سکونِ قلب کا اب اختتام ہے شاید

افتخار راغبؔ

سکونِ قلب کا اب اختتام ہے شاید

کسی کی چشمِ عنایت کا کام ہے شاید

حیات بخش ہے تیری نگاہِ لطف و کرم

قضا بھی تیرے تغافل کا نام ہے شاید

یہ قصرِ خواب بنایا ہوا بھی تیرا تھا

تِرا ہی ہاتھ پسِ انہدام ہے شاید

کوئی کمال نہیں پھر بھی با کمال ہیں وہ

کمالِ نقد علیہ السّلام ہے شاید

سراجِ علم بجھانے چلی ہوائے جہل

حسد کی آگ پسِ انتقام ہے شاید

یہ چاشنی یہ روانی کہاں مرے بس میں

زبانِ دل سے کوئی ہم کلام ہے شاید

وہ جس نے شعر و سخن پر کیا مجھے راغبؔ

کسی کے عشق کا نقشِ دوام ہے شاید

تبصرے بند ہیں۔