سیاست میں جرائم پیشہ افراد کا بڑھتا دبدبہ

سہیل انجم

اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں سیاسی و جمہوری اقدار پر زوال آیا ہوا ہے۔ ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ یوں تو زوال کی کئی قسمیں یا کئی مظاہر ہیں جیسے کہ زبان و بیان کا گرتا معیار، مخالفین کے خلاف بے بنیاد الزامات اور انھیں زیر کرنے کے لیے ان کی تذلیل و تحقیر کے علاوہ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال وغیرہ۔ لیکن جو بات سب سے زیادہ باعث تشویش ہے وہ سیاست کا جرائم زدہ ہو جانا یا سیاست میں مجرمانہ پس منظر کے افراد کی آمد اور ان کا بڑھتا دبدبہ ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے مجرمانہ بیک گراؤنڈ پر کوئی ندامت بھی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس کے اظہار میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب تو مرکزی کابینہ میں بیٹھے لوگ بھی حکومت کی پالیسیوں سے عدم اتفاق کرنے والوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ میں ایم پی یا منسٹر بننے سے پہلے کچھ اور تھا۔ میرا بیک گراؤنڈ دیکھ لو۔ دو منٹ میں سیدھا کر دوں گا۔ اس غلاظت میں تمام سیاسی پارٹیاں ڈوبی ہوئی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی پارٹی میں ایسے لوگ زیادہ ہیں تو کسی میں کم۔ لیکن پاک صاف کوئی نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں اب بھی اس برائی سے بڑی حد تک بچی ہوئی ہیں۔

ابھی چند روز قبل سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے اپنے یہاں کی پارلیمنٹ میں جمہوریت کے موضوع پر بولتے ہوئے کچھ ایسا کہہ دیا جو ہندوستان کو بہت ناگوار گزرا۔ انھوں نے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے سیاست دانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی جرا ¿ت و ہمت، ان کے اعلیٰ اخلاق و اقدار اور ان کی اصول پسندی کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا بھی نام لیا اور کہا کہ انھوں نے آزادی کے بعد ہندوستان میں ایک اعلیٰ و ارفع جمہوری نظام قائم کیا تھا لیکن وہ نظام اب زوال پذیر ہے۔ انھوں نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے کہا کہ ہندوستان کی موجودہ لوک سبھا کے تقریباً نصف ارکان کے خلاف ریپ اور قتل سمیت متعدد مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ حالانکہ انھوں نے کسی تنازعے سے بچتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے بیشتر الزامات سیاسی بدنیتی کے سبب لگائے گئے ہیں۔ ان کے اس بیان پر ہندوستان نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور نئی دہلی میں تعینات سنگاپور کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور انھیں یہ بتایا گیا کہ یہ بیان غیر ضروری اور ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس سے قبل بھی ہندوستان کی زوال آمادہ سیاست یا جمہوریت کا ذکر عالمی سطح پر ہوتا رہا ہے۔ یہاں حکومت کے ایسے بعض فیصلوں پر جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق یا شہری و بنیادی حقوق کے منافی ہیں، تنقید کی جاتی رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پارلیمنٹ سے شہریت کا ترمیمی قانون، سی اے اے منظور ہوا اور اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج شروع ہوا تو عالمی اداروں نے بھی اس قانون کی مخالفت کی اور اسے مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ تفریق یا انھیں ان کے حقوق سے محروم کرنا قرار دیا۔ جب کسانوں کی تحریک چلی تو اس وقت بھی دنیا کے مختلف ملکوں اور اداروں نے متنازع زرعی قوانین پر نکتہ چینی کی اور پرامن احتجاج کے عوامی حق کی تائید کی۔ یہاں تک کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک کم سن لڑکی اور فنکاروں نے بھی ردعمل ظاہر کیا۔ حجاب پر پابندی کے خلاف بھی بیانات آئے اور اسے مذہبی آزادی پر پابندی بتایا گیا۔ اس سے قبل مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن نے ہندوستان میں کم ہوتی مذہبی آزادی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ہندوستان نے ہر ایسے موقع پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا اور دوسرے ملکوں اور ان کے اداروں اور شخصیات کے بیانات کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اسی طرح سنگاپور کے وزیر اعظم کے بیان کو بھی مسترد کیا گیا۔ حالانکہ سنگاپور سے ہندوستان کے بہت گہرے رشتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں۔ نریندر مودی بحیثیت وزیر اعظم اب تک پانچ مرتبہ سنگاپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ ا س کے باوجود ہندوستان نے لی سین لونگ کے بیان کو سخت ناپسند کیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان کا بیان واقعی غلط اور بے بنیاد تھا یا بدنیتی پر مبنی تھا۔ ان کے لب و لہجے سے ایسا نہیں لگتا کہ انھوں نے یہ بات بدنیتی کی بنیاد پر کہی ہوگی۔ مضبوط رشتوں کے تناظر میں بھی بدنیتی کا کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ ان کی بات غلط اور بے بنیاد بھی نہیں ہے۔ کیا ہندوستانی سیاست و جمہوریت پر زوال نہیں آیا ہوا ہے۔ کیا ہمارے منتخب ارکان پارلیمنٹ اور بالخصوص لوک سبھا میں مجرمانہ بیک گراؤ نڈ کے ارکان نہیں ہیں۔ سیاست میں جرائم کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک نجی ادارے ایسو سی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ موجودہ لوک سبھا میں 233ارکان ایسے ہیں جن کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ اس نے 539 ارکان کی دستاویزات کی تحقیق کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے۔ امیدواری کے کاغذات داخل کرتے وقت یہ بتانا پڑتا ہے کہ امیدوار کے خلاف کیا کوئی مجرمانہ مقدمہ چل رہا ہے یا زیر التوا ہے، اگر ہے تو اس کی تفصیل پیش کرنی پڑتی ہے۔ اے ڈی آر نے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ کرکے اس کی بنیاد پر اپنی رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 2014 کے مقابلے میں 2019 میں ایسے ارکان کی تعداد میں 26 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مجرمانہ بیک گراو ¿نڈ کے ارکان میں بی جے پی کے 116، کانگریس کے 29، جنتا دل یو کے 13، ڈی ایم کے کے 10 اور ترنمول کانگریس کے نو ارکان ہیں۔ 29 فیصد ارکان کے خلاف عصمت دری، قتل، قتل عمد اور خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات درج ہیں یا زیر التوا ہیں۔ 2009 کے مقابلے میں 2019 میں سنگین الزامات والے ارکان میں 109 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے پانچ، بی ایس پی کے دو، کانگریس، این سی پی، وائی ایس آر کانگریس کے ایک ایک اور ایک آزاد رکن کے خلاف قتل کے مقدمات ہیں۔ جبکہ 29 کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے الزام کے تحت کیس درج ہیں۔

اب ذرا موجودہ اسمبلی انتخابات کے امیدواروں پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ہم نے صرف اترپردیش کے امیدواروں کی تفصیل معلوم کی ہے اور وہ بھی صرف پانچ مرحلوں تک کے امیدواروں کی۔ جبکہ وہاں سات مرحلوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں کل 615 امیدوار تھے اور ان میں سے 25 فیصد یعنی 156 کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ دوسرے مرحلے میں 584امیدواروں میں سے 147 یعنی 25 فیصد کے خلاف، تیسرے مرحلے میں 623 میں سے 135 یعنی 22 فیصد کے خلاف، چوتھے مرحلے میں 621 میں سے 129 یعنی 21 فیصد کے خلاف اور پانچویں مرحلے میں 685 میں سے 185 یعنی 27 فیصد کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ جن میں قتل اور عصمت دری جیسے مقدمات بھی شامل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک پارٹی نے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ دراصل اب یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس کی امیج صاف ستھری ہے یا کس کا دامن پاک صاف ہے یا کس کا کردار بے داغ ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون الیکشن جیت سکتا ہے۔ وہ طاقت کے بل پر جیتے، پیسے کے بل پر جیتے، غنڈہ گردی کے بل پر جیتے یا کسی بھی طرح جیتے لیکن جیتے۔ ایسے امیدوار رائے دہندگان کو ڈراتے اور دھمکاتے بھی ہیں۔ ایسے امیدواروں میں سرفہرت ہیں ڈومریاگنج سے بی جے پی کے امیدوار راگھویندر پرتاپ سنگھ۔ وہ نہ صرف مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی کر رہے بلکہ ان ہندوو ¿ں کو بھی سبق سکھانے کی دھمکی دیتے ہیں جو ان کے خیال میں انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ دراصل جس جس کو یہ لگتا ہے کہ اس کی نیا ڈوب رہی ہے وہ بدزبانی پر اتر آیا ہے۔ راگھویندر پرتاپ نے گزشتہ الیکشن بی ایس پی کی سیدہ خاتون سے محض 171 ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا۔ سیدہ خاتون اس بار سماجوادی کی امیدورا ہیں اور راگھویندر کو اپنی شکست صاف نظر آرہی ہے۔ لہٰذا وہ شرافت و سنجیدگی کی تمام حدیں پار کر گئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔