سیاسی وعدوں اور جملوں کے منفی اثرات

 عزیز اعظمی

الیکشن کا زمانہ تھا اسی دوران دبئی سے گھر جا رہا تھا لکھنئو ایئر پورٹ سے باہر نکلا دیکھا تو ہر طرف بڑے بڑے بینر پوسٹر لگے ہوئے تھے ملک کے مزاج کے مطابق پرکشش نعرے لکھے ہوئے تھے  ریلیوں کی وجہ سے پورا روڈ جام تھا لوگ سروں پر زعفرانی ٹوپی اور گمچھے باندھ کر سڑکوں پر اس قدر اتپاد مچا رہےتھے جیسے آئین و قانون بے معنی ہو۔  برہمنی ذہنیت ” سیاسی سوچ  بھیڑ اور ریلیوں میں کھل کر ناچتی ہیں  پارٹی کے کار کرتا اس کا بھر پور ثبوت پیش کر رہے تھے، ملک کی بدحالی، بد امنی ‘بدعنوانی، غربت، خستہ حال سڑکیں آزادی کے 70 سال بعد بھی اسی طرح  اپنے حال پر ماتم کررہی تھیں اچھے دن، ڈیجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا جیسے نعروں کی حقیقت صاف نظر آرہی تھی۔

باہر ممالک کے سیاسی نظام، شفاف حکمرانی  بہترین سڑکیں چوبیس گھنٹے بجلی پانی  ترقی خوشحالی دیکھ کر جب  وطن جاؤ تو واقعی ملک کے حالات پر رونا آتا ہے۔ اس بار پارلیمنٹری الیکشن میں مودی کی انٹری کسی فلمی ہیرو سےکم نہ تھی ٹی وی سے ریڈو تک  ہر طرف مودی ہی مودی ایسا لگتا تھا ہندوستان راتو رات پیرس بن جائے گا، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، سڑکیں شیشے کی ہو جائیں گی، بجلی، پانی دوا علاج سب فری ہو جائے گا میڈیا کے زریعہ بنائی گئی ہندوستانی سیاست کی اس فضا نے مجھے بھی بہت متاثر کیا دوسرے ہی دن مودی جی کی ریلی تھی بچے کی ہوائی جہاز دیکھنے کی ضد پر میں بھی ریلی گیا راستے میں ہی تھا کہ مودی جی کا جہازسر کے اوپر سے گزرا منچ کافی دور تھا سوچا تھوڑا اور قریب جاؤں تب تک لاؤڈ اسپیکر سے مترو کی آواز سنائی دی  سمجھ گیا مودی جی منچ پر آچکے ہیں  وہیں لاؤڈ اسپیکر کے نیچے بیٹھ گیا اور بھاشن سننے لگا مودی جی  کے اچھے دن کے نعرے 15 لاکھ کے وعدے اور لچھے دار باتوں نے مجھےایسا اسیر بنایا کہ وہیں یٹھے بیٹھے دبئی نہ جانے کا فیصلہ کر لیا گھر آکر بیگم کو بتایا اب دبئی نہیں جاونگا مودی جی نے کہا ہے کہ الیکشن بعد سب کو 15 لاکھ روپئے ملیں گے سب کو نوکری اور روزگار ملے گا اب یہیں کچھ کر لونگا  بیگم کے لئے اس سے خوشی کی بات کیا ہوتی جھٹ سے بولیں میں تو پہلے ہی کہ رہی تھی دبئی مت جائیں یہیں کچھ کرلیں لیکن آپ کو میری بات کہاں سمجھ میں آتی  جے ہو مودی جی کی جو انکی بات  آپکی سمجھ میں آگئی۔

 اب تو ووٹ مودی کو ہی دونگی،  کونے والی چارپائی پر بیٹھی اماں یہ سب باتیں سن رہی تھیں 50 سالہ زندگی میں انھوں نے بڑے سیاسی رنگ دیھکے تھے اپنی چھڑی کے سہارے میرے پاس آئیں اور کہا بیٹا میں نے بڑے بڑے سیاسی لوگوں کے بھاشن سنے ہیں وہ صرف سننے میں اچھے لگتے ہیں حقیقت سے اسکا کوئی سروکار نہیں ہوتا ان سیاسی لوگوں کی باتوں کا بھروسہ مت کرو اور لگی لگائی روزی کو مت ٹھکراؤ، شیخ صاحب نے بڑی مشکل سے میرے کہنےپر تم کو ویزہ دیا تھا اگر تم دبئی نہیں گئے تو انکے اعتماد کو بہت ٹھیس پہونچے گا بہتر ہوگا تم ان سے بھی مشورہ کر لو اور جس مودی کی تم بات کر رہے ہو نا اس رنگ کا تو خربوزہ میٹھا نہیں ہوتا اور تم اس کے جملے کا بھروسہ کر رہے ہو نہ بابا نہ میں محلے کے فرتو پر بھروسہ کر لونگی پر مودی پر نہیں، اماں کی باتوں میں بڑی سچائی تھی، لیکن مودی جی کا یہ جملہ کہ 3 مہینے بعد کھاتے میں 15 لاکھ آ جائے گا جو دبئی پوری زندگی کما کر بھی اکٹھا نہیں کر سکتا یہ بات زہن میں پیوست ہو چکی تھی  مودی کی شیطانی چال اور فریب میرے اندر اس قدر شرائط کر چکا تھا کہ اماں کے مرضی کے خلاف دبئی نہ جانے کا فصلہ کر لیا۔ الیکشن ختم ہو گیا مودی جی جیت گئے 7 ملکوں کے سربراہان کی موجودگی میں بڑی شان وشوکت کے۔ساتھ شپتھ لے لیا اور ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے میری آنکھوں میں امید کی چمک اور بڑھ گئی وقت گزرتا گیا لیکن انتظار کی گھڑیاں وہیں رکی رہ گئیں۔

 ایک سال بیت گیا دبئی سے کما کر لایا ہوا 50 ہزار روپیہ بھی ختم ہوا گیا بیگم کے پاس رکھے کچھ پیسوں سے گھر چل رہا تھا لیکن اب بچوں کے اسکول کی فیس اماں کی دوائی کی فکر ہونے لگی ہر اتوار مودی جی کی من کی بات سنتا اس امید میں کہ شاید کسی دن یہ اعلان کر دیں کہ کل 15 لاکھ سب کے کھاتے میں جمع ہو ہونے والے ہیں تھوڑی بہت  بچی امید یں اس دن دم  توڑ گئیں جس دن امت شاہ نے یہ کہ دیا کہ الیکشن کے دوران  کہی گئیں ساری باتیں صرف چناوی جملہ تھیں کف افسوس ملتا رہا اور سوچتا رہا کاش اماں کی باتوں پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے ہوتے دکھ و رنج میں بیٹھا سوچ رہا تھا اب کیا کروں پیسہ بھی نہیں ہے کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں اماں کو کچھ نہیں بتایا لیکن میری پریشان اور خاموش نگاہوں کو اماں نے پڑھ لیا ماں کی ممتابیٹے کو پریشان کیسے دیکھ سکتی تھی میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں بیٹا تیری ماں ابھی زندہ تو کیوں پریشان ہوتا ہے اپنا پان دان کھولا اور اس میں رکھے کچھ پیسے میرے ہاتھوں میں دیا اور کہا جا بازار سے ضرورت کے سامان اور بچوں کے لئے چاکلیٹ لے کر آ آگے اللہ مالک ہے وہ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہے کوئی زریعہ بنائے گا بیمار ماں کی یہ حوصلہ کن باتیں سن کر میری آنکھیں بھر آئیں ماں کی محبت بے مثال ہےدنیا میں اسکی کوئی نظیر نہیں –

دوسرے ہی دن گاوں کے کچھ لوگ  بمبئی جا رہے تھے  میں بھی چالو ٹکٹ لیا اور انکے ساتھ بمبئی چلا گیا بھونڈی میں گاوں کے بہت سارے لوگوں کا پاور لوم  ہے جمال اور حبیب کی کوششوں سے ایک کارخانے میں 8 ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگا 2 ہزار خرچ ہوجاتا 6 ہزار ہر مہینے گھر اماں کو بھیجتا جو آج کی اس مہنگائی کے دور میں کافی تو نہیں لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ضرور تھا 2 بچوں کے اسکول فیس ہر مہینہ اماں کی دوائی دوسرے اخراجات کیسے اماں پورا کرتی ہونگی یہ سوچ کر  پریشان ضرور رہتا  کبھی اماں کو فون کرکے پوچھتا تو کہتیں ہم سب خوش ہیں لیکن فون پر انکی کپکپاتی آواز سے لگتا سب کچھ ٹھیک نہیں والدہ نے بیگم کو منع کیا تھا کبھی گھر کی پریشانی کا ذکر جاوید سے نہیں کرنا ایک دن بیگم سے زبردستی پوچھا تو ڈرتے ہوئے بولی کی اماں اپنی دوا کے پیسےسے زاہد کے اسکول کی فیس بھر دیتی ہیں جس سے انکی دوا کا اکثر ناغہ ہو تا ہے فون رکھ کر گھنٹوں اپنی حالت زار پر روتا رہا  اپنی بیوقوفی اور قسمت کو کوستا رہا اور اسکے علاوہ مجھ جیسا  کم عقل اور بے بس انسان کر کیا سکتا تھا ملک کے حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکے تھے لوم والوں کی مندی ہر طرف بے روزگاری ایسی حالت کو دیکھ کر دبئی اکثر یاد آتا کہ وہاں کے ہزار درہم تنخواہ میں اتنی برکت تھی کہ بیوی بچوں کا خرچ اماں کی دوائی شادی بیاہ رسم و رواج ساری زمہ داریاں مختصر ہی صحیح لیکن  بخوبی پوری ہو جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ میرے بھیجے ہوئے پیسے سے اماں بچا کر چھوٹی بہن کی شادی کے لئے  کچھ زیور اور دوسرے سامان بھی بنا لئے تھے لیکن اب بھونڈی کی کمائی سے بچوں کے پیٹ بھر جائیں یہی بہت ہے  دوسری اخراجات کہاں ممکن۔ ۔

 ذہن میں بہت سارے سوالات لئے خود سے باتیں کرتے لوم کے سامنے کھڑا تھا کہ ادھر مہتا جی کی آواز آئی کی جاوید گاؤں سے تمہارا فون ہے دل دھک سے کیا اللہ خیر کرے آج تک گھر سے کبھی فون نہیں آیا کیا ہوسکتا ہے فون اٹھایا ہلو کون جاوید میں گاؤں سے رفیق بول رہا ہوں تمہاری والدہ کی طبیعت زیادہ خراب ہے تمہیں یاد کر رہی ہیں یہ سنتے ہی جیسے میرے پیروں سے زمین نکل گئی میری آواز میرے گلے میں اٹک کر رہ گئی فون رکھ کر وہی بیٹھ گیا آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مہتا جی سمجھ گئے کچھ انہونی ہوگئ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا بیٹا کیا ہوا سیٹھ ماں بہت بیمار ہے میں انکا اکلوتا بیٹا ہوں میرے سوا انکا کوئی نہیں وہ مجھے یاد کر رہی ہیں مہتا جی فورا مجھے آفس لے گئے سیٹھ سے کہ کر 5 ہزار روپیہ دلوایا گاڑی پر بیٹھایا سیدھا اسٹیشن لے گئے اتفاق سے گئودان ایکسپریس چھوٹنے ہی والی تھی ویٹنگ ٹکٹ لیکر سوار ہو گیا دوسرے دن سرائمیر اسٹیشن پہنچا باہر نکلا تو دیکھا ببلو اور احسان میرے انتظار میں کھڑے ہیں اماں کی حالت کو جانتے تھے اس لئے جلدی سے مجھے گاڑی پر بیٹھایا اور تیزی سے نکلے گاڑی ابھی ننداؤں موڑ  پر ہی پہونچی تھی کہ ببلو کے موبائیل پر فون آیا کہ اماں انتقال کر گئیں جس ماں نے ساری زندگی اپنا آنچل نچوڑ نچوڑ کر میری پیاس بجھائی اس ماں کو آخری لمحے میں ایک قطرہ پانی پلانا میرے نصیب میں نہ تھا.  باپ کا سایہ تو بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا ماں کا سایہ ہر تپش سے بچاتا تھا آج اس سے بھی محروم ہوگیا گھر پہونچا تو رسما کاندھا دینے والے دوست احباب رشتے داروں سے دروازہ بھرا پڑا تھا اندر گیا تو چھوٹی بہین کے رونے کی آواز سن کر جیسے کلیجہ ہی  پھٹ گیا۔ اسکے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوسکی میرا ضبط ٹوٹتا تو وہ بکھر جاتی آنسوؤں کو پی کر باہر آیا بزرگوں نے نماز جنازہ کا وقت طے کیا عصر بعد تدفین ہو گئی سارے رشتے دار چلے گئے اماں کی بہن سروری خالہ اور  محلے کی ہاجرہ دادی کے سوا کوئی میرے ساتھ نہ تھا ایسا لگا جیسے ایک طوفان آیا سب کچھ بہا لے گیا اور میں اکیلا بچ گیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔