اردو کے نام پر جشن در جشن کیوں ہونا چاہیے؟

صفدر امام قادری

جو ہمارے ملک کا حال ہے وہی اردو کا بھی ہے۔ بچے کی پیدایش سے لے کر موت تک، شادی کی تقریب سے لے کر کسی دوسرے موقعے کی شناخت تک ہمارے ملک میں یہ عمومی مزاج ہے کہ ہم طرح طرح کی تقریبات منعقد کرنے کے عادی ہیں۔ جس کی جتنی بساط ہے ، اس اعتبار سے وہ اس کام میں منہمک رہتا ہے۔ اہتمام ، شامیانے اور شادیانے، ڈھول باجے، اعلانات اور نگاڑے؛ سب کے سب حسبِ ضرورت یا توفیق استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ کسی نے وارڈ کونسلر کا الیکشن جیتا، کسی نے تیسری جماعت میں کامیابی حاصل کی یا کسی کی سگائی ہوئی؛ ہر بار کچھ کھائو پیو اور موج منائو۔ الگ الگ علاقے میں اس ملک میں ایسے جشن منعقد کرنے میں درجے کا فرق ہوتا ہے۔ پنجاب اور بنگال میں تو دن بھر میں دس بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ تھوڑا ناچ لیجیے، کچھ گا لیجیے اور اپنی خوشی کا اظہار کرکے کسی واقعے کا اعلان کردیجیے۔ ولی دکنی نے محبوب کے پیش نظر کبھی ایک شعر کہا تھا:

ولی اس گوہرِ کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی 

مرے گھر اس طرح آوے ہے، جیوں سینے میں راز آوے

مگر اتنی خاموشی اور راز داری سے جمہوریت کے دور میں کام کرنے کا انداز کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ چوری اور بے ایمانی کے کام بھی ایسے رازدارانہ انداز سے اب پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتے۔ عشق محبت کا اظہار تو نئے دور میں یوں بھی کھلے بندوں ہونے لگا۔ اسی لیے اردو والوں کے بیچ یہ انداز بار بار دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی کسی عہدے پر آیا تو جشن اور مدتِ کار ختم کرکے اگر رخصت ہوا یا کچھ پہلے ہی نکال دیا گیا تو الوداعی تقریب کا جشن۔ کبھی کبھی عوامی سطح پر یہ کام نہیں ہوا تو خود اپنی جیبِ خاص سے ایسی تقریبات منعقد کرنے کے لیے کوششیں ہوتی دیکھی گئی ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی ہوا کہ کسی نے آنے یا جانے میں تقریب کے لائق ہمیں نہیں سمجھا تو کیا غضب ہوگیا، سوشل میڈیا پر خود ہی اعلان اور اپنی کارکردگی یا فتوحات کی تفصیل پیش کرنے سے ہم دریغ نہیں کرتے۔ مطلب یہ کہ حیات سے لے کر موت تک اور ماں کے پیٹ سے لے کر قبر تک کے سفر میں ہم بہر طور یہ بتاتے چلتے ہیں کہ ہمیں دنیا کیوں یاد کرے؟ تقریبات کو اب اخبارات اور عوامی میڈیا کے بھروسے چھوڑ دینے سے ہمارا کہاں کام چلتا ہے؟ کیوں کہ ہم تو انفرادی تشہیر کی سیڑھی چڑھ کر منزل مقصود تک پہنچنے کے شوقِ بے جا میں گرفتار ہوتے ہیں۔

اس لیے یہ بات سوچ لیجیے کہ اگر ہماری زبان اور ہمارا ملک تقریباتی لَے میں ناچتا گاتا نہ ملے تو بھلا ہمارے تشہیر بازوں کا کیا ہوگا۔ ہماری زبان کے مشہور ظرافت نگار اسرار جامعی نے اپنی ایک نظم میں اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ کسی اخبار میں کوئی صاحب طول طویل تعزیت نامہ لے کر حاضر ہوئے اور مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلقات اور لواحقین سے صبر کی تلقین کرتے ہوئے وہ صاحب نظر آئے۔ اخبار کے دفتر میں ایک صاحب موجود تھے جو تجہیز و تکفین میں شامل ہوئے تھے اور انھوں نے تعزیت نامے والے صاحب کو وہاں ہرگز ہرگز نہیں پایا تھا۔ خبر پڑھنے کے بعد انھوں نے صاحبِ تعزیت سے دریافت کیا کہ جناب جب آپ کے مرحوم سے اتنے دیرینہ تعلقات تھے تو آخر آپ تجہیز و تکفین میں کیوں نہیں نظر آئے؟ صاحبِ تعزیت نے بڑا نپا تلا جواب دیا کہ اگر میں ان کے گھر اور قبرستان جاتا تو واپسی میں عین ممکن تھا کہ دیری ہوجاتی اور بعض اخبارات میں ڈیڈ لائن کی وجہ سے میرا تعزیت نامہ شایع نہیں ہوپاتا، اس لیے میں نے انتقال کی خبر کے بعد خبر بنانے اور اخبارات کے دفتر میں اسے پہنچانے کو اولیت دی۔ اس آدمی نے انھیں یقین دلایا کہ اب اخبار سے فارغ ہوکر میں ان کے بچوں سے تعزیت کرنے کے لیے جائوں گا۔

اسرار جامعی صاحبِ فراش ہیں۔ اپنی نظم کو نثر میں پڑھتے ہوئے شاید قہقہہ بردوش ہوجائیں مگر خون کے آنسو رو کر انھوں نے جو نظم لکھی، وہ ہمارے قومی مزاج کو سمجھنے کے لیے بہت معقول ذریعہ ہے۔ ابھی تازہ قاضی عبدالستار کی وفات ہوئی جسے ہماری زبان کے لیے حادثہ قرار دینا چاہیے مگر اخباروں میں اور سوشل میڈیا میں جن کے ناموں کی بیش از بیش سرخیاں سجیں ، ان میں سے درجنوں ایسے لوگ تھے جنھوں نے قاضی عبدالستار کی زندگی اور خدمات پر پہلے تین سطریں بھی نہیں لکھی تھیں۔ اب اچانک ان کو ان کے گزرنے کا ایسا ملال ہوا کہ وہ پھٹ پڑے۔ حالاں کہ قاضی صاحب پچھلے کئی برسوں سے رہ رہ کر صحت کی ایسی کیفیتوں میں مبتلا ہوتے رہے جن سے خدشات قائم ہوتے رہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تقریبات خود کو نمایاں کرنے کے لیے ہیں یا قاضی عبدالستار یا اسی طرح کی کسی دوسری شخصیت پر سنجیدہ علمی جائزے کے لیے منعقد کی گئی ہیں۔

جشن پسندی کی ایک خاص کیفیت اردو کے چھوٹے بڑے سے می ناروں میں نظر آتی ہے۔ کشمیر سے لے کر چنئی تک اور اب اڑیسہ آسام سے لے کر گجرات تک یکسا ں کیفیت ہے۔ عام طور سے افتتاحی اجلاس جشن منانے کے لیے ہی صرف ہوجاتے ہیں۔ ایک اور انداز دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو میزبان ہے یعنی صدر شعبۂ اردو یا صدر اور سکریٹری یا ڈائرکٹر وغیرہ وغیرہ۔ اسی کی صدارت میں جلسے ہونے لگے ہیں۔ اپنی خدمات کی اہمیت کا ایسا احساس ہمارے پچھلوں میں نہیں تھا۔ وہ مہمانوں کو بلاتے تھے اور ان سے ان کے علم اور فضل سے دوسروں کو فیض یاب کرانے کے مواقع پیدا کرتے تھے۔ لیکن اب میزبان یعنی صدر، سکریٹری، ڈائرکٹر، چیرمین وغیرہ وغیرہ کو کیا پڑی ہے کہ دوسروں کو وہ اس کام کے لیے لگائے۔ چوں کہ اس منصب پہ ہی علم اور فضل انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی غالب، میر یا پریم چند ہوں تو وہ ہال میں سامنے کی صفوں یا صدر شعبہ کے دائیں بائیں بیٹھنے پر اکتفا کریں۔ اب جشن ہے تو یہ سوچنا ہی نہیں ہے کہ اس مخصوص موضوع سے متعلق مہارت کا اظہار مقصود ہے۔ کیوں کہ اس موقعے سے یہ اعلان ہوگا کہ اگلے اجلاسوں میں مقالہ خواں یعنی اردو کے عام لوگ اپنی باتیں پیش کریں گے مگر وہاں بھی جشن کی ایک لعنت پہنچی ہوتی ہے کیوں کہ وہاں صدارت کی کرسی یا مجلسِ صدارت کے افراد کی شمولیت منصب اور لینے دینے کے اصولوں پر پوری ہوتی ہے۔ ہرچند کہ صدارتی تاثرات سب سے ناقص اور علمی اعتبار سے بے مایہ ہوتے ہوں مگر اس جشن میں عہدوں کی بلی کون کرے، انھیں ہی سرفراز کیا جائے گاجو منصب کی بڑی بڑی تختیوں سے ساتھ یہاں وہاں نظر آتے ہیں۔

مگر اردو کے سارے کام شعبہ ہاے اردو پر انجام کو نہیں پہنچتے۔ جشنِ ریختہ میں اس کے مختارِ کل اسٹیج پر پانچ دس منٹ سے زیادہ کسی بار نہیں دیکھے گئے۔ تقریر تو اس سے بھی کم انھوں نے کی اور بڑے بڑوں کے پائوں چھو کر ان کی عزت افزائی کی۔ سینکڑوں مہمانوں نے کھایا پیا یا انھیں کوئی دشواری ہوئی یا نہیں ، اس کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے سنجیو سرّاف بار بار نظر آتے ہیں۔ الگ الگ پروگراموں میں کہیں پانچ صف پیچھے کی کرسی پر تنہا نظر آتے ہیں ، حد تو یہ کہ دو سال پہلے تک جب ان کے والد محترم زندہ تھے، تو انھیں عام سامعین میں بیٹھے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہمارے یہاں تو کسی معمولی عہدے کے ملازم کی بیوی اور بچوں کے لیے بھی الگ سے کرسیاں مخصوص ہوتی ہیں۔ ادارے اس اخلاق، مروت اور انکسار سے آگے بڑھتے ہیں۔ قومی اردو کونسل کے کسی پروگرام میں ایسی بردباری دیکھنے کو نہیں ملی۔ ابھی دہلی اردو اکادمی نے جشنِ وراثتِ اردو منعقد کی۔ پروگرا م کے آغاز سے انجام تک اس کے نائب صدر ، اردو کے مشہور شاعر شہپر رسول نظر آتے رہے۔ ان کی اہلیہ بھی نظر آئیں۔ ایسا لگا کہ اردو کے میلے میں یہ لوگ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کسی اسٹاف کو اعلانیہ طور پر حکم نامے جاری ہوتے نظر نہیں آئے۔ ایک پروگرام ختم ہوا، انائونسر نے نائب صدر کو مہمان کو گلدستہ پیش کرنے کے لیے بلایا اور میزبان نے گلدستہ پیش کرکے ایک منٹ میں اسٹیج خالی کردیا پھر اگلا پروگرام شروع۔ یہ باوقار میزبانی تھی۔ اسی لیے کناٹ پیلس میں اردو کے کیسے کیسے جلوے نظر آئے اور میدان کی ہری گھاس دہلی اردو اکادمی کے حسنِ انتظام سے ہمارے قدموں میں بچھی جارہی تھی۔

جشن لاکھوں اور کروڑوں خرچ کرکے ہوتے ہیں مگر اتنا تو ہونا ہی چاہیے کہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ سامعین اور تماش بین کی صفوں میں موجود ہوں۔ جشنِ ریختہ یا دہلی اردو اکادمی کا چشنِ وراثتِ اردو یا مہاراشٹر کے تعلیمی میلوں کو چھوڑ دیں تو ابھی ہم سو پچاس سے زیادہ لوگوں کوجمع کرکے جشن منعقد نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ بہ قولِ اقبال:

کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوے دل نوازی

تبصرے بند ہیں۔