تلنگانہ محکمہ اقلیتی بہبود اور ریاستی اردواکیڈیمی کی جانب سے ’مرقع حیدرآباد‘ کارسم اجراء

  محسن خان

شہر باقی ہے محبت کا نشاں باقی ہے

دلبری باقی ہے دلداری جاں باقی ہے

سرفہرست نگارانِ جہاں باقی ہے

تونہیں تری چشم نگراں باقی ہے

  ایک طویل انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اوربالآخر ماہ محرم سے چند دن قبل علامہ اعجاز فرخ کی کتاب’’مرقع حیدرآباد‘‘جس کا نہ صرف شہریان دکن بلکہ دنیا کے کونے کونے سے ادب نوازوں اور دکن کی زمین سے محبت وعقیدت رکھنے والوں کا انتظارتھا‘وہ ختم ہوا۔17ستمبرسقوط حیدرآباد کا وہ منحوس اور تاریکی دن گذراتھا جس دن ریاست دکن کولوٹاگیا‘اس کوبرباد کیاگیا‘کھڑی فصلوں کوتباہ وتاراج کردیاگیا‘ ہماری محلات ویران کردیئے گئے ‘ ہماری آباواجداد کی وراثت لوٹ لی گئی ۔ایک دن میں ہم بادشاہت سے غلامی میں آگئے اور یہاں جمہوریت قائم ہوگئی۔ اس سیاہ تاریخ کے دوسرے دن یعنی  18ستمبر بروز دوشنبہ کوعلامہ کی کتاب ’’مرقع حیدرآباد کا رسم اجراء نہروآڈیٹوریم ‘مدینہ ایجوکیشن سنٹرنامپلی‘حیدرآباد میں عمل میں آیا۔بہت عرصہ بعد ایسا دیکھنے میں آیاکہ ساڑھے تین سوکے قریب گنجائش والا آڈیٹوریم بھرچکا تھا اور لوگ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑے ہوئے تھے۔ علامہ اعجاز فرخ حیدرآبادی تہذیب کوبرقرار رکھتے ہوئے گیٹ پرسب کا فرداً فرداًاس عظیم الشان محفل میں خیرمقدم کررہے تھے۔ یہ تقریب محکمہ اقلیتی بہبود حکومت تلنگانہ اورتلنگانہ اسٹیٹ اردواکیڈیمی کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔کتاب کی رسم اجراء تلنگانہ کے نائب وزیراعلیٰ جناب محمود علی کے ہاتھوں عمل میں آئی۔

تمہاری فکر کا چہرہ بھی کھل گیا ہم پر

فقط کتاب کی وہ رسم رونمائی نہ تھی

پروفیسر ایس اے شکور سکریٹری اردواکیڈیمی نے کہاکہ مرقع حیدرآباد کتاب اکیڈیمی کی جانب سے شائع ہونے پرانہیں بیحد خوشی ہورہی ہے۔ اس موقع پرانہوں نے اردو کی ترقی کے لئے کئے جارہے ترقیاتی کاموں کا ذکر کیا اوراکیڈیمی کی کارکردگی کی تفصیلات بتائیں ۔عمرجلیل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود تلنگانہ نے علامہ اعجاز فرخ سے خواہش کی کہ اس کتاب کودیگرتلگواورانگریزی زبانوں میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا جائے تاکہ دنیابھر کے لوگ دکن کی تاریخ سے واقف ہوسکیں ۔ اے کے خان مشیراقلیتی بہبود حکومت تلنگانہ نے کہاکہ علامہ کی یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ انہیں کتاب پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت اقلیتی بچوں کے لئے تعلیم کے لئے دن رات کوشش کررہی ہے اورریڈیشنل اسکولوں میں ایک بچہ پرلاکھوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں تاکہ یہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے سماج میں اپنامقام بناسکیں اورماں باپ کاسہارا بن سکیں اور قوم میں پھیلی غربت وافلاسی کودورکرسکے۔ علامہ اعجاز فرخ نے جیسے ہی اپنی تقریر کا آغاز کیا تولوگ ہمہ تن گوش ہوکرآپ کوسننے لگے۔ اور ہر لفظ پرسب کی زبان سے واہ واہ نکلنے لگا۔ علامہ کے مخصوص تقریر سے سب کے چہروں پرخوشی نظرآرہی تھی۔ علامہ اس طرح اردو بولتے ہیں اورایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ سننے والا ساکت ہوکر آپ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ کتاب دکن کی سیاسی تاریخ سے زیادہ تہذیبی تاریخ پرمبنی ہے۔ انہوں نے دکن کی تاریخ پرتفصیلی روشنی ڈ التے ہوئے ماضی کویاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ کس طرح پہلے چھوٹے مٹی کے چراغوں میں لوگ زندگی بسرکرتے تھے۔ مائیں کھانا پکالیتی تھی‘بچے پڑھ لیتے تھے اور دادی سوئی میں دھاگہ ڈالتی تھی۔ پہلے روشنی دلوں میں تھی باہراندھیرا تھا لیکن آج ہرطرف روشنی ہی روشنی ہے لیکن کوئی چیز صاف نظرنہیں آتی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ تاریخ کولکھنا آسان نہیں ہوتا جب تک ماضی کاایک ایک پتھر اس سے سرگوشی نہ کرے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اس بات پرفخر اورخوشی محسوس کرتے ہیں کہ کسی نے بھی مکمل دکن کی تاریخ اب تک نہیں لکھی اورانہیں یہ عظیم موقع حاصل ہوا ہے۔

علامہ اعجاز فرخ نے کہاکہ سقوط حیدرآباد سے زیادہ نقصان حیدرآبادی تہذیب کو 1956میں ہوا جب اسے آندھرا میں ضم کیاگیااوراسے بانٹ دیاگیا اورآندھراوالوں کی یہاں اجارہ داری ہوگئی۔  انہوں نے عمرجلیل صاحب کی درخواست پرکہاکہ وہ خود انگریزی زبان میں اسے ری رائیٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔علامہ نے کہاکہ دکن کی تاریخ کودوحصوں میں تقسیم کیاگیا ہے اورجلد ہی دوسرا حصہ پبلیش ہوجائے گا۔بنڈارودتاتریہ نے کہاکہ حیدرآباد کی تاریخ عظیم الشان رہی ہے اوریہاں کئی باغات اور ندیاں تھیں ۔آج موسیٰ ندی کی حالت خراب ہے جس کوصحیح کرنے کے لئے وہ کوشش کررہے ہیں ۔انہوں نے اکیڈیمی سے مرقع حیدرآباد کوتلگو میں ترجمہ کرکے شائع کرنے کی درخواست کی ۔ ۔اس کے بعدتلنگانہ کے نائب وزیراعلیٰ محموداعلیٰ نے اپنی تقریر میں علامہ کی طرف سے جوسوال کیاگیاتھا کہ اردواکیڈیمی شعراء اورادیبوں کو جو ایوارڈس  پر انعامی رقم دیتی ہے وہ کم ہے اوراس کوبڑھانا چاہئے اس کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اب ایوارڈس کی رقم کودگنا کردیا جائے گا جس پرعلامہ اوردیگر سامعین نے خوشی کااظہار کیا۔ اورساتھ ہی ساتھ محمودعلی صاحب نے کتاب کی قیمت جوایک ہزار روپئے تھی کہاکہ عام آدمی کے لئے اتنی رقم بہت بڑی ہوتی ہے اس لئے اسے فوری پانچ سو کردیاجائے۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ کے سی آر اقلیت دوست ہیں اورجوبھی اقلیتوں سے متعلق نمائندگی کی جا تی ہے وہ اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہوئے فوری احکام جاری کرتے ہیں ۔محمودعلی صاحب نے جیسے ہی قیمت کوہزار سے پانچ سوروپئے کرنے کااعلان کیا سب لوگ کائونٹرکی طرف دوڑپڑے اوردیکھتے ہی دیکھتے ہی ’’مرقع حیدرآباد‘‘کی تمام کاپیاں فروخت ہوگئیں اورکئی لوگوں کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔ اورکئی لوگ کائونٹر پراپنا نام لکھاکرگئے کہ انہیں کل اکیڈیمی سے کاپی دی جائے۔ علامہ کبھی بھی اپنی کتاب کوری پرنٹ نہیں کرتے اورشائد یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوجاتی ہیں ۔اس کتاب میں 1518 سے 1911 تک کی دکن کی تہذیبی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔جرمنی سے بطور خاص برآمد کردہ خصوصی آرٹ پیپر پر (حجم : 170جی ایس ایم کاغذ) رنگین اور باتصویر مجلد شائع ہو ئی ہے۔

اس کتاب میں 288 نادر و نایاب تصاویر اور پینٹنگز موجود ہیں ۔ کتاب کا سائز 11X8.5 ہے۔ اس کتاب کا سرورق مشہور خطاط جناب مختار علی صاحب نے بنایا ہے۔علامہ کی پچھلی کتابیں ،حیدرآباد شہر نگاراں اورگلمسز آف حیدرآباد کو نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب نے حیدرآباد آکر ریلیز کیا تھا اور ستائش کی تھی۔خامہ خوں چکاں اپنا،عکس حیدرآباد حصہ اول و حصہ دوم،مطبخ آصفیہ سب اپنی اشاعت کے دو مہینے کے اندر اندر فروخت ہو گئیں تھی۔ ان کتابوں کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باوجود یہ کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی تھی ۔

یہ پہلا موقع تھا جب کسی کتاب کی رسم اجراء پرمبصر کو موقع نہیں دیاگیا۔ رسم اجراء تقریب میں دیگرسیاسی قائدین کوبھی دی گئی تھی لیکن وہ شریک نہیں ہوسکے۔ عام لوگوں کا تاثر تھا کہ اسٹیج پر ادبی میدان سے زیادہ سیاسی میدان سے وابستہ شخصیات موجود تھیں چونکہ یہ پروگرام حکومت کے دواہم اداروں کی طرف سے تھا شائد اس لئے سیاسی شخصیات کومدعوکیاگیا۔تقریب میں تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیات موجود تھیں ۔پروفیسر اشرف رفیع ‘ ڈاکٹرفضل اللہ مکرم‘ڈاکٹرم ۔ق سلیم‘ پروفیسر مسعودخان‘ ایم اے ماجد‘ ڈاکٹروصی بختیاری‘ مکرم نیاز‘معظم راز‘ ڈاکٹرمختاراحمدفردین‘صلاح الدین نیئر‘تسنیم جوہر‘نسیمہ تراب الحسن‘ نکہت آرا شاہین‘ڈاکٹرسید حبیب امام قادری‘ارشدحسین ‘ڈاکٹرناظم علی‘ ، ڈاکٹرمحسن جلگانوی‘فتح اللہ بختیاری‘اسحاق مرزا بیگ ‘جاوید کمال ‘ڈاکٹرعبدالقدوس ‘ڈاکٹرہلال اعظمی ‘اقبال شانہ‘ڈاکٹرجنید ذاکر ‘محمدمصطفی علی سروری اور دیگرمعزز شخصیات موجود تھیں ۔

تبصرے بند ہیں۔