سیاسی مہابھارت کا نیا صفحہ

ہندوستان کے موجودہ سیاسی نظام کی بنیاد جھوٹ پر ہے جس نے عوام کو گمراہ کیا ہے

ہندوستانی سیاست میں سبز باغ پہلے بھی دکھائے جاتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی سبز باغ اور وعدوں کی سیاست سے واقف نہیں ہے مگر اب صورتحال مختلف ہو چکی ہے۔ یہ تجزیہ کرنا آسان نہیں کہ یہ سیاسی گراوٹ صرف ہندوستان میں آئی ہے یا اس کا اثر عالمی سیاست پر بھی پڑا ہے۔ جھوٹ کا اس سے بڑا اور پر فریب اثر کیا ہوگا کہ امریکہ اور برطانیہ نے مل کر عراق کو برباد کردیا اور ایک جھوٹ نے صدام حسین سے ان کی زندگی چھین لی۔ المیہ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب امریکہ اور برطانیہ کے جھوٹ سے ایک دنیا واقف تھی مگر خوفزدہ ہوکر تماشہ دیکھنے پر مجبور تھی۔ عالمی سیاست میں جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ اور مسلسل جھوٹ نے لیبیا اور کئی اسلامی ممالک سے سکھ چین کی زندگی چھین لی اور ایک ایسے نظام میں پہنچا دیاجہاں بربادی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جھوٹ کی یہ تاریخ ابھی بھی لکھی جارہی ہے اور اس کے اثرات سے دہشت گردی عروج پر ہے۔ انتہاپسند حکمرانوں نے طاقت کے زور پر کمزور ممالک بالخصوص اسلامی ممالک پر حملہ بول دیا ہے اور مخالفت میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہورہی ہے۔
یہ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاست کا نیا پس منظر ہے اور اس کی زد میں ہندوستانی سیاست بھی ہے۔ تین برس قبل جھوٹ، وعدے اور سبز باغ کا جو دور شروع ہوا، وہ اب جملہ بازیوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عوام سے ایک وعدہ کیا جاتا ہے۔ پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو محض ایک سیاسی جملہ تھا۔ میڈیا اس سیاسی جملہ کو حقیقت کی طرح پیش کرتے ہوئے سو جھوٹ پیش کرتی ہے بلکہ اب تو حد یہ ہوگئی کہ فرضی قصوں اور فرضی اسٹنگ کے سہارے حکومت کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس قدر آگے نکل گئی ہے کہ ضمیر فروشی کے باب میں، اس سے زیادہ کسی حد کے تجاوز کرنے کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا۔ نوٹ بندی کے معاملہ کو لے کر بھی جھوٹ بولا گیا اور اب پبلک اکائونٹس کمیٹی نے آر بی آئی گورنر سے جو سوالات پوچھے ہیں، ظاہر ہے ان کے جواب میں جھوٹ کی ایک پوری تھیسس پیش کردی جائے گی۔ مرکزی حکومت اس نوٹ بندی کے عمل کو مثبت قدم ٹھہراتے ہوئے اترپردیش میں جیت حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے اور وزیر اعظم مودی مسلسل اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ بی جے پی لیڈران اترپردیش کے عوام کے سامنے تال ٹھوک کر وزیر اعظم کے فیصلے کو سچ ثابت کردکھائیں۔ وزیراعظم اترپردیش میں نوٹ بندی کا معاملہ کیوں اٹھار ہے ہیں، اس کی بھی وجہ ہے۔ وزیراعظم اس سچ سے واقف ہیں کہ دیگر مسائل پر اس وقت نوٹ بندی کا معاملہ حاوی ہے۔ نوٹ بندی سے ستائے ہوئے لوگوں کے زخم پر مرحم رکھنے کے لیے اپازیشن اس معاملے کو ضرور اٹھائے گی اور جب انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، پچاس دس پورے ہونے کے باوجود عوام کے اچھے دن نہیں آسکے ہیں تو حکومت کسی بھی طرح اس کے اثرات سے دامن بچانے کی کوشش نہیں کرسکتی۔ اس لیے اپازیشن پر حملہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نوٹ بندی پر، جھوٹ پر جھوٹ بولا جائے اور عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ یہ بی جے پی اور مودی دونوں جانتے ہیں۔ اترپردیش کی موجودہ مہابھارت نے بی جے پی کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ اس مہابھارت سے پہلے ذرا ایک جھوٹ کی بات اور ہوجائے۔ بہار میں نتیش کمار نے مسلمانوں کے تعلق سے جو بھی وعدے کیے وہ بھی محض جملے بازی اور جھوٹ ثابت ہوئے۔ مودی سے قربت اگر نتیش کی سیاسی چال بھی ہے تو شطرنج کا یہ کھیل بہار کے مسلمانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر لالو پرساد یادو سے الگ ہوکر دو بارہ بی جے پی کا ہاتھ تھامنے کا ارادہ ہے تو اسے بہار کے عوام کے ساتھ فریب کہا جائے گا اور نتیش کی حیثیت رام بلاس پاسوان کی طرح ہوگی، جن کی باتوں پر اب بہار کے عوام، بالخصوص مسلمان دھیان نہیں دیتے۔
بات مہا بھارت کی چلی تھی۔ اس وقت بھیشم پتاما کا کردارسماج وادی پارٹی میں امرسنگھ ادا کررہے ہیں جنہیں مرکزی سرکار کی طرف سے ابھی حال میں زیڈ سیکوریٹی کا تحفہ دیا گیا ہے اور آگے اس سے بڑے تحفے ملنے کی امید قائم ہے۔ ملائم کی قربت امر سنگھ سے اور امر سنگھ کی قربت بھاجپا اور آر ایس ایس سے رہی ہے۔ ملائم سنگھ یادو کی ایک بہو بھی مودی اور بی جے پی سے قریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مظفر نگر فسادات کے بعد ملائم سنگھ کا بھی ایک حد تک جھکائو بی جے پی کی طرف رہا ہے۔ امر سنگھ بھیشم پتاما بن گئے تو شیو پال کا راستہ صاف تھا۔ اور کیسے صاف تھا؟ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ شیو پال اترپردیش کی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس کررہے تھے کہ کسی بھی ایک پارٹی کو بھرپور اکثریت ملنے سے رہی۔ اس لیے بہتر ہے کہ بی جے پی سے رشتہ مضبوط کیا جائے۔ لیکن یہی بات بی ایس پی کی پرانی تاریخ کو دیکھتے ہوئے بی ایس پی کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کھیل کو نیا موڑ ارجن دیا ہے۔ اور ساتھ نبھایا کرشن جی نے۔ یہ ارجن اکھیلیش میں اور کرشن مہاراج کا کردار بڑے چچا یعنی رام گوپال یادو نے ادا کیا۔ یادو گھرانے میں مہا بھارت شروع ہوگئی۔ شروع شروع میں اس مہابھارت کو ملائم سنگھ یادو کا ڈرامہ سمجھا گیا۔ اکھیلیش پر کٹھ پتلی ہونے کا الزام تھا۔ اس لیے یہ کہا گیا کہ اکھلیش کو مضبوط ثابت کرنے کے لیے یہ پورا ڈرامہ ملائم سنگھ یادو نے تیار کیا ہے۔ لیکن اس درمیان اس ڈرامے میں اتنے اتار چڑھائو اور اتنے موڑ آئے کہ مہا بھارت کی تاریخ بھی کمزور لگنے لگی۔ سماج وادی کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی ایس پی اور بی جے پی دونوں کی رہی۔ کانگریس اس معاملے میں اس لیے خاموش رہی کیو نکہ کانگریس اس سچ سے واقف ہے کہ سماج وادی کی پھوٹ کانقصان سب سے زیادہ اسے اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ پچھلے ستائس برس سے کانگریس اترپردیش میں نہیں ہے اور بغیر ایس پی کے سہارے کے، اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سماج وادی کی اس مہا بھارت کا سب سے اہم حصہ مسلمان ہیں۔ اکھیلیش حکومت کو مظفر نگر فسادات کے لیے ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ اور ابھی حال میں ریزرویشن کے مسئلہ پر بھی انہوں نے مسلمانوں کو ناراض کردیا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ جس قدر بی ایس پی اور کانگریس کو چاہیے اسی طرح ملائم اور اکھیلیش بھی مسلمانوں کے ووٹ بھو کے ہیں۔اور مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ اس مہابھارت میں کس کا ساتھ دیں۔ یہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اب ایک بار پھر مسلمان اور جھوٹ کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں— کانگریس آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے لیے جھوٹ بولتی آئی۔ بی ایس پی نے بھی کبھی مسلمانوں کو کوئی سیاسی معاشی فائدہ نہیں پہنچایا۔ سماج وادی کی تاریخ یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو ٹوپی پہن کر ملا ملائم سنگھ ضرور بن جاتے ہیں مگر اس وقت کی سیاست میں مسلمانوں کو لے کر ان کی منشا اور نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو ملائم ووٹ لے کر مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کی کارروائی کرسکتے ہیں۔ پھر کیا اکھلیش پر یقین کیا جائے جس نے ریزرویشن کے نام پر مسلمانوں سے جھوٹ بول کر اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کی۔؟ اگر یہ صلح ہو بھی جاتی ہے اورمسلمان اس پی کے فریب میں آجاتے ہیں، تب بھی اس بات کی امید کم ہے کہ ملائم یا اکھیلیش مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے کوئی قدم اٹھائیں گے۔ یہ یقین دہانی بی ایس پی کے ساتھ بھی نہیں کی جاسکتی۔ ظاہری مقابلہ اترپردیش میں دو لوگوں سے ہے۔ ایک وہ طاقت جو مسلمانوں کے وجود سے انکار کا رویہ اپناتی ہے۔ ہر معاملہ میں جھوٹ بولنے کے باوجود مسلمانوں کے معاملے میں اس کا کردار صاف ہے۔ اور دوسری طاقت جو پرفریب سیاست کے بل بوتے مسلمانوں کے ووٹ بینک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ غور کریں تو مسلمانوں کے لیے راستہ کہیں ہموار نہیں ہے۔ انہیں آنکھ بند کرکے انہی میں سے، کسی ایک سیکولر پارٹی کا انتخاب کرنا ہے اور اس پارٹی سے دور رہنے کی کوشش کرنی ہے جو صاف لفظوں میں انہیں حاشیے پر ڈال چکی ہے۔ جبکہ یہ کھیل بھی سب نے مل کر کھیلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی نظام کی بنیاد جھوٹ پر ہے جس نے ملک کو کھوکھلا اور عوام کو گمراہ کردیا ہے۔ اصل آزمائش مسلمانوں کی ہے۔ اور مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی پارٹی ان کی اپنی نہیں ہے۔ موجودہ سیاست میں جب تک سیاسی معاشی اقتصادی سطح پر وہ اپنے گراف کو مضبوط نہیں کرتے، سیاسی پارٹیاں ان کا استعمال کرتی رہیں گی۔
[email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔