مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور تصورِ دین

آصف علی

مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ موجودہ دور کے ایک عظیم مفکر اسلام، ایک اعلی پائے کے مفسر قرآن، داعی دین اور مجدد ہیں۔ وہ کسی اہم بات، کسی بھی حقیقت، اور کسی بھی معاملے کےلیے کوئی رائے، تصور اور نظریہ قائم نہیں کرتے جب تک کہ اس کے بارے میں اچھی طرح تحقیق نہ کر لیں۔ اور تحقیق کے لیے وہ سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے جو حقیقت ان پر واضح ہوجائے، صرف اسے اپنی رائے اورتصور ونظریہ بناتے ہیں۔ دینیات کے حوالے سے چند اہم ترین اصطلاحات، مثلاً، الہ، رب، عبادت، دین، اسلام وغیرہ کے تعلق سے یہی ان کا اسلوب تحقیق و اختیار ہے۔ ان اصطلاحات میں سے دین کے بارے میں مولانا مودودیؒ کی تحقیق اور اس تحقیق کے نتیجے میں ان کی قائم کردہ رائے کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کروں گا، جسے آپ مولانا مودودیؒ کا تصورِ دین کہہ سکتے ہیں۔

مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نےدین کی جوتعبیر پیش کی ہے اس کےمطابق دین کے سب احکامات اور تعلیمات باہم مربوط ومنظم ہیں. مولانا مودودی رحمہ اللہ نے انسان کے ایک مقصد حیات کا تعین کیا، اللہ تعالیٰ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق واضح کیا اور پھر ان سب باتوں کو ایک دوسرے سے مربوط کردیا۔ ان کے نزدیک’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں دین کی حقیقت کو پوری طرح واضح کرتی ہیں اور انھیٖں کے فہم پر فہم دین منحصر ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’الٰہ، رب، دین اور عبادت، یہ چار لفظ قرآن مجید کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب اور الہ ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی الہ ہے اور نہ رب اور نہ الوہیت و ربوبیت میں کوئی اس کے ساتھ شریک ہے۔ لہٰذا اسی کو اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الوہیت اور ربوبیت سے انکار کردو۔ اسی کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اس کے لیے اپنے دین کو خالص کرلو اور ہر دوسرے دین کو رد کر دو۔ ‘‘

مولانا مودودیؒ کا کہنا یہ ہے کہ یہ اصطلاحیں اپنے حقیقی مفہوم میں ،  اسلام کے دور اول میں موجود رہیں ، لیکن بعد میں بوجوہ یہ اپنے اصل مفہوم سے ہٹتی چلی گئیں اور امت میں ان کے جو مطالب رائج ہوئے، وہ اصل مفاہیم سے مختلف تھے لہٰذا دین کو اپنی اصل حالت میں اس وقت تک زندہ نہیں کیا جاسکتا، جب تک یہ الفاظ اپنے حقیقی مفہوم میں ایک مرتبہ پھر رائج نہ ہوجائیں۔ مولانا مودودیؒ کے نزدیک الوہیت اور اقتدار کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کو الہ ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسے اقتدار کا مالک بھی مانا جائے۔ اسی طرح ربوبیت اور اقتدار کو بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا-اس تعبیر کے تحت انسان کا تصورِ دین اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کے لائق، رازق اور اقتدار کا اصل مستحق نہ مانے۔ انبیاے کرام چونکہ توحید کے اسی جامع تصور کی دعوت دیتے تھے، اس لیے اس سیاسی اقتدار کا قیام مقاصد نبوت میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو انسانی معاملات میں بھی بالفعل قائم کردے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’تمام انبیا نے سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔ بعض کی مساعی صرف زمین تیار کرنے کی حد تک رہیں ، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور بعض نے انقلابی تحریک عملاً شروع کردی، مگر حکومت الہیہ قائم کرنے سے پہلے ہی ان کا کام ختم ہوگیا، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام اور بعض نے اس تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچادیا، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘

اس تعبیر کے تحت مولانا فرائض دین میں ایک چھٹے فرض، فریضہ اقامت دین کا ذکر کرتے ہیں اور اسلام کے سیاسی اقتدار کو قائم کرنے کی جدوجہد کو لازم قرار دیتے ہیں۔ چونکہ یہ کام تنظیم کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس لیے وہ قیام جماعت کوبھی ضروری سمجھتے ہیں اور مسلمان کے لیے لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ ایسی کسی جماعت میں شامل ہو جو غلبہ دین کے لیے برپا ہوئی ہو۔ اگر کوئی ایسی کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا جو غلبہ دین کے لیے اٹھی ہے تو اس کی زندگی کو صحیح اسلامی زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مولانا مودودیؒ لفظ دین کے معنی ومفہوم معلوم ومتعین کرنے کے لیے سب سے پہلے کلام عرب کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ان معانی میں لفظ دین کہاں کہاں استعمال ہوا ہے؟

مولانا مودودیؒ نے مطالعہ قرآن سے یہ بتایا ہے کہ قرآن مجید نے لفظ  دین کومختلف مقامات میں تین معانی اور مفہومات کے لیے استعمال کیا ہے:

1۔ اطاعت و بندگی، صاحب اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے۔

2۔ غلبہ و تسلط کسی ذی اقتدار کی طرف سے۔ (ان دونوں معانی میں یہ لفظ دین درج ذیل آیات میں موجود ہے:

وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ ﴿٥٢﴾

اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں ) چل رہا ہے پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟ [سورہ النحل: 52]

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿٥﴾

اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔ [سورہ البینہ: 5]

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ  ﴿١١﴾ وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٢﴾ قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٣﴾ قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي ﴿١٤﴾ فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴿١٥﴾ لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ ﴿١٦﴾ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ ﴿١٧﴾

اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی بندگی کروں گا۔ تم اُس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو کہو، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا خوب سن رکھو، یہی کھلا دیوالہ ہے۔ اُن پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، پس اے میرے بندو، میرے غضب سے بچو۔ بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا اُن کے لیے خوشخبری ہے پس (اے نبیؐ) بشارت دے دو میرے اُن بندوں کو۔ جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں۔ [سورہ الزمر 11-17]

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٤﴾ هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٥﴾

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اوپر آسمان کا گنبد بنا دیا جس نے تمہاری صورت بنائی اور بڑی ہی عمدہ بنائی جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے بے حساب برکتوں والا ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں اُسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔ [سورہ مؤمن :64-65]

3۔ تیسرا معنی قاعدہ وضابطہ، اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے۔ اسی معنی میں لفظ دین مندرجہ ذیل آیات میں آیا ہے:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٤﴾ وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٥﴾

اے نبیؐ! کہہ دو کہ لوگو، اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اسی خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ [سورہ یونس: 104 -105]

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢﴾

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ [سورہ النور : 2]

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿٣٦﴾

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ [سورہ التوبہ:36]

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ﴿٧٦﴾

تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی اِس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں ، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے۔ [سورہ یوسف: 76]

وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴿١٣٧﴾

اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ اپنی افترا پرداز یوں میں لگے رہیں۔ [سورہ الانعام: 137]

4-بمعنی محاسبہ، اور فیصلہ/جزا و سزا۔

وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ ﴿٦﴾

اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔ [سورہ الذاریات: 6]

وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ ﴿١٩﴾

 اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟۔ ہاں ، تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اُس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا۔ [سورہ الانفطار: 17-19]

مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’دین ان معانی میں الگ استعمال کے ساتھ ایک جامع اصطلاح کے طور پر استمال ہواہے جس میں یہ چاروں معانی شامل ہیں اور وہ ہے ایک جامع نظام زندگی، ایک ایسا دستور حیات جس میں انسان کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرکے اس کی اطاعت وفرماں برداری کرے، اس کے مقرر کردہ قواعد وضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے، اس کی فرماں برداری پر عزت، ترقی اور انعام کا امیدوار ہو۔ اور اس کی نافرمانی پر ذلّت و خواری اور سزا سے ڈرے۔ ‘‘

غالباً دنیا کی کسی زبان میں ایسی جامع اصطلاح نہیں ہے۔ جو اس پورے نظام پر حاوی ہو۔ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ دین جامع نظام زندگی کےلیے بطور اصطلاح کے قرآن مجید میں استعمال کے لیے درج ذیل آیات کریمہ کا حوالہ دیتے ہیں :

1۔ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ

 اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے [سورہ آل عمران:19]

2۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿٣٣﴾

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ [سورہ التوبہ: 33]

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ

ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ [سورہ الانفال:39]

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾

جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے۔ اور (اے نبیؐ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اور اُس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ [سورۃ النصر:1-3]

قرآن مجید کے اختیار کردہ اسی اصطلاح کو اور قرآن مجید کے اس تصور ومفہوم دین کو مولانا نے ایک الہی تصورِ دین کے طور پر اپنایا ہے۔

چونکہ اللہ تعالی نے الدین کو قائم کرنے اور اسے جنسِ دین پر یعنی دنیا میں موجود غیر حقیقی، غیر فطری اور خالق کے بجائے انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے نظام ہائے زندگی پر غالب کرنے حکم اپنے انبیا کو اور اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا واسطہ، اور ان کی امت کو بالواسطہ دیا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کےلیے جد و جہد کرنے کے لیے مولانا نے جماعت اسلامی کی تشکیل دی اور اس جماعت کا نصب العین، اقامت دین، یعنی اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کے ذریعے رضائے الہٰی کا حصول قرار دیا۔

خلاصہ یہ کہ مولانا مودودیؒ کا تصورِ دین ان کا اپنا قائم کردہ تصورِ دین نہیں، بلکہ یہ اللہ کا دیا ہوا مفہوم و معنی اور تصورِ دین ہے۔

تبصرے بند ہیں۔