سیاست، مذہب اور انتہا پسندانہ طرزِ فکر کا تصادم 

نایاب حسن

مسلمان بنیادی طورپرجذباتیت زدہ ہیں اور یہ وصف مسلمانوں کے کم وبیش ہرطبقے میں پایاجاتاہے، معاملے کی حقیقت کوسمجھے اورجانے بغیرسرسری جانکاری کے بعدہی ردعمل کااظہارکرناہمارا عام شیوہ بن چکا ہے، مذہب انسان کومعقولیت پسندبناتاہے اوراسلام اس سلسلے میں خصوصی امتیازکاحامل ہے، مگرافسوس کہ ہمارامذہبی طبقہ توعام طورپرقطعی غیرمعقول، متلون مزاج اورزودرنج واقع ہواہےـ حالیہ چندماہ کے واقعات سے اس کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے، تین طلاق بل کامسئلہ جس قسم کی توجہ اور عملی اقدامات کامتقاضی تھا، اس پردھیان دینے کی بجاے ہم محض لفاظی وبیان بازی تک محدودرہے، لوک سبھامیں جب بل پیش اور پاس ہوگیا، تو ملک بھرمیں مسلمانوں نے ہائے توبہ مچایا اوریہ سلسلہ تاہنوزپوری "آب وتاب "سے جاری ہے، اسلامی غیرت یااسلام کے اختصاص وامتیازکااظہار اپنے عمل سے کرناہوتاہے، محض وقتی جوش اورجذبات کے ابال کے تحت شورہنگامہ کرلینا، پھرزندگی جیسی گزررہی تھی، اسی ڈگرپر قائم رہنا، اس سے قوم کاکچھ بھی بھلانہیں ہونے والا ـ

بابری مسجدکے معاملے میں مولاناسید سلمان حسینی ندوی اور شری شری روی شنکرکی بات چیت پر(مسلمانوں کے درمیان) سوشل میڈیا وپرنٹ میڈیا میں اتنا شوروغوغاہوا ہے کہ اس کاعلم گاؤں دیہات میں رہنے والے جدید ذرائعِ معلومات سے نابلد انسان کوبھی ہوگیااور لوگ مولاناندوی کی رائے کی موافقت یامخالفت میں بلاجھجک اظہارِ خیال کرنے لگے، حیرت کی بات ہے کہ مولاناندوی کے مخالفین اورموافقین دونوں نے ادبِ اختلاف یاعلماکی تعظیم و احترام جیسی چیزوں کوبالاے طاق رکھتے ہوئے ایسے الفاظ وزبان کااستعمال کیا، جوعمومی احوال میں معمولی مہذب انسان بھی نہیں کرتا ـ جمہورمسلمانوں کے ذریعےمولاناندوی کی رائے کی جارحانہ مخالفت کے بعد اب شری شری روی شنکرنے ایک نیاشوشہ چھوڑایایوں کہیے کہ نیاپینتراچلنے کی کوشش کی ہے، ان کاکہناہے کہ اجودھیاسے مسلمانوں کاکوئی مذہبی تعلق نہیں ہے اوراگررام مندرکامسئلہ جلدحل نہیں کیاگیا، توہندوستان سیریابن سکتا ہے،حالاں کہ تازہ اطلاعات کے مطابق دوسری جانب شری شری بریلی شریف اوراس کے حلقہ بگوش طبقات کوبھی بابری مسجدپر "بات چیت "کے دائرے میں لانے کے لیے کوشاں ہیں ـ ویسے شری شری کاوہ بیان بظاہرمحض ایک بیان ہے،مگر اس کے پس منظرمیں جس قسم کی نفسیات کام کررہی ہے، اس کی گہرائی میں جائیں ، تو معلوم ہوگاکہ یہ وہی بیانیہ ہے، جو آج ہندوستان کے طول وعرض میں مودی /بی جے پی /آرایس ایس کے لوگوں کے زبان وبیان، حتی کہ باڈی لینگویج سے بھی روز سننے اوردیکھنے کومل رہاہے، شری شری نے جوکہاہے،آج بی جے پی اوراس کے ہم خیال افراد وطبقات کے ذہن ودماغ میں بھی وہی چل رہاہے،یہ الگ بات ہے کہ کوئی خاموش ہے، توکوئی بول رہاہےـ

یہ صورتِ حال صرف مسلمانوں کے لیےتشویشناک نہیں ہے؛ بلکہ ملک کے مجموعی جمہوری ڈھانچے اور داخلی سلامتی کے لیے بھی چیلنج ہےـ شری شری کایہ بیان اس پس منظرمیں بھی دیکھاجاناچاہیے، جو ساڑھے تیس لاکھ کی آبادی والے شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں بی جےپی کی کامیابی کے محض اڑتالیس گھنٹوں کے اندرفرقہ وارانہ فسادات اورکمیونزم کے نظریہ ساز لیڈرلینن کے سٹیچو کے انہدام کی شکل میں سامنے آیاہے، مقامِ حیرت ہے کہ زمینی سطح پربی جے پی اورموجودہ مودی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی بے اطمینانی وبے اعتمادی اور بے درپے بدعنوانیوں کے انکشافات کے باوجود انتخابی سیاست پر تاہنوزبی جے پی حاوی ہے اور صوبہ جاتی الیکشنزمیں لگاتار کامیاب ہورہی ہے، اس کی ایک وجہ تویہی سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کی اکثریت کاایک بڑاطبقہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے دام میں آچکا ہے اورشری شری روی شنکر، ساکشی مہاراج، سادھویوں اوردیگر متعصب سیاست دانوں کی زہریلی گفتگواس کے دل دماغ کاحصہ بن چکی ہے، اس طبقے کوایسالگتاہے کہ مودی اینڈکمپنی ہندوستان کوحقیقی معنوں میں ایک ہندوراشٹر میں تبدیل کرسکتی ہے یاوہ اس خاکے میں رنگ بھررہی ہے، دوسری وجہ موجودہ قومی میڈیاکا جانبدارانہ کردار بھی ہے، ملک کے زیادہ تر میڈیاگروپس بہ زوریابہ زرحکومت کی آغوش میں پناہ گزیں ہوچکے ہیں اور بی جے پی نے بڑی ہوشیاری سے ساری صحافتی برادری (الاماشاء اللہ)کواپنے تابع کررکھاہے؛ چنانچہ مین سٹریم میڈیازیادہ تروہی کچھ بول رہاہے، جوحکومت بُلواناچاہتی ہے اور صحافت حکومت کی پروپگنڈہ مشنری کے طورپرکام کررہی ہے ـ

Religion VS Politics

مسلمانانِ ہندقومی حالات وسیاسیات سے الگ اپنی اندرونی سیاسی، مذہبی وغیرمذہبی کشمکش میں مبتلاہیں ، گزشتہ چندماہ میں تین طلاق بل پرہنگامہ ہاے رستاخیزسے لے کر مولاناندوی، وسیم رضوی، مسلم پرسنل لابورڈ اورحالیہ دنوں میں شاہِ اردن کی موجودگی میں ہونے والی کانفرنس مسلمانوں کے مابین چرچے میں رہی ـ مسلمان ابھی تین طلاق بل سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ مولاناندوی والامعاملہ سامنے آگیا، پھرپگڑیاں اچھلیں ،دشنام طرازیاں ہوئیں ،اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی دہن وذہن کاتعفن باہرنکالنے سے نہیں چوکے،ایم آئی ایم سربراہ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے علماکے اختلاف کو(صحیح یاغلط) اچھی طرح کیش کیا، وسیم رضوی بھی اپنے بے تکے بیانات کی وجہ سے ان دنوں لگاتار نیشنل میڈیا اور مسلم حلقوں میں زیرِ تذکرہ ہیں ،اب شری شری نے ایک نیاشوشہ چھوڑدیاہے اورمسلمان اپنی توانائی اس کی تردید میں صرف کررہے ہیں ،اسلامک ہیریٹیج کانفرنس میں وزیراعظم مسٹرنریندرمودی سمیت مختلف مسلم مکاتبِ فکرکے نمایندگان کی شرکت اور وزیراعظم سے مصافحہ ومعانقہ نے مسلمانوں میں ایک نئی قسم کی بحث کوجنم دیا اور جہاں ایک طبقے نے مودی سے ان علماکی ملاقات کوسراہا، وہیں ایک دوسراطبقہ چیں بہ جبیں نظرآیا، اس کاکہناتھاکہ وہی علما، جوہمیشہ مسلمانوں کویہ کہہ کرمودی سے متوحش ومتنفرکرتے رہے کہ وہ خونی ہے اور گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کاخونِ ناحق اس کی گردن پرہے، آج وہی علما ان کے ساتھ کس طرح ہنستے مسکراتے نظرآسکتے ہیں، اس طبقے کی سوچ یہ ہے کہ ان علمانے قوم کے ساتھ دھوکہ کیا اور منافقانہ رویہ اختیارکیا، حالاں کہ جولوگ مودی کے ساتھ ان کے سٹیج شیئرکرنے کودرست قراردے رہے ہیں ،ان کاکہنایہ ہے کہ مودی چوں کہ تمام ملک کے وزیرِ اعظم ہیں ؛ لہذانہ صرف یہ کہ انھیں وزیرِ اعظم تسلیم کرناہرہندوستانی کی ذمےداری ہے؛ بلکہ ان سے ملنا اوراپنے مسائل واحوال سے واقف کرانابھی ضروری ہے،لہذا مودی سے ان علما کی ملاقات کوتوتنقیدکانشانہ نہیں بنایاجاسکتا، البتہ یہ سوال ضرور کیاجاسکتاہے کہ انھوں نے وزیراعظم کے سامنے کس حدتک مسلمانوں کی نمایندگی کی اور کن مسائل سے انھیں روشناس کرایا؟

بہرکیف ملک کے حالات ایسے ہیں کہ پوراسیاسی وسماجی ڈھانچہ ہی کسی بڑے انقلاب کااشارہ دے رہاہے؛ لہذا تمام ہندوستانیوں (بہ شمول مسلمان) کوپورے قومی منظرنامے کوسامنے رکھ کر سوچنااور غوروفکرکرناچاہیے، مسلمانوں کاعلیحدگی پسندانہ مزاج قطعی غیرمعقول اور نقصان دہ ہے، سسٹم کاالٹ پھیر تمام شہریوں کے لیے اثرانگیز ثابت ہوتاہے؛ لہذااس الٹ پھیر کو درست سمت دینا ہم تمام شہریوں کی ذمے داری ہےـ

رہی بات ملی مسائل ومعاملات کی، تو اس سلسلے میں جیساکہ پہلے عرض کیاگیا ہمارامزاج قطعی جذباتیت پرمبنی ہے، جسے حقیقت پسندی ومعقولیت کی راہ پرڈالنا نہایت ضروری ہے، نہ ہمیں عقیدت ومحبت میں اعتدال قائم رکھناآتاہے، نہ مخالفت واختلاف میں توازن برقراررکھ پاتے ہیں، ہمیں بہ زبانِ خداوندی "امتِ وسط "کہا گیا ہے، مگر ہمارے اطوار اعمال کہیں سے بھی اس کی نشان دہی نہیں کرتے،کئی صدیوں سے ہم دوانتہاؤں میں سے کسی ایک پرکھڑے نظرآتے ہیں ،کبھی افراط کا دامن تھام کراپنی تباہی کاسامان کرتے ہیں اور کبھی تفریط ہمارابیڑاغرق کرتی ہے، ہرشخص قیادت کے فقدان کاروناروتاہے، مگر دوسری جانب ہرشخص ہی (جس پیمانے تک ممکن ہو) خودقائدبننے کی جوڑتوڑکرتابھی نظر آتاہے، گویامسلمانوں کامسئلہ قیادت کافقدان نہ ہوا، قیادت کی کمی وکیفی کثرت ہوا، تعمیرکے سامان کوبھی ہم آلۂ تخریب کے طورپراستعمال کرلیتے ہیں اور پھر ناموافق نتیجے کارونابھی روتے ہیں ،پس ہمیں اپنے ملی مزاج میں تیزی وترشی اورنرگسیت کی بجاے دروں بینی وحقیقت پسندی اور معقولیت ومعروضیت کاپیداکرناازحد ضروری ہے، اس کے بغیرمسائل کاحل تقریباناممکن ہےـ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔