حضورﷺ کی تشکیل ِریاست کی فکری بنیادیں (دوسری قسط)

 
ترتیب:عبدالعزیز
الف- ایمان باللّٰہ:عقائد میں سب سے مقدم عقیدۂ توحید ہے۔ توحید اپنی اہمیت و اصل کے اعتبار سے تمام دین کا خلاصہ اور دوسرے تمام عقاید و اعمال کا سر چشمہ ہے۔ ’’ سب اس اصل کی فرع ہیں اور جتنے اخلاقی احکام اور تمدنی قوانین ہیں سب اسی مرکز سے قوت حاصل کرتے ہیں‘‘۔ اسلام میں جو چیز بھی ہے خواہ وہ عقیدہ ہو یا عمل اس کی بنیاد صرف ایمان باللہ پر قائم ہے۔
اس عقیدہ کا مطلب جو اسلام کے عظیم الشان فکری و عملی نظام میں مرکز اور منبع قوت کی حیثیت رکھتا ہے، صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے وجود کا اقرار کرلیا جائے بلکہ اس کے تحت اللہ کی صفات کا ایک مکمل اور صحیح تصور رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اسی سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو انسان کے قوائے فکر و عمل پر محیط ہوجاتی ہے۔ مزید برآں جاہلی تصورِ الٰہ اور اسلامی تصورِ الٰہ میں یہی تصورِ صفات، حقیقی فرق پیدا کرنے والا ہے ورنہ محض ہستی باری تعالیٰ کا اثبات دورِ جاہلیت میں بھی پایا جاتا تھا۔ اسلام کے تصورِ الٰہ کا اصل امتیاز یہ ہے کہ ’’اس نے صفاتِ باری کا صحیح، مکمل اور مفصل علم بخشا اور پھر اسی علم کو ایمان بلکہ اصل الایمان بناکر ان سے تزکیۂ نفس، اصلاح اخلاق، تنظیم اعمال، نشر خیر و منع شر اور بنائے تمدن کا اتنا بڑا کام لیا ہے جو دنیا کے کسی مذہب وملت نے نہیں لیا‘‘۔
عقیدۂ توحید کے اقرار سے انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر ہمہ گیر اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آدمی میں وسعت نظریہ پیدا ہوتی ہے۔ انسان پستی و ذلت سے اٹھ کر خود داری و عزتِ نفس کے بلند ترین مدارج پر پہنچتا ہے۔ انکسار و تخشع، رجائیت و اطمینان قلب، صبر و توکل، شجاعت، امانت و دیانت، قناعت و استغنا کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ غلط توقعات ، اوہام و خرافات کا ابطال ہوجاتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عقیدہ سے نفوس میں پاکیزگی اور اعمال میں پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ معاشرہ کے افراد کے باہمی معاملات درست ہوتے ہیں۔ پابندیِ قانون کی حس پیدا ہوتی ہے اور ایک بالاتر قوت کی نگرانی و گرفت کو آدمی دل و جان سے محسوس کرتا ہے۔ اطاعت امر اور نظم و ضبط کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور افراد ایک زبردست باطنی قوت سے اندر ہی اندر سدھر کر ایک صالح اور منظم سوسائٹی بنانے کیلئے مستند ہوجاتے ہیں۔
توحید کی انقلاب خیز تعلیم کا صحیح اندازہ اس وقت ہوسکتا ہے جبکہ یہ پیش نظر رہے کہ افق کی تاریخ پر جب اسلام طلوع ہوا تو دنیا کی بیشتر مہذب قومیں کثرت پرستی اور اوتار پرستی میں مبتلا تھیں۔ تمام دنیا میں بالعموم اور جزیرہ نمائے عرب میں بالخصوص آدمی چاند، سورج، ستارے، سیارے، شجر، حجر، غرض دنیا کی ہر حقیر سے حقیر چیز کے آگے سرنگوں ہوتا تھا، یہاں تک کہ آدمی آدمی کے آگے جھکتا تھا۔ توحید کے فعال تصور نے طلسم جاہلیت کو توڑا اور تسخیر قدرت کی تعلیم اسی معاشرہ میں پیش کی جہاں جہاں خود انسان صدیوں سے مسخر ہوتا چلا آرہا تھا۔ اس عقیدہ نے انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دی۔ طبعی پابندیوں اور حیاتیاتی کائنات سے آزادی بخشی۔ انسان کی عظمت و رفعت کو تمام مخلوقات پر ثابت کیا۔ شرک و بت پرستی کے تمام بندھنوں کو کاٹ دیا۔ انسانیت کو افتخارِ آدمیت کی نئی تعبیر سے روشناس کرایا اور یہ بتایا کہ ملکیت و حکمرانی کا اصل حق اللہ رب العالمین کو حاصل ہے۔
علاوہ ازیں اس عقیدۂ توحید نے انسانیت کو عدل و مساوات کی اقدار عطا کیں۔ انسانی معاشرت کی بنیاد کامل عدل اور صحیح مساوات کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور کامل عدل اور صحیح مساوات وحدت الٰہ اور وحدتِ آدم کے بغیر ناممکن ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ اس وقت اقوام و ملل میں افراتفری اور انتشار کا یہ عالم تھا کہ ان میں نہ خدا مشترک تھا نہ آدم۔ ہر ایک کا خدا الگ الگ تھا۔ ہر ایک کی نسل، زبان، رنگ، وطن، ذات پات، شہریت، معتقدات اور اخلاق جدا تھے۔ اس صورت حال میں صرف ایک ہی رشتۂ توحید ایسا رشتہ ہوسکتا تھا جو تمام لوگوں کو ایک مرکز پر متحد کر دے یعنی یہ کہ سب ایک ہی الٰہ کو مانیں، اسی کے اتارے ہوئے قانون و شریعت کو تسلیم کریں اور ایک ہی آدم کے مشترک گھرانے کا اپنے آپ کو فرد سمجھیں۔ اس اساس پر بلا شبہ ایک عالمگیر سیاسی تنظیم کی عمارت قائم ہوسکتی ہے۔ اسی نظریۂ توحید نے مختلف و متضاد انسانی عناصر کو جمع کیا، ان کو ملا کر ایک ملت بنایا۔ ان کے تخیلات، اعمال و اطوار میں غایت درجہ کی یکجہتی پیدا کی اور ان کے اندر اختلافِ ظروف و احوال کے باوجود ایک تہذیب کی نشو و نما کرکے ایک انتہائی اعلیٰ نصب العین کیلئے جینے اور مرنے کا حوصلہ عطا کیا۔
مزید برآں چونکہ عقیدۂ توحید کی رو سے سب کا الٰہ ایک ہے اور سب خدا کے بندے ہیں اس لئے بر بنائے عبدیت و انسانیت ایک انسان کو دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ اس بات نے ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان تمام اختلافات کو مٹا دیا اور انسانیت کو شہنشاہیت، پاپائیت، آمریت، مطلق العنانیت، استبداد اور غیر الٰہی حاکمیت کے ہر بندِ غلامی سے نجات دلادی۔
ب- ایمان بالملائکہ: فرشتوں پر ایمان در اصل ایمان باللہ کا تتمہ اور اس کا ضمیمہ و لازمہ ہے۔ اس عقیدہ کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ ملائکہ کے وجود کا اثبات و اقرار کیا جائے بلکہ یہ کہ نظام وجود میں ان کی صحیح حیثیت کو سمجھ لیا جائے تاکہ ایمان باللہ خالص توحید پر قایم ہو اور شرک و عبادت ما سوائے اللہ کے تمام شائبوں سے پاک ہوجائے۔ دور جاہلیت میں اہل عرب کے یہاں ملائکہ کا تصور موجود تھا لیکن اس میں سخت افراط و تفریط تھی۔ قرآن نے ایک طرف تو ملائکہ کا صحیح تصور پیش کیا اور دوسری طرف ان کے اس عقیدہ کی بھی تردید کی کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں یا اس کی خدائی میں شریک یا لائق عبادت ہیں؛ کیونکہ اس وقت وہاں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور الوہیت میں اس کے شریک ہیں۔ قرآن نے بتایا کہ فرشتے اللہ کے معزز بندے ہیں، اطاعت گزار ہیں، اس کے حکم پر چلتے ہیں اور صرف وہی کرتے ہیں جس کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور کسی حال میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔
ایمان بالملائکہ سے انسان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس کے تمام جذبات عبودیت اللہ پرستی کے مرکز پر سمٹ آتے ہیں۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ موجودات ِ عالم میں کوئی چیز اس سے افضل نہیں ہے اور فرشتے تو خود انسان کے آگے سر بسجود ہوچکے ہیں تو بھلا وہ انسان کے مسجود و معبود کس طرح بن سکتے ہیں؟ اس عقیدہ نے یہ تعلیم بھی دی کہ انسان کائنات کی کارکن طاقتوں میں سے کسی کو کار فرما نہ سمجھ بیٹھے جس طرح تمام کائنات اور خود انسان کی زندگی کے غیر اختیاری شعبہ میں اللہ کی حکومت ہے اسی طرح انسان اپنی زندگی کے اختیاری شعبہ میں بھی اللہ کی حکومت تسلیم کرے۔ ہر معاملہ میں اللہ کو واضعِ قانون اور اپنے آپ کو صرف متبع قانون سمجھے اور اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر محدود کر دے جو اللہ نے مقرر کئے ہیں جس طرح فرشتوں کا یہ طرز عمل ہے۔ فرشتوں پر ایمان اس لئے بھی لازمی ہے کہ ان پر ایمان لائے بغیر وہ پیغام بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہر سکتا جسے وہ رسول اللہ کے پاس لے کر آتے ہیں۔
ج- ایمان بالرسالت: امام راغب کا بیان ہے کہ ’’جو سفارت اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ان سے امور دنیوی اور اخروی میں خرابیوں کو دور کرنے کیلئے جاری ہوتی ہے اسے نبوت (النّبوّہ) کہا جاتا ہے۔ اور اصطلاح شریعت میں رسالت اس سفارت کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک اپنے تشریعی احکام پہنچانے اور انھیں اپنی مرضی کی راہ بتانے کیلئے قایم کیا ہے۔ ایمانیات میں عقیدہ ٔ رسالت کا شمار اگر چہ ایمان باللہ کے بعد ہوتا ہے لیکن عملاً رسول کے بغیر اللہ کے احکام اور اس کی ذات و صفات کا علم نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے عقیدۂ رسالت کی حیثیت مقدم ہے۔
عقیدۂ رسالت کا ایک جزو تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ خاتم النّبیین ہیں۔ آپ کی رسالت سارے انسانوں، تمام عالم کیلئے ہے اور آپ کے ہاتھوں دین کی تکمیل ہوگئی ہے۔ اس لئے اب آئندہ نہ کسی نبی اور رسول کے آنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی نئی شریعت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایمان بالرسل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تمام گزشتہ انبیاء و رسل پر ایمان لایا جائے ۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مسلمانوں سے گویا تمام اقوام عالم میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کیلئے کہا گیا اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ تمام انبیاء و رسل الگ الگ جو پیغا م الٰہی لائے تھے وہ ہمیشہ سے یکساں اور ایک رہا ہے۔ پیغام میں یکسانیت آدمی کو اس طرف بھی راغب کرتی ہے کہ اختلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، البتہ پچھلے انبیاء و رسل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں یہ فرق موجود ہے کہ گزشتہ انبیاء و رسل …کا پیغام مقامی اور محدود تھا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام اور تام ہے۔ تمام انسانوں، تمام عالم اور آنے والے تمام زمانوں کیلئے ہے۔ گویا آپ کا لایا ہوا پیغام ہدایت، ہدایت اور عالمگیریت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں آپؐ دیگر رسولوں کی طرح صفات بشریت وہبیت اور عصمت سے متصف ہیں، نیز آپ مطاع، شارح کتاب الٰہی، معلم و مربی، پیشوا اور نمونہ تقلید، شارع اور قانون ساز، قاضی حکم، غرض سب ہی کچھ ہیں کیونکہ معاشرہ کی صلاح و فلاح اور ریاست کی تعمیر میں یہ تمام صفات ناگزیر ہیں اور یہ امر تو بہت واضح ہے۔ آپ کو وحی کے ذریعہ ایک ایسا ذریعہ علم عطا کیا گیا جو ہر قسم کے خطا و نسیان اور تخمین وظن سے ماورا ہے۔
یہ آخری خصوصیت ایسی ہے جو بعض دوسری حقیقتوں کو بھی واضح کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ صرف ایمان بالرسل ہی وہ چیز ہے جو بنی نوع انسان کو ایک مرکز پر جمع کرسکتی ہے کیونکہ اختلاف کی بنا در اصل جہالت ہوتی ہے۔ دوسری یہ کہ رسول اللہ جو طریق فکر یا اصولِ اخلاق و سیاست یا اصولِ قانون و معاش مقرر کرتے ہیں وہ قومی رجحانات یا زمانی خصوصیات پر نہیں بلکہ علم، حق اور صداقت پر مبنی ہوتے ہیں اور علم، حق و صداقت وہ اقدار ہیں جو مشرق و مغرب، سیاہ و سفید اور قدیم و جدید کے دائرۂ امتیاز میں نہیں آتیں۔ لہٰذا رسول کے لائے ہوئے ضابطۂ حیات میں ہی یہ قابلیت ہوسکتی ہے کہ اپنے اصول و اساس کو بدلے بغیر ہر ملک، ہر قوم اور ہر زمانے کیلئے مناسب حال ہو اور رسولؐ اللہ یہ ضابطۂ حیات انتہائی موزوں اور مناسب وقت پر لے کر آئے۔ آپؐ بلا شبہ آخری نبی تھے لیکن آپؐ سے پہلے آنے والے انبیائؑ جب اپنی تعلیم و تربیت سے قوموں کا اخلاقی شعور اس حد تک بیدار کرچکے کہ وہ ایک عالمگیر نظام کے تحت زندگی بسر کرسکیں۔ علاوہ ازیں دنیا کے مادی وسائل اجتماع و تمدن نے اس حد تک ترقی کرلی کہ ایک ہادی کا پیغام ہدایت دنیا کے ہر گوشہ میں بہ سہولت پہنچ سکے تو خاتم الانبیاء حضرت محمدؐ رسول اللہ کی بعثت ہوئی۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ آپ کی دعوت تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے اور اس لحاظ سے یہ عالمگیر دعوت، کاملیت و ابدیت بھی رکھتی ہے کہ اس کے بعد کوئی اور دین یا دعوت یا شریعت آنے والی نہیں ہے۔ آپؐ کی رسالت، رسالت عام اور آپ کی دعوت، دعوت عام ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین کہا ہے۔
جہاں تک اہل عرب کا تعلق ہے تو عربوں میں ایسے افراد کی کمی نہ تھی جو رسولوں کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات رکھتے تھے اور اسی لئے جب رسولؐ اللہ نے اپنی رسالت کا اعلان کیا تو انھوں نے مختلف قسم کے اعتراضات وارد کئے۔ مثلاً یہ کہ:
’’یہ ایسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے، اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ لوگوں کو ڈراتا‘‘۔
انکارِ رسالت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ حضورؐ کو پاگل و مجنوں اور ساحر کہہ کر مخاطب کرتے تھے تاکہ اقرار رسالت کے بار سے سبکدوش ہوجائیں۔ کچھ لوگ بعثتِ انبیاء کے تو قائل تھے مگر یہ چاہتے تھے کہ کوئی فرشتہ نبی بناکر بھیجا جائے، عام انسان کو رسول کی حیثیت سے قبول کرنے کو ان کا ذہن آمادہ نہ تھا۔
’’اور جب ان لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکی تو انھیں ایمان لانے سے صرف یہ بات مانع ہوئی کہ انھوں نے کہاکہ کیا اللہ نے ایک انسان کو رسول بناکر بھیجا ہے؟‘‘
ان تمام شکوک و شبہات اور اعتراضات کا مسکت و مدلل جواب دیا گیا، چنانچہ ایک طرف تو یہ بتا دیا گیا کہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک اپنے احکام و ہدایات بھیجنے کا ذریعہ ہمیشہ انسانوں کو ہی بنایا ہے تاکہ انسانوں پر انسانی فطرت کے مقتضیات انسانوں کے ذریعہ سے ہی واضح ہوں اور لوگوں کیلئے یہ کہنے کا موقع باقی نہ رہے کہ انسان کیلئے کسی غیر انسان کا علم و عمل کیسے نمونے کا کام دے سکتا ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی رسول بھیجا گیا نوعِ انسانی میں سے ہی بھیجا گیا ۔
’’اے محمد! ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بناکر صرف آدمیوں کو ہی بھیجا تھا جن پر ہم اپنی وحی نازل کرتے تھے‘‘۔
اور دوسری طرف رسالت کے بارے میں اللہ کا ایک متعین ضابطہ بتادیا گیا جس کی تائید عقل عام بھی کرتی ہے کہ رسول کو اسی جنس اور اسی مخلوق میں سے ہونا چاہئے جس کے پاس جاکر اسے رسالت کا فرض انجام دینا ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ
’’اے نبی! ان سے کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور آباد ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کسی فرشتے (ہی) کو رسول بناکر بھیجتے‘‘ ۔
ایک اعتراض اہل عرب کا یہ بھی تھا کہ ایسے شخص کو رسول کیوں بنایا گیا جس کے پاس نہ مال ہے نہ اولاد، نہ عزت نہ مرتبہ، اگر رسول بنا کر بھیجنا ہی تھا اللہ مکہ یا طائف کی بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی کو بناتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ
’’اللہ خوب جانتا ہے کہ رسالت کا محل کون سا ہے اور اپنی پیغمبری کسے عنایت فرمائے‘‘۔
بہر حال رسالت پر ایمان نے ایک طرف تو اہل عرب کے شکوک و شبہات کو رفع کرکے رسول کی حیثیت و عظمت کو متعین کیا اور دوسری طرف اہل عرب کے تمام اوہام اور فسانہ و فسوں کا خاتمہ کردیا۔ علم کی روشنی میں اچھائی اور برائی کے غلط معیارات کی بیخ کنی ہوگئی اور رسول کے منبع علم قرار پاجانے سے تمام پاپائیت کا اور نامعلوم مدت سے چلی آنے والی روایاتِ باطلہ اور غیب و الہام کی مفسدانہ صورتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ کاہن و عراف اور غیبی خبریں بتانے والوں کی قدر و قیمت خاک میں مل گئی اور لوگوں کو اعتماد و یقین کی دولت سے مالا مال کر دیا۔
یہاں یہ بات نہ بھولنا چاہئے کہ رسول پر ایمان و اطاعت کا حکم سب سے پہلے ایک ایسے معاشرہ میں دیا گیا جہاں اطاعت و انقیاد کا کوئی تصور نہ تھا۔
(جاری)
موبائل: 9831439068    [email protected]

تبصرے بند ہیں۔