یہ انتخابی وعدے، جو جملے بن جائیں گے!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یوپی سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ووٹ حاصل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں نے وعدوں کی جھڑی لگا رکھی ہے۔ بی جے پی نے بزرگوں کی پنشن 1500 کرنے، سمارٹ فون، اسکوٹی دینے، آبپاشی کے لئے کسانوں کو بجلی مفت فراہم کرنے، دیوالی پر دو گیس سیلنڈر، خواتین کو دوگنا نوکریاں دینے اور 14 دن کے اندر گنا کسانوں کو بھگتان کرنے وغیرہ کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوجہاد کے لئے دس سال سزا کے ذریعہ پولرائزیشن کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے نوکریوں میں خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن، 300 یونٹ مفت بجلی، ایم ایس پی کا نفاذ، کسانوں کو قرض سے نجات، آئی ٹی سیکٹر میں 22 لاکھ روزگار فراہم کرنے اور 11 لاکھ خالی آسامیوں کو بھرنے وغیرہ کا وعدہ کیا ہے۔ کانگریس نے کسانوں کی قرض معافی، کورونا سے متاثر خاندانوں کی مالی امداد اور دس لاکھ تک کے مفت علاج کو اپنے انتخابی منشور میں جگہ دی ہے۔ بہت سے وعدے تینوں پارٹیوں کے مشترک ہیں۔

انتخابی وعدے پہلے بھی ہوا کرتے تھے، کچھ پر عمل ہوتا اور کچھ رہ جاتے تھے۔ مگر گزشتہ چند سال میں مفت خوری کی جو آندھی چلائی گئی ہے اس نے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ آج اگر آئین بنانے والے ہوتے تو انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا۔ کیوں کہ یہ اعلانات جمہوریت کے لئے اچھی علامت نہیں ہیں۔ خود سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ "عوام کو کچھ بھی مفت مت دو۔ صرف تعلیم، انصاف اور علاج مفت ملنا چاہئے۔ مفت خوری لوگوں کو کام چور اور ملک کو کمزور بناتی ہے”۔ مگر آج تعلیم، انصاف اور علاج مفت ملنا تو دور پیسے خرچ کرنے پر بھی نہیں مل پاتا۔ کورونا کے دوران پورے ملک نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ دراصل حکومت یا پارٹیاں اپنی ناکامی چھپانے کے لئے مفت راشن، بجلی اور سفر کا لالچ دے کر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہیں۔ جبکہ حکومت کا کام ایسی پالیسیاں بنانا ہے جس سے عوام اپنی ضروریات خود پوری کر سکیں۔ انہیں زندگی گزارنے کے لئے کسی کے رحم و کرم کی ضرورت نہ ہو۔

 آئین بنانے والوں نے جمہوریت کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی نظام حکومت اپنایا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر عوام پانچ سالوں میں اپنے منتخب کئے ہوئے ‘حکمران’ سے بیزار ہو جائیں تو وہ صاف ستھری امیج والے نئے، پڑھے لکھے لوگوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیج سکتے ہیں۔ جو مسائل سے نجات دلانے میں ان کی مدد کر سکیں۔ آزادی کے بعد سے ہی عوام کی خواہش کے مطابق ملک میں انتخابات ہوتے رہے۔ جن کے ذریعہ عام لوگ اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیجتے رہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے دولت مند، غنڈے، موالی منتخب ہو کر ایوانوں میں پہچ رہے ہیں۔ وہ اپنی قانونی یا غیر قانونی دولت اور باہو بل کی بنیاد پر ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ ووٹوں کے بدلے طرح طرح کے تحائف دینے کی کوشش اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ ووٹر ان باتوں سے متاثر ہو کر اپنے ووٹ نااہل اور داغدار امیدواروں کو دے دیتے ہیں۔ یہ کسی ایک پارٹی کے امیدواروں تک محدود نہیں ہے۔ ہر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں اور وہ ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے لالچ کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر آئین بنانے والے آج زندہ ہوتے تو ان لیڈروں کے وعدوں پر شرمندہ ہوتے۔

اس وقت ملک کی جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ وہاں کچھ اس طرح کے وعدے کیے جا رہے ہیں کہ اگر ہماری حکومت بنتی ہے تو 16 سال سے زیادہ عمر کی ہر خاتون کو 1600 روپے ماہانہ دیا جائے گا۔ دوسرے گروپ کا کہنا ہے کہ ہر گھریلو خاتون کو ماہانہ 2000 روپے اور ایک سال میں ایل پی جی کے آٹھ سلنڈر دیئے جائیں گے۔ تیسرے کا وعدہ ہے کہ 12ویں میں پڑھنے والی ہر لڑکی کو اسمارٹ فون ملے گا، گریجویشن کرنے والی طالبہ کو اسکوٹی ملے گی۔ ایک پارٹی وعدہ کرتی ہے کہ ہر خاندان کو 300 یونٹ بجلی مفت دی جائے گی اور ہر عورت کو 1500 روپے پنشن دی جائے گی۔ ایک پارٹی یہ یقین دلا کر اقتدار میں آئی تھی کہ اگر اس کی حکومت بنی تو وہ ملک کے ہر شہری کے کھاتے میں پندرہ لاکھ اور ہر سال 2 کروڑ بے روزگاروں کو روزگار دے گی۔ نہ جانے اس نے اور کیا کیا وعدے کئے تھے۔ الیکشن کے بعد یہ وعدے جملہ بن گئے۔ انتخابات کے دوران شراب بانٹنے کی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے ایسے میں کیا ہم اچھی قوم بننے کی بات کر سکتے ہیں؟ رشوت یا لالچ دے کر ووٹ حاصل کرنا عام ہو گیا ہے۔ شاید اسی لیے ملک کے چیف جسٹس، جسٹس این وی رمنا نے اپنے ایک خطاب میں وکلاء سے کہا تھا کہ وہ سیاست میں شامل ہو جائیں۔ آزادی کے وقت کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر راجندر پرساد، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر مرحوم کی مثالیں دیں۔ مہاتما گاندھی جیسی عظیم ہستیوں کا حوالہ دیا جنہوں نے آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور عوامی مفاد کے لئے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑنے میں گریز نہیں کیا۔ لیکن آج کی سیاست میں ایسی خوبیوں کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ اگر ایسے حضرات آزادی کی جدوجہد میں نہ ہوتے تو آج بھی ملک انگریزوں کی غلامی سے نجات نہ پاتا۔

 سیاست جو کبھی خدمت ہوا کرتی تھی آج کاروبار، روزگار کا ذریعہ بن گئی ہے۔ پہلے سیاست میں صرف کلین امیج والے لوگوں کی گنجائش تھی اور ایسے لوگ ہی اس میں حصہ لیتے تھے۔ سیاسی جماعتیں سماج میں مقبولیت کی بنیاد پر عوام کے درمیان انہیں اپنا نمائندہ بناتی تھیں۔ کیوں کہ وہ عام لوگوں کے سروکار سمجھتے تھے۔ ان کی خوشی اور غم کو جانتے اور مسائل کو حل کرنا انکی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ انہیں سرکاری مسلح سیکورٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ کو عام آدمی مانتے تھے۔  خود غرضی، انا اور دکھاوے سے دور رہتے تھے۔ اس لئے انہیں کسی سے کوئی ڈر نہیں تھا۔ اگر آپ آج کا موازنہ اس دور کے سیاست دانوں سے کریں گے تو الجھن میں پڑ جائیں گے۔ آج پارٹیاں دولت اور جرائم کا ریکارڈ دیکھ کر اپنا نمائندہ بناتی ہیں۔ موٹی رقم لے کر ٹکٹ دیتی ہیں، منتخب ہونے پر یہ سیاستدان کئی گنا وصول کرتے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ یقین نہیں ہوتا کہ جمہوریت میں رہ رہے ہیں یا بادشاہت میں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بادشاہ کی مرضی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر یہ بتاتے ہیں کہ اگر ہماری حکومت بن گئی تو ہم آپ کو جنت سے بہتر زندگی دیں گے۔ ملک میں رام راج ہوگا، جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ آپ کو ان کی شکل سے پیار ہو جاتا ہے۔ وہ جیسے چاہتے ہیں آپ کو نچاتے ہیں اور آپ ان کے ساتھ ناچتے ہیں۔ ان کے جال میں پھنسے ہونے کی وجہ سے نہ آپ کی ترقی ہو پائی نہ ملک کی۔

بھارت کے ساتھ ہی چین سمیت دنیا کے کئی ممالک آزاد ہوئے لیکن ترقی کے معاملے میں وہ ہم سے برسوں آگے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نے گزشتہ 73 سالوں سے طرح طرح کے وعدے اور لالچ دے کر ہمیں دھوکہ دیا۔ چین آج دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ کیوں کہ وہاں کے سیاست دانوں میں یہ تڑپ تھی کہ ان کا ملک کیسے آگے بڑھے، خود انحصار بنے۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کی خوشحالی بھی سب کو چونکانے والی ہے۔ آخر بھارت ایسا کیوں نہیں کر سکا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو دھوکہ دے کر ہمارے حکمران کس کے مفاد میں کام کرتے ہیں؟ یہ پانچ سال عوام کے ٹیکس سے موج کرکے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان سے جڑا ملک اور اس کے لوگ جو ان کی طرف امید سے دیکھتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اگر سیاستدان عوام کے مفاد میں کام کریں، تو ملک کا بھلا خود بخود ہو جائے گا۔

جن پانچ ریاستوں میں اس وقت انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں سے پنجاب کو چھوڑ کر باقی چار میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہ یقیناً یہاں واپسی چاہتی ہے لیکن اترپردیش میں وہ اپنی ناک کی لڑائی لڑ رہی۔ کیوں کہ دہلی کا راستہ اتر پردیش سے ہو کر گزرتا ہے۔ دوسری طرف اس کا اپنا ووٹ بنک پھسل رہا ہے۔ اس لیے بی جے پی وہاں اپنی پوری طاقت لگا رہی ہے۔ بڑھ چڑھ کر وعدے کر رہی ہے جو کل جملہ بن جائیں گے۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے وقتاً فوقتاً ایسے لیڈروں کو صحیح راستے پر لانے اور ہر قسم کی آمرانہ سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے مفت تقسیم کئے جا رہے تحائف پر بھی سخت موقف اختیار کیا ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس اے ایس بوپنا اور ہیما کوہلی کی بنچ نے بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے کی ایک عرضی پر نوٹس جاری کر پارٹیوں کے انتخابی نشان کو ضبط کرنے، خزانے سے نقد و مفت تحائف دینے کا وعدہ کرنے اور ایسی جماعتوں کی شناخت منسوخ کرنے کے متعلق مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سے چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے اس دوران کہا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بعض اوقات مفت تحائف کے اعلان کا بجٹ باقاعدہ بجٹ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کیا جواب دیتا ہے اور عدالت اس سے کس حد تک مطمئن ہوگی۔ حالانکہ اس دوران کئی ریاستوں میں انتخابات ہو چکے ہوں گے، سپریم کورٹ کے حکم کا اس الیکشن میں فائدہ ملے یا نہ ملے، لیکن مستقبل میں یہ ملک کے عام لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا اور ووٹروں سے جھوٹا وعدہ کرنے والا ہر لفظ احتیاط سے بولا جائے گا۔

اترپردیش میں بی جے پی کو سماجوادی پارٹی، کانگریس اور بی ایس پی کڑی ٹکر دے رہی ہے۔ کانگریس نے خواتین کو اپنا امیدوار بنا کر ریاست کی نصف آبادی کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی ہے جو اب تک بالکل خاموش تھی، آہستہ آہستہ وہ اپنے پتے کھول رہی ہے۔ اس نے برہمنوں کو امیدوار بنا کر اپنے اوپر لگے الزامات کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے تمام پارٹیاں بڑھ چڑھ کر وعدے کر رہی ہیں۔ مگر بی جے پی کا سیدھا مقابلہ سماجوادی پارٹی سے ہوتا دکھائی دے رہا۔ تبھی تو بھاجپا کے تمام لیڈران سماجوادی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کرمنل، فسادی سے بات دہشت گرد تک جا پہنچی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس میں اپنا یقین ظاہر کرتے ہیں اور کس کے وعدوں کو جملہ قرار دیتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔