سیاسی رڈار سے ووٹر کے من کی بات ندارد

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پارلیمانی انتخاب 2019 کے نتائج آچکے ہیں، بی جے پی کو تاریخ ساز کامیابی کے ساتھ دوبارہ حکومت سازی کا موقع ملا ہے۔ ٹیلی ویژن چینل اس جیت کو مودی لہر نہیں سونامی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن کی ہار بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی رڈار پر ووٹر کی پسند، ناپسند کیوں نظر نہیں آئی، یا پھر جان بوجھ کر رائے دہندگان کے احساسات کو نظر انداز کردیا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملک کی حفاظت، راشٹرواد، گائے اور گوڈسے کا جو مصنوعی ابر سایہ فگن کیا گیا تھا اس کی وجہ سے ووٹر کے من کی بات سیاسی رڈار پر دکھائی نہیں دی۔ اس بار ووٹر چپ تھا، اس کی چپی کو برسراقتدار پارٹی کی مخالفت تصور کیا گیا۔ بی جے پی نے ووٹر کے موڈ کو بھانپ کر اپنے کئی ممبران پارلیمنٹ کا ٹکٹ کاٹ دیا۔ ان کی جگہ نئے لوگوں کو امیدوار بنایا۔ پورے چناؤ ميں يہ دیکھنے کو ملا کہ بی جے پی  نے قومی مدوں کو انتخاب کے مرکز میں رکھا اور امیدواروں کو مودی کے نام کے پیچھے۔ مقامی ایشوز یہاں تک کہ اپنے نمائندوں کو بھی انتخابی تشہیر میں جگہ نہیں دی۔

بی جے پی کے امیدوار اور اس کے کارکنان میں فرق کرنا مشکل تھا، کیونکہ نمائندہ بھی مودی کی بات کرتا، ان کے کاموں کی تعریف کرتا اور مودی کو جتانے کے لئے کمل کے پھول پر ووٹ کرنے کی اپیل کرتا اور ان کے حامی بھی یہی کام کر رہے تھے۔ اس کے نتیجہ میں ہر امیدوار کی جگہ مودی دکھائی دینے لگے۔ بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کے خلاف عوام میں غصہ اور ناراضگی تھی لیکن جب مودی آگے ہو گئے تو امیدوار ان کے پیچھے چھپ کر چناؤ لڑنے لگے۔ اس سے عوام کی ناراضگی پان کی دوکان سے لے کر چائے خانہ تک تو دیکھنے کو ملی لیکن کانگریس یا گٹھ بندھن کے امیدواروں کے ذریعہ اس غصہ، ناراضگی اور مقامی مسائل کو مدا نہ بنا پانے کی وجہ سے پولنگ بوتھ تک پہنچتے پہنچتے یہ غصہ مودی کو جتانے کے جوش میں تبدیل ہو گیا۔ غیر متوقع طور پر بی جے پی کو اس کا فایده ملا۔ کانگریس اور گٹھ بندھن کے امیدوار بھاجپا کی اس حکمت عملی میں الجھ گئے۔ وہ بی جے پی کے نمائندوں کو چھوڑ کر مودی کو اپنی انتخابی تشہیر میں نشانہ بنانے لگے جو بھاجپا کے منصوبہ کے عین مطابق تھا۔

 انتخابی منصوبہ سازی میں کانگریس بی جے پی سے پیچھے رہی۔ بی جے پی  نے نئے ساتھی تلاشے، ناراض غیر مطمئن ساتھیوں کو منایا اور اپنے کنبے کو مضبوط کیا۔ اس نے شیو سینا کے ساتھ اپنے رشتہ سدھارے۔ بہار میں 2014 کے الیکشن میں 22 سیٹیں جیتنے کے باوجود 17 پر چناؤ لڑنا منظور کیا۔ اس کے برخلاف کانگریس اپنا کنبہ نہیں بڑھا پائی۔ اس نے پہلے اتحاد کرنے میں کی اور جہاں یہ گٹھ بندھن ہوا بھی وہاں وہ جونیئر پارٹنر بن کر رہ گئی۔ اس کے خیمے میں بکھراؤ اور تال میل کی کمی صاف طور پر دکھائی دی۔ یوپی میں اکھلیش، مایاوتی نے کانگریس کو گٹھ بندھن میں شامل نہیں کیا۔ اس کا گٹھ بندھن کو ایک درجن سے زیادہ سیٹوں پر نقصان اٹھانا پڑا۔ بہار میں اس نے آر جے ڈی کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا لیکن سیٹوں کا صحیح انتخاب نہیں کیا اس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ جن ریاستوں میں چند ماہ قبل ہی کانگریس کی حکومت قائم ہوئی وہاں بھی وہ اپنے ووٹوں کو بچا نہیں سکی۔ پارٹی لیڈران و کارکنان کے درمیان ٹیم ورک کی کمی اور آپسی اختلافات کی وجہ سے اس کا عام آدمی  سے سیدھا رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔ راہل گاندھی اکیلے میدان میں تھے، وہ بھی خود کو ایک مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ نریندر مودی نے عوام تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے کہ وہ مضبوط ارادوں والے لیڈر ہیں اور ملک ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔

کانگریس نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی، تعلیم، صحت،  رافیل، کسانوں اور بے روزگاری کے مدے اٹھائے۔ غریبوں کے لئے کم از کم آمدنی کی گارنٹی اسکیم کا اعلان، خواتین ریزرویشن سمیت کئی اہم وعدے کئے۔ حکومت سے پانچ سال کے کام کاج کا حساب کتاب بھی مانگا۔ لیکن بی جے پی نے کانگریس کے سبھی مدوں کی ہوا نکال دی۔ غریبوں کو کانگریس کے 72000 روپے سالانہ کی اقتصادی مدد کے جواب میں بی جے پی  نے کسانوں کے کھاتہ میں دو ہزار روپے کی پہلی قسط بھجوادی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کے افسران کا کسانوں کی قرض معافی کے کاغذات لے کر شیوراج سنگھ چوہان کے گھر جانا کانگریس کو بھاری پڑا۔ عوام نے غریبوں کے لئے اقتصادی مدد اور کسانوں کی قرض معافی کے اعلان کو چناوی جملہ کی طرح دیکھا۔ اپوزیشن کے باقی سوالوں کے جواب میں بی جے پی نے گھر میں گھس کر ماریں گے، گھس پیٹھیوں کو واپس بھیجیں گے، بالا کوٹ ائر اسٹرایک، پاکستان اور راشٹرواد کو آگے کر دیا۔ جب اپوزیشن روزگار کی بات کر رہی تھی اس وقت مودی پاکستان کو للکار کر جے شری رام اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہے تھے۔ پولرائزیشن اور راشٹرواد کو دیکھ کر ایسا لگا کہ ملک کے عوام 15 -20 کروڑ مسلمانوں کو لے کر شک و شبہ میں مبتلا ہیں یا ان میں شکوک وشبہات پیدا کئے جا رہے ہیں، اور وہ اپنے ایک چھوٹے سے پڑوسی ملک پاکستان سے خوف زدہ ہیں۔ اس لئے انہیں سب سے پہلے راشٹرواد کی خوراک درکار ہے۔ مودی شاہ نے خوف کے اس احساس کا بخوبی فائیدہ اٹھایا۔

جنوب اور مغربی بنگال میں بھی کانگریس کوئی کمال نہیں دکھا پائی۔ بنگال میں اس نے لیفٹ کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس کی وجہ سے کمیونسٹ ووٹ  بی جے پی کی طرف کھسک گیا، اور کانگریس کے اپنے ووٹر کنفیوژن کا شکار ہو کر بکھر گئے۔ جبکہ بنگال میں اس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک قدآور لیڈر موجود ہیں مگر پھر بھی کانگریس چناوی چرچا سے باہر رہی۔ رہا سوال جنوب کا تو سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ پر عدالت کے فیصلہ کی مخالفت کر بی جے پی نے ہندو طبقہ میں اپنی پکڑ بنائے رکھی، جبکہ کانگریس نے اس معاملہ سے خود کو دور رکھا۔ کبھی اعلیٰ ذاتیں کانگریس کا مضبوط ووٹ بنک تھا۔ اس کی پوری سیاست بھی انہیں کے ارد گرد گھومتی تھی۔ اونچی ذاتوں میں اس کی قبولیت کم ہونے اور پسماندہ طبقات سے دوری بنانے کی وجہ سے کانگریس کمزور ہوئی۔  اس کے برعکس بی جے پی نے اعلیٰ ذاتوں کو اپنا مان کر انہیں عزت دی نیز غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو دلتوں کو اپنے ساتھ جوڑا۔ اس کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔

 کانگریس کو سوفٹ ہندتوا کے ایجنڈے پر چلنا بھی مہنگا پڑا ہے۔ بھارت میں مختلف مذاہب کے ماننے والے، الگ الگ زبانیں بولنے والے، مختلف تہذیبوں سے وابستہ افراد ایک ساتھ مل جل کر رہتے، رہنے کے عادی ہیں یہ مزاج ہے۔ سماج سب کو ساتھ لے کر چلنے کے نظریہ کو مانتا ہے۔ جو کٹر ہندو ہیں انہیں کٹر ہندتوا چاہئے۔ سوفٹ ہندتوا ان کے گلے نہیں اترتا۔ کانگریس اپنی سیکولر شبہ کی وجہ سے سیکولر عوام کی پہلی پسند تھی۔ انہیں سیکولر ترقی یافتہ نظریہ کو لے کر چلنے والی جماعت کی درکار تھی۔ کانگریس نے اپنا چولا بدلا تو مجبوری میں وہ بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔ کانگریس خود کو ہندو وادی دکھانے کے بجائے اگر سیکولر جماعت کے طور پر پیش کرتی اور کہتی کہ ملک کے وسائل پر سب کا یکساں حق ہے اور اس کی ترقی میں سب کو برابری کی بنیاد پر موقع ملے، بھاجپا اس سے دور بھاگ رہی ہے تو حالات دوسرے ہوتے۔

نریندرمودی کی مخالفت میں اپوزیشن پارٹیاں اکٹھی تو ہوئیں لیکن وہ مضبوط نعم البدل پیش نہیں کر سکیں۔ نہ ہی وہ بی جے پی کے مقابلے بہتر حکومت دینے کا عوام کو یقین دلا سکیں۔ ان کے پاس نہ نیتی تھی اور نہ نیت، وہ محض مودی کی مخالفت کے دم پر الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔ جبکہ بھاجپا نے ہر مرحلہ کی الگ منصوبہ سازی کی تھی۔ اس نے مسعود اظہر کو بین الا قوامی دہشت گرد قرار دیئے جانے کو بھی اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کیا۔ اپوزیشن یہ تک نہیں بتا پائی کہ اس کو واجپئی حکومت نے ہی رہا کیا تھا۔ بی جے پی نے اپوزیشن کے اتحاد کا یہ کہہ کر مزاک اڑایا کہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو ہر ہفتہ وزیر اعظم بدلے گا۔ حزب اختلاف اس کا بھی کوئی جواب نہیں دے پایا۔ پھر بی جے پی کا انتخابی مینجمنٹ دوسری جماعتوں سے بہتر تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا کے کسی شخص نے دوران الیکشن بد کلامی کی تو وہ بھی چناوی اسٹریٹجی کا حصہ تھی۔ مودی شاہ کی مرضی کے بغیر کسی کو کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بر خلاف کانگریس کے ذمہ دار لیڈران بے سوچے سمجھے کچھ بھی اول فول بولتے رہے۔ جس پر بعد میں معافی مانگنی پڑی۔ کئی بار تو ان کی بد زبانی کے لئے کانگریس صدر کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ان پر کسی کا قابو نہیں تھا۔ بی جے پی نے ان کے بگڑے بول کا خوب فائدہ اٹھایا۔

فرنٹ پر صرف نریندرمودی تھے۔ ان کی تقریروں میں کسی سپر ہٹ فلم کے جیسے سارے مسالے موجود تھے۔ عوام دلچسپی کے ساتھ انہیں سننے آتے یا لائے جاتے اور وہ دل کھول کر نعرے لگاتے۔ لہٰذا سب جماعتوں کی نظر مودی پر رہی، کہ وہ کوئی غلطی کریں اور یہ اسے لے کر عوام کے بیچ جائیں، جبکہ بھاجپا کے کارکنان کی نظر عام ووٹر پر رہی۔ انہوں نے اپنے بوتھ کو مضبوط کرنے پر دھیان دیا۔ سیاسی جماعتوں سے یہیں چوک ہوئی وہ ووٹر کے موڈ کو نہیں پہچان سکیں۔ شاید اس وجہ سے انہیں سیاسی رڈار پر ووٹر کے من کی بات دکھائی نہیں دی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔