شبِ غم ایک میں ہی کیا، ہزاروں کو نہ نیند آئی
منشی شریف احمد قریشی
( بھوج پور، مرادآباد، یوپی)
شبِ غم ایک میں ہی کیا، ہزاروں کو نہ نیند آئی
بدلتے کروٹیں، لیکن ستاروں کو نہ نیند آئی
…
غریب اچھے جو فرش خاک پہ آرام سے سوتے
ہوس کے بستروں پہ، تاجداروں کو نہ نیند آئی
…
زمانہ سوگیا آرام سے، کل کے بھروسے پر
نگاہیں سوگئیں، لیکن نظاروں کو نہ نیند آئی
…
بچا لائے ہیں طوفاں سے یہ ہم دامن کشتی کو
سمندر سوگیا، لیکن کناروں کو نہ نیند آئی
…
نہ جانے کون سا جادو ہے، منشی ترے شعروں میں
نہ جب تک سن لیے محفل میں، یاروں کو نہ نیند آئی
تبصرے بند ہیں۔