سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی: اندیشے اور امکانات

عبید الکبیر

انگریزوں کے بھارت سے انخلا ء کے بعد جن اسباب و عوامل یا اقدار کو ہم آزاد ہندستان کی مشترکہ اساس میں شمار کر سکتے ہیں ان میں سب سے اہم اور مظبوط ملک کا دستور ہے۔ ایک مہذب سماج اور بر سر ارتقا ملک وقوم کے لیے دستور کی بالادستی کا تصور بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا ہےیا ہونا چاہیے۔ ملک کیوں تقسیم ہوا ؟ اس کے کیا محرکات تھے؟ آیا تقسیم وطن کا الزام کسی خاص طبقے کو دیا جانا چاہیے، یا اگر دیا جانا چاہیے تو وہ خاص طبقہ کہاں ہے؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات بے لاگ تبصرہ، سنجیدہ مطالعہ اور دیانت دارانہ تحقیق کا موضوع ہیں۔ اب اسے بدقسمتی کہیے یا اتفاق کہ ہمارے ہاں ایسے اہم اور حساس مسائل کو عموماً انتخابات کے مواقع پر  انتہائی غیر سنجیدہ طریقے سے اچھالاجاتا ہے۔ سر دست ہمارا یہ موضوع نہیں ہے اس لیے صرف اتنا سمجھ لیا جائے کہ  آج بھارت تاریخ کے جس موڑ پر کھڑا ہے اس میں یہ سوال کچھ خاص وقعت نہیں رکھتا۔ بلا شبہ یہ ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر بحث ہوتی ہی رہے گی مگر سوال یہ ہے کہ آج کے انڈیا میں جو لوگ بستے ہیں کیا وہ ایک دوسرے کو تقسیم وطن کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے میں حق بجانب ہیں؟طرفہ ماجرا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سوال ہر ایسے موقع پر اٹھایا جاتا ہے جب کبھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی سیاسی معاشی اور سماجی ابتری کے لیے ذمہ دار عوامل زیر بحث آتے ہیں۔ چنانچہ  حسب معمول گزشتہ دنوں  مسلم سیاست کے مسئلے پر گرما گرم بحث ہوئی۔

 یہ حقیقت انتہائی تلخ   ہےکہ متحدہ قومیت کے تصورنے ایک بڑی آبادی کا بہت بری طرح استحصال کیا ہے۔ ‘متحدہ قومیت’ یقیناً ایک کثیر المذاہب اور متنوع ثقافت والی آبادی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ لیکن اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ آیا ہمارے لیے دستوراساسی  کی حیثیت ثانوی ہے یا اولین؟ملے جلے سماج کا خیال ایک سماجی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں رواداری، آپسی بھائی چارہ اور بقائے باہم کی راہ آسان ہو سکےاور ملک کی داخلی سلامتی کے لیے یہ ایک ‘رہنما اصول’ کے طور پر کارفرما رہے۔ مگر ریاست یا اسکی زمام سنبھالنے والے اس بنیاد پر ملک کےشہریوں کو ملنے والے دستوری حقوق سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔ ایک آئینی جمہوریت میں تمام شہریوں کے جو حقوق تسلیم کیے گیے ہیں ان پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جد وجہد کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہونا چاہیے۔ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ہماری وسیع تر آبادی میں جو امکانات موجود تھے اور ہیں افسوس ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ہم ہنوز ناکام ہیں۔ ہمہ گیر ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہم افراد اور افراد کے مجموعوں کو پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع دیں۔ ارباب حل وعقد کو اسکے  تئیں سنجیدہ ہوکر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس راستے میں جو رکاوٹیں حائل ہیں ان سے نمٹنے کا کیا بند وبست کیا گیا ہے۔ عام طور پر اس قسم کے موضوعات کو فرقہ وارآنہ ہم آہنگی کے لیے خطرہ قرار دیکر دبادیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آزاد بھارت کی ستر سالہ تاریخ میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ اس قسم کے واہموں پر اگر قومی سیاست کا ڈھانچہ استوار ہوتا رہے تو اس کے نتائج ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ سماج میں عدل اجتماعی کا فقدان ہوگا، ترقی کے امکانات جو فطرتاً بڑے پیمانے پر موجود ہیں وہ پورے طور پر استعمال ہی میں نہیں آئیں گے کجا کہ ہم ان کے ثمرات سے بہرہ مند ہو سکیں۔

زمانہ بہت آگے جا چکا ہے، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو پیچھے دیکھنے کے بجائے آگے دیکھناچاہیے۔ اس حوالے سے یہ ذہنیت کچھ اطمینان بخش نہیں معلوم ہوتی کہ کچھ لوگوں کو چند مفروضوں اور واہموں کی بنیاد پر اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات حتی کہ محض اس پر گفت وشنید سے ہی” ملک خطرے میں  پڑ جائے گا”کا بھوت ستانے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اندیشے اور امکانات ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہی فطرت کا اصول ہے آخر ہم تاریخ میں کتنے ایسے ‘آغاز’ گنوا سکتے ہیں جو حالات کی ناسازگاری سے دوچار نہ ہوئے ہوں؟مستقبل پر سب کا یکساں حق ہے انسان کو اپنی مساعی کے لیے  تسلیم شدہ اصول کی روشنی میں  حسن تدبیر پر توجہ کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس چیز سے گریز کریں گےانھیں کسی قوم میں ایک مفید عنصر کی حیثیت سے جگہ نہ مل سکے گی۔

ہمارے بعض رہنما بڑے درد کے ساتھ ستر سالوں سے ایک عذر پیش کرتے آئے ہیں کہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت اکثریتی فرقے کو متحد کرنے بلکہ برانگیختہ کرنے کے مترادف ہے۔ ملک کے دستور اور صرف آزاد بھارت کی تاریخ پر غور کر نے سے اس خیال کی وقعت  اور اس کے جواز کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ اسے بڑی دانش مندی اور ملک پروری کا غماز سمجھتے ہیں جبکہ یہ خیال انتہائی بودا، منفی اور تعمیری نفسیات سے یکسر خالی ہے۔ غیر رسمی طور پر اس جذبہ کی قدر کی جانی چاہیے  تاہم اصولی حیثیت سے یہ قابل ترجیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس خدشے کو اگر غیر معمولی اہمیت دے دی گئی تو یقیناً یہ دستور کی حکمرانی پر سوالیہ نشان لگا دےگا۔ اگر مان لیا جائے کہ واقعی یہ ایک خطرہ ہے تو  دستور کی روشنی میں اس کا مناسب حل تلاش کرکے اس کی روک تھام  کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟دوسری طرف یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ستر سالوں تک ملک کی مجموعی آبادی کے مشترکہ تعاون سے جو ادارے اور افراد ملک کا نظم ونسق چلاتے رہے ہیں انھوں نے ملک کی سیاست کو حدود آشنا کرنے میں کیا کردار اداکیا؟ ہماری تعلیم گاہیں، عدلیہ، پولس، فوج، سینیما اوردیگر ادارے جو افراد کے مجموعوں کو قومیت کی لڑی میں پروکر ان میں اجتماعیت کی روح پیدا کرتے ہیں ان کی خدمات نے کیا آج بھی ستر سال پرانے عذر کی گنجائش کو باقی رہنے دیا  ہے؟

یہ سوالات ہیں جو  طے کرتے ہیں  کہ ملک کی سیاست کو کس ڈگر پہ گامزن ہونا چاہئے۔ کسی دبے کچلے طبقے کی دستوری کوشش کو ہنگامہ آرائی کے ذریعہ’ جناح برانڈ پالیٹکس’ کہہ کر واویلا کرنا ایک جمہوری سماج کے لیے شرمناک ہے۔ دستور کی حکومت ایک ترقی پذیر ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں جو اندیشے ہیں ان کی پرستش سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ہمیں نہ تو دستور پر یقین نہ نہ اس پر عمل آوری کا کوئی ارادہ ہم رکھتے ہیں۔ مبادا کہیں اس کایہ مطلب تو نہیں ہے   کہ کمزوروں اور عددی قوت سے خالی طبقات کو اکثریت کی سیاست کے لیے غذا فراہم کرنے کا ذریعہ بنا دیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔