غیبت ایک معاشرتی بیماری

محسن خان 

آج کے اس مصروف ترین دورمیں لوگوں کے پاس سکون سے سانس لینے کی فرصت نہیں ہے ۔ہرکوئی اس تیز رفتار دنیا میں تیزی سے دوڑ رہا ہے تاکہ وہ بہت جلد ترقی حاصل کرسکے۔ ان کے پاس اپنے د و ستوں ‘رشتہ داروں اور یہاں تک کہ والدین کے ساتھ دولمحات گذارنے کی بھی فرصت نہیں ہے ۔ اس کے باوجود اس مصروف دنیا میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر وقت نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ذرا سا کیا وقت ملا ‘ایک دوسرے کے خلاف غیبت اورچغل خوری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے رشتہ داروں‘بھائیوں اور دوخاص دوستوں کے درمیان بھی ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی باتیں کرکے لڑائی ونفرت پیدا کردیتے ہیں اور بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں ۔ان لوگو ں کے پاس زیادہ مصروفیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اِھر کی بات اُدھر کرکے فساد پھیلادیتے ہیں ۔ بعض معاملات میں دیکھاگیا کہ دو لوگ جو آپس میں بہت گہرے دوست ہوتے ہیں اور ہر وقت ہمیشہ ساتھ دکھائی دیتے ہیں اور زندگی کے ہرمعاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔ اچانک ایک دوسرے سے بات کرنا بند کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کا نام سننا تک نہیں چاہتے ۔ دونوں میں سے کسی ایک سے پوچھنے پرمعلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے ان سے کہا ہے کہ ان کے دوست نے ان کے متعلق غلط باتیں کہ ہیں اورنازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں اور ان کا مذاق اڑایا ہے ۔اس لئے وہ ان سے بات کرنا نہیں چاہتے ہیں جبکہ دوسرے دوست سے پوچھنے پروہ بھی اسی طرح کا جواب دیتا ہے۔ دونوں کو اس طرح کی جھوٹی بات کہنے والا ایک ہی شخص ہوتا ہے یا اس کے گروہ کا ہی آدمی ہوتا ہے۔ اس طرح بھائی ‘رشتہ دار یا دوست ان لوگوں کی سازش کا شکار ہوکر ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہیکہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کچھ کہا ہی نہیں ہوتا ہے۔ ایک بات جب یہ لوگ آپس میں بات کرنا بند کردیتے ہیں تو فسادی اور زیادہ حرکیاتی ہوجاتے ہیں اور نت نئے پروپیگنڈہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ جس سے بات ہاتھاپائی تک پہنچ جاتی ہے اور بعض معاملات میں غلط فہمی کی وجہ سے کئی خاندانوں میں قتل کی ورادات بھی ہوئی ہے۔بعض لوگ حسد کے مارے اس طرح کی بے شرمی کی حرکتیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں غیبت کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف قراردیتا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ زمین میں فساد پھیلانے والوں کوپسند نہیں کرتا ہے اوران کا ٹھکانہ جہنم قراردیا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اگرکوئی شخص کہے کہ آپ کے دوست زید نے آپ کے خلاف کچھ غلط بات کہی ہے تو ہم کو سب سے پہلے اس کی بات پر یقین کرنے سے پہلے یہ تصدیق کرلینی چاہئے کہ کیا یہ بات صحیح ہے۔ اس کے لئے ہم کو سب سے پہلے زید سے بات کرنی چاہئے کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ہے ۔ اگرزید کو واقعی شکایت ہے تو اس سے معافی مانگ لینی چاہئے یا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوجائے تو اس کو دور کردینا چاہئے ۔ مگرہوتا یہ ہے کہ بات کچھ اور ہوتی ہے اور درمیانی افراد اس کومسالہ لگاکربڑھا چڑھا کرپیش کرکے بگاڑدیتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن ا ن لوگوں کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور سارے معاشرے کے سامنے انہیں شرمندگی اٹھانا پڑتا ہے۔
وہ کہ نازا ں رہے جن باتوں پہ‘اب دیکھ بھی لیں
آگئے وقت انہیں باتوں پہ پچھتانے کے
اگر ہم کسی غیر کی بات پربھروسہ کرنے کے بجائے راست بات کرلیں تو ان فساد پھیلانے والوں کا پردہ فاش ہوجائے گا ۔مگر اس کے بر خلاف لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا بند کردیتے ہیں جس سے غلط فہمیاں کبھی ختم نہیں ہوتی ہے اوربڑھ جاتی ہیں اور دونوں کا سکون وچین برباد ہوجاتا ہے ۔ ان معاملات میں بعض خواتین کوبھی دیکھاگیا ہے جو بستی کے چار گھر نہ جائیں تو ان کو سکون نہیں ملتا ہے ۔ وہ ایک گھر چھوٹی سی بات کو بڑی کرکے ساری بستی میں پھیلادیتی ہیں اور اس سے ایک گھر کی لڑائی چار گھرتک پھیل جاتی ہے۔ ہم کوچاہئے کہ اگر کوئی اس طرح کی حرکت کرتا ہے تو اس کو روکے اوراوپر حوالہ دی گئی قرآن کی آیتو ں کے بارے میں بتائے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو افراد کا شخصی معاملہ ہے اس میں ہم کونہیں پڑناچاہئے۔ مگر ان لوگوں کوچاہئے کہ وہ دونوں اشخاص کوبیٹھائیں اور جو فساد پھیلارہا ہے اس کوبلاکر صحیح بات کا پتہ چلائیں۔ اس سے دوستوں اوربھائیوں میں پھیلی دوری ختم ہوجائے گی۔اور طرح کا عمل خیر کاہوگا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جوبھلائی کا حکم دیتی ہو اوربرائی سے روکتی ہو۔ ہم کوچاہئے کہ اس طرح کی سماجی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ اورہمارے ساتھ کبھی زندگی میں ایسا معاملہ ہوتا ہے تو ہم کوچاہئے کہ انا پرستی کوختم کرکے خود آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے درمیان کی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ یہ بات حقیقت ہے خاموشی دوریاں بڑھادیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔