باپ بیٹے کی جنگ میں بیٹے کی جیت

عبدالعزیز
سیاست میں باپ بیٹے کی جنگ کم ہوتی ہے۔ کانگریس میں جب دو فریقوں میں جنگ ہوئی تھی تو اندرا گاندھی کی لڑائی پرانے کانگریسیوں سے تھی۔ اندرا گاندھی کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبروں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ اگر چہ انھیں پارٹی نشان کی لڑائی میں کامیابی نہیں ملی تھی مگر الیکشن میں پورے طور پر کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس طرح پرانی کانگریس پارٹی سمٹ کر رہ گئی جبکہ اندرا گاندھی آہستہ آہستہ کانگریس پارٹی ہوگئی۔ تیلگو دیشم میں سسر اور داماد کی لڑائی تھی۔ داماد کو پارٹی میں اکثریت حاصل تھی جس کی وجہ سے داماد کی تیلگو دیشم ہوگئی۔ داماد بابو نائیڈو کئی بار آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ ہوئے۔ آج بھی وہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو نے ہی پانچ سال پہلے اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ اکھلیش وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سماج وادی پارٹی اور حکومت کو اپنے انداز سے چلانا چاہتے تھے مگر ملائم سنگھ یادو ان کے بھائی شیو پال یادو کا انداز دوسرا تھا۔ دونوں پردیش کے اچھے برے سب کو لے کر حکمرانی کرنا چاہتے تھے جبکہ اکھلیش شرپسندوں سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔ میڈیا میں اکھلیش کی اگر چہ اچھی تصویر پیش کی جانے لگی مگر حکمرانی بدتر قسم کی تھی۔ پردیش میں ڈھائی سو سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ مظفر نگر کے فساد میں مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں کے نام و نشان مٹا دیئے گئے۔ 75 ہزار افراد آج بھی در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر حکومت فساد زدگان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔
گزشتہ روز ملائم سنگھ یادو نے اپنے بیٹے کا کردار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا مسلم دشمن ہے۔ انھوں نے کہاکہ جب ایک مسلمان جاوید احمد کو اتر پردیش کا ڈی جی پی بنایا تو ان کا بیٹا اس قدر غصہ میں تھا کہ 15 روز تک اس نے مجھ سے بات چیت نہیں کی۔ انھوں نے ایک مولانا کے حوالے سے کہاکہ اکھلیش نے مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔
اس وقت جب ملائم سنگھ یادو اپنے بیٹے سے جنگ ہار چکے ہیں ان کے اپنے ایک ایک کرکے اکھلیش کے حامی بن چکے ہیں تو اکھلیش اور ان کی حکومت کی خرابیاں ایک ایک کرکے گنا رہے ہیں؛ حالانکہ اتر پردیش میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کیلئے ملائم اور اکھلیش دونوں ذمہ دارہیں۔ کسی ایک کو ذمہ دار قرار دینا صحیح نہیں ہوگا۔
ملائم سنگھ اگر چہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا حامی اور دوست بتا رہے ہیں مگر یہ بات ماضی کی ہے۔ ملائم سنگھ نے گزشتہ کئی سال سے خاص طور سے جب سے مودی جی وزیر اعظم ہوئے ہیں بی جے پی سے قریب ہوگئے۔ بہار کے الیکشن میں وہ بی جے پی کو کامیاب بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ پہلے جنتا پریوار کا محاذ یا جماعت بنانے والے تھے ، نتیش کمار اور لالو یادو کی طرف سے انھیں جنتا پریوار کا صدر بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی مگر وہ میٹنگ جو لکھنؤ میں ہو رہی تھی اس سے اٹھ کر چلے گئے اور نہ صرف اپنے آپ کو پریوار سے الگ کرلیا بلکہ بہار میں فرقہ پرستوں کے خلاف جو محاذ (مہا گٹھ بندھن) بنا اس سے بھی علاحدگی اختیار کرلی۔ پہلے  جنتا پریوار سے خود سے جدا ہوئے۔ آج اپنے پریوار میں بھی اکیلے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو بی جے پی کی قربت ملائم سنگھ کو راس نہیں آئی۔
اب جو ملائم سنگھ یادو کی حالت ہے وہ یوسف بے کارواں کی طرح ہے۔ جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ بھی اکھلیش کے ساتھ ہوجائیں گے، کیونکہ اتر پردیش میں اکھلیش پورے طور پر اپنے باپ ملائم سنگھ یادو کی جگہ لے چکے ہیں۔ ملائم نے دو تین ہفتے پہلے امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ کانگریس سے کسی قسم کا اتحاد نہیں ہوگا۔ اپنی اس بات کو ایک بار نہیں دو بار دہرایا تھا۔ اکھلیش پارٹی کا نشان پانے سے پہلے ہی اتحاد کے حق میں تھے اور اب اتحاد کی باتیں شاید آخری مرحلے میں ہیں۔ اگر یہ اتحادہوجاتا ہے تو نہ صرف اکھلیش کو مضبوطی حاصل ہوگی بلکہ فرقہ پرستوں کو ہرانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ بہار میں آج مخلوط سرکار ہے۔ اگر فرقہ پرست پارٹی کے خلاف محاذ آرائی نہیں ہوئی ہوتی تو شاید آج نتیش کمار بہار کے وزیر اعلیٰ نہیں ہوتے۔
مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ جو لوگ بھی اکھلیش سے قریب ہیں، کانگریس اور سماج وادی پارٹی اور دوسری پارٹیوں کے اتحاد کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ باپ بیٹے کی جنگ میں شر سے یہی ایک خیر کا پہلو ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف اکھلیش کے خیمہ میں لڑنے کیلئے دیگر پارٹیوں بشمول کانگریس ایک جذبہ ابھر آیا ہے۔ ادھر لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے بھی اکھلیش کو نہ صرف مبارکباد دی ہے بلکہ ان کے ساتھ میدان میں اترنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی نے بھی کم و بیش اسی قسم کا جذبہ دکھایا ہے۔ اروند کجریوال بھی اکھلیش ہی کی حمایت کریں گے۔ اس طرح جو لوگ بھی فرقہ پرستی اور نریندر مودی کی آمریت و فسطائیت کے خلاف ہیں وہ متحد ہوسکتے ہیں۔ 2019ء کے الیکشن سے پہلے مودی کے خلاف زبردست محاذ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اتر پردیش میں مذکورہ افراد کی حکمت عملی اور اتحاد کا مظاہرہ ضروری ہے کیونکہ اتر پردیش میں اگر بی جے پی کا بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں حشر ہوتا ہے تو فرقہ پرستی کو لگام لگانے میں بہت حد تک دیر یا سویر آسانی ہوسکتی ہے۔
موبائل: 9831439068    [email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔