سیاست مسلمانوں کے لیے شجر ممنوعہ کیوں؟

مسعود جاوید

بعض دانشور حضرات کی رائے ہے کہ مسلمانوں کو صرف اور صرف تعلیم پر توجہ دینی چاہئے اور سیاست سے جتنی دوری بنائیں ان کی صحت کے لئے اچھا ہوگا۔ میں بھی اس کا قائل ہوں کہ تعلیم سے ہی تقدیر بدلے گی۔۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ صرف اور صرف تعلیم پر زور دینے والوں سے مجھے قطعی اتفاق نہیں ہے۔

مسلمان ہی نہیں سماج کا ہر طبقہ اور ہر کمیونٹی کو ہمہ جہتی ترقی چاہئیے اور comprehensive development کے لئے ہر فیلڈ میں فعال رہنا ہوگا اس لئے کہ آپ کے مسائل کا حل دوسرے لوگ سونے کی طشتری میں سجا کر آپ کو نہیں دینے والے ہیں۔

سیاست سے کنارہ کش اپنی دنیا میں مست رہنے والی قومیتوں کا حال جاننے اور سمجھنے کے لیے  اسٹون ایج کی تاریخ کے اوراق الٹنے پلٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ پچھلی نصف صدی کے دوران جو کچھ ہوا اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ ایک ملک میں مسلمانوں نے تعلیم کو اپنایا اور اسی کو پیشہ بنایا اکثر بیشتر اسکول ٹیچر بن کر اپنی دنیا میں مست رہے۔ پھر اس سیکولر ملک میں قومی عصبیت کی لہر چلی اور مسلم قوم اور اس قومیت کے بعض غیر مسلم سمیت سب کو نیست و نابود کرنے کی سازش شروع ہوئی۔ حکومت کے ایوانوں میں ، اقتدار کی گلیاروں میں  اور پارٹی کے دفتروں میں ان کی اجتماعی ہلاکت کے منصوبے بن رہے تھے تو وہاں کوئی اعتراض کرنے والا نہیں تھا۔ کوئی ان کی بات سن کر ان مسلمانوں کو الرٹ کرنے والا نہیں تھا اور بالآخر ایک ایک رات میں سو سو دو سو چار چار سو لوگوں کو اجتماعی طور پر قتل کرکے جے سی بی سے کهیت کهلیان کود کر دفن کردیا۔ ان کی لڑکیوں کے اجتماعی عصمت دری کی گئی اور سفاکی کی تمام حدیں پار کرتے رہے ان کی تفاصیل پڑھنے اور سننے کا متحمل ہر شخص نہیں ہو سکتا۔ کئی سال اسی حالت میں گزر گئے تو بالآخر مہذب دنیا نیند سے بیدار ہوئی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلا اور۔ ۔ ۔ ۔ جو کچھ ہوا وہ ہوا۔

ایک دوسرے ملک میں مسلمانوں نے تجارت کو اپنایا چھوٹی چھوٹی دکانوں سے ہول سیلر بنے اور پھر پوری مارکیٹ پر زبردست گرفت بنالی۔ دوسری کمیونٹی کے تاجروں کو ایسا لگا کہ ان مسلمانوں کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی پکڑ نہیں ہے اس لئے کیوں نہ ان کے خلاف سازش رچی جائے۔ سیاسی حلقوں سے دور مسلمانوں کو پتہ بھی نہ چلا اور ان کے ووٹ دینے کے حقوق مختلف وجوہات کو جواز بنا کر ختم کر دیئے گئے۔

مذکورہ بالا دونوں واقعات مبنی بر حقیقت ہوں یا مفروضے اس سے قطع نظر ، کیا یہ سیناریو محال ہے ؟

سیاست سے مراد صرف انتخابی سیاست کیوں سمجھ لی جاتی ہے؟  سیاست تدبیر کرنے کا دوسرا نام ہے۔ با عزت اور ذمہ دار شہری خود بننے اور اپنی کمیونٹی کو بنانے کی تدبیر کرنا ملک اور قوم کی خدمت کرنا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں صرف چند افراد مرکز میں صدر نائب صدر وزیراعظم دیگر وزراء ریاست میں گورنر وزیراعلیٰ اور وزراء صرف حکومت نہیں کرتے آپ بھی حکومت میں شامل ہوتے ہیں لیکن آپ سب اگر ڈائریکٹ شامل ہوں گے تو سینکڑوں پارلیمنٹ ہال کی ضرورت ہوگی اس لئے آپ اپنے نمائندوں ایم پی اور ایم ایل کے ذریعے شامل ہوتے ہیں۔ اب یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ آپ اپنا نمائندہ کسے منتخب کرتے ہیں۔ یہ نمائندے ووٹنگ کے ذریعے چنے جاتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے انتخابی حلقہ کے لئے جو بہتر ہے اسے نمائندہ بننا چاہیئے تو اسے ووٹ کرنا ہوگا اور اگر آپ نے ووٹ کرنے میں دلچسپی نہیں لی گھر بیٹھ گئے جماعت میں نکل گئے تو بعد میں غلط نمائندہ  اور اس کے نتیجہ میں غلط جکمران کے آنے پر شکوہ نہ کریں اس لئے کہ اس کے لئے ذمہ دار آپ خود ہیں۔

اس لئے جمعیت علماء، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت پرسنل لاء بورڈ امارت شرعیہ ادارہ شرعیہ  دیوبندی بریلوی اہل حدیث شیعہ سنی یا کوئی بھی تنظیم اگر  الیکشن کے دنوں میں کوئی جلسہ منعقد کرنے کا درس قرآن اور دین کی باتوں کے لئے اجتماع کا پروگرام بنائے اس کا بائیکاٹ کریں اور اس دن کو ووٹ کرنے کے لیے فارغ رکھیں۔ الیکشن کیمپین کے دوران اپنی پسند کے پارٹی ورکرز اور لیڈروں کے ساتھ  تعاون کریں اور اپنی پہچان بنائیں تاکہ کل اگر وہ جیت جائیں تو وہ آپ کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں اور اگر جیت نہ پائیں تو بحیثیت اپوزیشن آپ کے حق میں سڑکوں پر اتریں۔

آپ اپنے مسائل کو ہندو مسلم کا عنوان نہ دیں۔ تعلیم صحت صفائی بجلی پانی سڑک سیور حکومتی امدادی اسکیموں سے مستفید ہونا ہر ضرورت مند شہری کا حق ہے۔ ان سب کے لئے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر کام کریں۔

یاد رکھیں NOTA  یا ووٹ نہ کرنا گھروں میں بیٹھنا پکنک پر جانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس عمل سے آپ کا ضمیر تو مطمئن ہوسکتا ہے مگر  دس فیصد ووٹ کسی کو جیتنے اور حکومت بنانے سے روک نہیں سکتا۔ اسی لئے greater evil کے مقابلے lesser evil کو ووٹ کرنا ، آپ کے انتخابی حلقہ سے جو بھی امیدوار ہیں ان میں کم مضر کون ہے اسے ووٹ کرنا دانشمندی ہے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ پانچ سو سے زائد ممبر والے ایوان  میں سو دو سو ایم پی منتخب ہو بھی گئے تو ان کی حکومت تو بنے گی نہیں!  لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اگر مضبوط اپوزیشن ایوان میں نہیں ہوگا تو حاکم آمریت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے من مانی کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔