میں شرکت کا فیصلہ خلا میں میں ہی تبدیل کردیا اور ریلی میں نہیں پہنچے۔مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اب آ ئیے! اس حقیقت کی بات کرتے ہیں جو اس وقت یو پی کے سیکولر پسند عوام کا خواب ہے اور ان کی دلی آرزو یہی ہے کہ کسی طرح بھی سیکولر پارٹیاں منتشر نہ ہوں اور جہاں تک ممکن ہوسکے اتحاد کیلئے پیش رفت کی جائے۔اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے سماجوادی سپریمو ملائم سنگھ یادو کا لہجہ بھی نرم پڑاہے اور کانگریس تو پہلے سے اسی کوشش میں تھی کہ کسی طورپر بھی اتحاد قائم کیاجائے تاکہ سیکولر ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جائے، جس کا راست فائدہ بی جے پی اوردوسری فسطائی طاقتوں کو ملتا ہے۔جب بات چل نکلی ہے تو مسلم رائے دہند گان کی معتبریت پربھی روشنی ڈال دی جائے ،جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اگر مسلمانوں کو منتشر ہونے سے روک لیا گیا تو اچھی خاصی تعدادمیں مسلم امیدواروں کو اسمبلی میں بھیجا جاسکتا ہے جس سے سیکولر آواز کو مضبوطی ملے گی۔یاد رہے کہ اتر پردیش میں مسلم رائے دہندگان کی خاصی اہمیت ہے اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں سیاسی پارٹیاں سیاسی حالات کا رخ تبدیل کرنے کی طاقت رکھنے والے اس ووٹ بینک کو ایک بار پھر اپنے پالے میں لانے کی کوشش میں مصروف ہو گئی ہیں۔آبادی کے لحاظ سے ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں مسلمانوں کی آبادی 19.26فیصد ہے اور ریاستی اسمبلی کی کل 403میں سے 130 نشستو ں پر مسلم رائے دہندگان فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔مسلم رائے دہندگان عام طور پر بی جے پی سے دوری بنائے رکھتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی بی جے پی کو ہی ملتا ہے۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ خود کو سیکولر بتانے والی پارٹیاں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے مسلم رائے دہندگان پر کافی حد تک انحصار کرتی ہیں۔گزشتہ عام انتخابات میں سیکولر جماعتوں کو شرمناک شکست ملی تھی اس کی وجہ یہی برتری حاصل کرنے کی چاہت تھی، جس نے ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں اور2004سے کامیاب ہوتا آ رہا یہ سیکولر اتحاد روئی کے گالے کی طرح اڑگیا اور بی جے پی کو کم ووٹ ملنے کے باوجود بھاری اکثریت حاصل ہوگئی۔اگر اس بار اس سچائی سے انحراف کرنے کی حماقت کی گئی تو یاد رکھنا چاہئے کہ ملک سے سیکولرزم کا نام ونشان مٹ جائے گا اوراس کی ابتدا یو پی سے ہی ہوگی ،جس کی مجرم راست طور پر یہی سیکولرسیاسی پارٹیاں ہو نگی ،جنہیں شاید ملک کی آنے والی تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔