سڑکوں کی مرہم پٹی پلاسٹر سے مہنگی

حفیظ نعمانی

وارانسی کے دو روزہ پروگرام میں وزیراعظم کے پاس یوگی سرکار کی تعریف ان کی مجبوری تھی اس لئے کہ ان کو وزیر اعلیٰ بنانے کی ذمہ داری ان پر ہی ہے۔ یہ تعریف اس کے باوجود تھی کہ یوگی کی تاجپوشی کا پروگرام جو صرف چند گھنٹوں کا تھا اس کی تیاری اور میزبانی پر 80/-  کروڑ سے زیادہ خرچ ہونے کا شور پورے ملک نے سنا تھا اور یہ اعلان بھی سنا تھا کہ اس کی تحقیقات کرائی جائے گی لیکن اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی کہ ایل ڈی اے کے کتنے افسروں اور کتنے ٹھیکہ داروں کے خلاف مقدمہ چلا؟

وزیراعلیٰ نے حلف لینے کے بعد حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو احکامات کی جھڑی لگادی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی پندرہ برس سے اترپردیش سانس روکے کھڑا ہے، اب تمام کام بی جے پی سرکار کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے بجلی کے بارے میں کہا کہ اترپردیش میں ہر طرف اندھیرا ہے اب ہر ضلع کے صدر مقام کو چوبیس گھنٹے، تحصیل کو بیس گھنٹے اور گائوں کو اٹھارہ گھنٹے بجلی دی جائے گی۔ تحصیل اور گائوں کی بات تو وہ بتائیں گے جو وہاں رہتے ہیں لیکن سب سے بڑے شہر لکھنؤ کے ہم گواہ ہیں کہ جس دن یہ اعلان ہوا ہے اس دن سے آج تک کوئی دن ایسا نہیں گذرا ہے جب گھنٹوں بجلی نہ رہی ہو۔

ہمارا نہ سماج وادی پارٹی سے تعلق ہے نہ اس کی حکومت سے کچھ لینا دینا لیکن اس بات کی گواہی لکھنؤ میں رہنے والے بی جے پی کے لوگ بھی دیں گے کہ اکھلیش کے زمانہ میں پانچ سال کے اندر شاید ہی کسی دن دو چار گھنٹہ کیلئے بجلی گئی ہو گھنٹوں کے لئے بھی اور منٹوں کے لئے بھی۔

ایک حکم انہوں نے یہ دیا تھا کہ 15  جون تک پورے صوبہ کی ہر سڑک کے گڈھے بھر دیئے جائیں یہ محکمہ ان کے نائب وزیر اعلیٰ موریہ کے پاس ہے وہ موریہ جو وزیر اعلیٰ بننے کی دوڑ میں خود دعویدار تھے۔ انہوں نے 15  جون کو خوشخبری سنائی کہ 85  فیصدی کام ہوگیا ہے اور یہ ہر اعتبار سے اتنا تھا کہ اتنے بڑے صوبہ کو دیکھتے ہوئے کافی تھا اور جب 21 اگست سے 31 اگست تک اس کی تحقیق کرائی گئی تب معلوم ہوا کہ  ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔‘ اس تحقیق سے ثابت یہ ہوا کہ جو گڈھے سماج وادی حکومت میں تھے وہ تال تلیاں بن گئے ہیں اور کروڑوں روپئے یہ سوچ کر آپس میں بانٹ لئے گئے کہ یوگی جی مہاراج دیکھنے تو آئیں گے نہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اس تحقیق کے نتیجہ میں جس جس کو بے ایمان پایا گیا ان میں 73 افسروں اور دو ٹھیکہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے افسروں کو معطل کردیا۔

پی ڈبلیو ڈی اور اِرّی گیشن سینچائی یہ دو محکمے ایسے ہیں جن کے ایگزیکٹیو انجینئر زیادہ وقت معطل ہی رہتے ہیں اس لئے ان محکموں میں کام نہیں صرف بے ایمانی ہوتی ہے۔ جس زمانہ میں شاردا سہائک نہر بن رہی تھی اس وقت سنبھل کے بھی کئی ٹھیکیدار پورے تام جھام کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ خود ہمارے رشتہ دار بھی سیتا پور کے سرئیاں اور بارہ بنکی کے متئی میں ٹھیکہ لئے ہوئے تھے اور جب جب لکھنؤ آتے تھے تو دعوت دے کر جاتے تھے فرصت میں آئے جنگل میں منگل کا مزہ بھی دیکھ لیجئے۔

اس وقت تفصیل معلوم ہوئی تھی کہ کوئی نہ کسی کو رشوت دیتا ہے اور نہ کوئی لیتا ہے اس کا نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ٹھیکہ دار کو جو رقم دی جاتی ہے اس میں سے جونیئر انجینئر، اسسٹنٹ انجینئر، ایگزیکٹیو انجینئر، چیف انجینئر سے منتری جی تک سب کا حصہ ہوتا ہے اور سب کو بغیر مانگے مل جاتا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ اس کی تفصیل معلوم کرنا چاہیں تو اپنے کسی معتمد کو کسی ٹھیکہ دار کے پاس بھیج کر معلوم کرالیں ہر ٹھیکہ دار گڈھوں کو بھرنے کے لئے بجری کے بجائے مٹی ڈالتا ہے اس لئے کہ اسے بھی حلال کے ساتھ حرام چاہئے اس لئے وہ اوپر سے تارکول کی پالش کردیتا ہے۔

وزیراعلیٰ کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ گڈھوں پر کروڑوں روپئے میں ہی انہیں اندازہ ہوگیا اور تاجپوشی کے 80  کروڑ کے بعد یہ دوسرا جھٹکا ہے اگر انہیں کسی ایسے پل کے بعد پتہ چلتا جیسا مایاوتی کے زمانہ میں بنا تھا اور جس کا افتتاح کرنے ان کے وزیر نسیم الدین صدیقی گئے تو جاکر دیکھا کہ بغیر سواریوں کے چلے اس کے بیچ میں ایک میٹر سے زیادہ لمبا چوڑا ٹکڑا گرچکا ہے یا ایسا پل بنتا جیسا کامن ویلتھ کھیلوں کے لئے دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے بنوایا تھا اور وہ کھڑے کھڑے ہی گرگیا تھا یا نتیش کمار جیسا باندھ بنایا ہوتا جو ایک سال میں ہی پھٹ گیا۔ اور سیکڑوں کروڑ کا نقصان ہوتا۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بگاڑ نیچے سے اوپر کو گیا ہے یا اوپر سے نیچے کو آیا ہے لیکن پورے ملک کا یہ حال ہوچکا ہے کہ کوئی بھی کام ہو آدھی سے کم رقم کام پر خرچ ہوتی ہے اور آدھی سے زیادہ بندر بانٹ میں ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ سننے میں آیا تھا کہ تھانوں کی بولی لگتی ہے اور اب گلے میں زعفرانی پٹکا ڈال کر اپنا حق وصول کرنے والوں کا منھ بھی بھرنا پڑتا ہے۔ اور یہ پولیس والے بتائیں گے کہ انہوں نے وصول کرکے کس کس کو کتنا دیا ہے اور اب ان میں کون کون وزیر ہے۔

بہار میں لالو یادو نے 15  برس حکومت کی ان کے زمانہ میں ٹھیکہ داروں اور سرکاری انجینئروں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا تمام سڑکیں کچے راستے بن گئیں اور جب نتیش کمار وزیر اعلیٰ ہوئے تو انہوں نے اعلان کردیا کہ سڑک مافیا سے کام نہیں کرائوں گا نتیجہ یہ ہوا کہ نتیش ٹنڈر پہ ٹنڈر چھاپتے رہے اور کسی نے ٹنڈر نہیں بھرا اور انہیں بتایا گیا کہ سڑک مافیا کے غنڈوں سے سب ڈرتے ہیں اور سڑک وہی بنائیں گے جو اب تک بناتے رہے ہیں ۔ نتیش کمار کو ان سے ہی صلح کرنا پڑی۔ وزیر اعلیٰ یوگی اپنی ایمانداری اپنے پاس رکھیں یہ بہت بڑی بات ہے کہ مایاوتی، ویر بہادر اور کملا پتی ترپاٹھی کی طرح ان پر کوئی انگلی نہ اٹھائے لیکن وہ اگر یہ چاہیں کہ ان کے سارے وزیر افسر اور ٹھیکہ دار سب ان کی طرح ایماندار ہوجائیں تو جو کام مودی جی نہ کرسکے اسے وہ کیا کریں گے۔ نریندر مودی بھرشٹاچار مکت بھارت کا نعرہ لگاتے ہوئے آئے تھے اور ہر وہ بھرشٹاچار جو اُن سے پہلے ہوتا تھا وہ اب بھی ہورہا ہے اور یہ ان کے ہندوتو کی دین ہے کہ وہ بابا جن کے پائوں کروڑوں چومتے تھے وہ انتہائی گندے الزام میں جیلوں میں بھیجے جارہے ہیں اور ریلوے میں صرف بھرشٹاچار ہے اور پانچ سو روپئے ٹی ٹی کو دے کر جس ٹرین کے جس درجہ میں جہاں چاہے چلے جائیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔