سیاسی پارٹیاں کیجریوال سے خوف زدہ کیوں؟

راحت علی قـاسمی صدیقی
عآپ ہی سے خطرہ ہے آپ ہی کو روکیں گے۔ ہندوستان کے سیاسی منظرنامہ پر نگاہ ڈالی جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مشکل تر حالات سے دوچار ہیں، کانگریس اپنی سنہری تاریخ کو برقرار نہ رکھ سکی اور موجودہ وقت کی سب سے ناکام جماعت بن گئی اور ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کاخواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ پورے ملک کے اعدادوشمار اس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ اس میں زندگی کی رمق ابھی موجود اور سیاسی دانشوروں کا یہ جتھا تدابیر اور سوچ و فکر میں مصروف ہے۔ سماجوادی پارٹی نے یوپی میںتاریخی فتح حاصل کی مگر اسمبلی انتخاب میں مظفرنگر سانحہ نے اس کی تقدیربدل دی اور یوپی کی سب سے عظیم جماعت کو مختصر کردیا، اب اس کے افراداپنے دامن سے مظفرنگر کا داغ دھونے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں کی نفرت کو محبت میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور بہوجن سماج پارٹی اس کا عالم چند قدآوروں رہنماوں کے جانے سے پنچھی کے پر کترنے کے مثل ہوگیا تھا مگر دلتوں پر ہورہے مظالم نے بسپا میں نئی زندگی پیدا کردی اور مایاوتی نے قدم بڑھانا شروع کردیا، وہیں اس کھیل میں بڑی سمجھی جانے والی برادریاں ان سے دور ہوگئیں۔ پورے ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ یہی کہتا ہے اکثر جماعتیں اپنے وجود کی حفاظت کے لئے سرگرم عمل ہیں اور ان کے اقدامات خوف ہراس کے عالم کو بیاں کرتے ہیں مگر ایک تحریک کے نظریاتی اختلافات سے پیدا ہوئی عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے ہی دور میں جس انداز اور جس نوعیت پر کام کیا ہے ملک کے ہر شہری کو اس جماعت سے امیدیں وابستہ ہوگئیں اور یہ احساس یہاں تک آن پہنچا کہ ملک کاسیاسی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے اور عام آدمی پارٹی صرف دہلی تک محدود ہوکر نہیں رہے گی، اس کی رفتار سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ لمبی دوری طے کرنے والی ہے۔ ابھی تک تاریخ ان احساسات کی تائید کرتی ہے۔ 26 نومبر 2012 کو میدان عمل اتری سیاسی جماعت جس کے قائد تعلیم یافتہ، ذہین، ماہراور محنتی اروندکیجریوال تھے جو ملک کے مسائل کو لے کر سڑکوں پر گھومے اور عام آدمی کی طرح عام آدمی کا دکھ سنا، درد بانٹا ،جس کا انعام انہیں آنے والے دہلی انتخاب میں ملا اور وہ جماعت جو پہلی مرتبہ انتخاب میں اتری تھی ریاست کی سب سے بڑی جماعت ثابت ہوئی اور ایک ایسا شخص جس کا سیاست سے کوئی ربط ضبط اور تعلق نہیں تھا جس کے پرکھوں میں بھی کوئی سیاسی لیڈر نہیں گذرا تھا وہ دہلی کے تخت شاہی پر براجمان ہوا، کانگریس کا ساتھ اس قیادت کو حاصل تھا وہ لوگ جو سیاست کو اپنے گھر کی لونڈی اور پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں، جنہیںاپنی تدابیر پر ناز ہے وہ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبورہوئے اور اس تبدیلی نے انہیں محو حیرت کردیا۔ اروند کیجریوال نے کام شروع کیا، صرف 49 دن کے مختصر عرصہ کے بعد استعفیٰ دے دیا اور یہ باور کرایا جو وہ چاہتے تھے وہ کرنہیں سکتے تو کیوں حکومت کریں، ہر زبان سے یہ جملے نکلے کیا بیوقوفی اور پاگل پن ہے؟ کیا زندگی میں کبھی یہ موقع نصیب نہیں ہوگا اور کبھی یہ جماعت اب ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتی۔ سیاسی پنڈتوں کی زبان پر یہی جملے اور دعویٰ تھے مگر اس روئے زمین پر انہی سیاسی نجومیوں نے دیکھا کہ اس نومولود جماعت نے تاریخ رقم کردی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے، سیاست میں جو گھاگھ تھے انہیں طفلِ مکتب ثابت کردیا۔ بڑے بڑے رہنمااپنی پوزیشن بچانے میں ناکام ثابت ہوئے اور شیلا دکشت جیسی رہنما بھی اپنی سیٹ نہ بچا سکیں۔ 70میں سے 67سیٹیں عام آدمی پارٹی نے اپنے نام کیں اور پھر سے ریاست کا تاج اروند کیجریوال کے سر پر رکھا گیا۔ ہندوستان کی سیاست میں اروند کی شروعات دھماکہ خیز رہی تب ہی سے یہ جماعت کام میں مشغول ہوگئی اور اس کی مقبولیت ریاست کی سرحدوں کو پار کرکے آگے بڑھنے لگی۔ پورا ملک عام آدمی سے امیدیں لگانے لگا اور آہستہ آہستہ اس کے قدم دہلی سے قریبی ریاستوں میں جمنے شروع ہوئے اور اس وقت پنجاب میں اس کا شہرہ و چرچا ہے۔ اب جماعت کے بڑھتے قدم کچھ پارٹیوں کو کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں اور ان کی نیندیں حرام کررہے ہیں، ان سے یہ ترقی دیکھی نہیں جارہی۔ جس جماعت کا مد مقابل ملک بھر میں نظر نہیں آرہا تھا جو جھومتی ہوئی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی، اگر اسے ایک مدمقابل نظر آئے جس کی رفتار آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہو تو یقینا اس کا اثر ہوتا ہے اور بی جے پی بھی اس اثر سے بے نیاز نہیں ہے، بھلے ہی عآپ کی حکومت دہلی جیسی چھوٹی ریاست میں ہو لیکن وہ بی جے پی کے خلاف ہر محاذ پر کھڑی نظر آئی ہے۔ کیجریوال نے انہیں وارانسی میں للکارا، بہار میں عظیم اتحاد کی حمایت میں پہنچے۔ کنہیا کمار سے ملنے جے این یو پہنچے۔ روہت ومیلا کے معاملہ میں بھی ان کی جم کر تنقید کی، اب بی جے پی کے اپنے اور پنجاب میں بڑی حیثیت رکھنے والے نوجوت سنگھ سدھو کے حوالے سے عآپ میں شامل ہونے کی آوازیں گشت کررہی ہیں۔اگر چہ یہ ابھی تک یقینی نہیں ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو ظاہر کرتی ہیں عآپ اور بی جے پی دونوں جماعتوں کا حال کس طرح کا ہے؟ لیکن اب کچھ دنوں سے عآپ کے ممبروں کی جس طرح سے گرفتاری عمل میں آئی ہے اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے یہ کوئی بڑی سازش ہے جو اروند کے بڑھتے قدموں کو روکنے کے لئے کی جارہی ہے۔ وہ خود اس بات کو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی یہ سب کرارہی ہے منیش سسودیا کو پریس کانفرنس سے گرفتار کیا گیا، سومناتھ بھارتی کو گرفتار کیا گیا۔امانت اللہ خان کو گھر سے گرفتار کیا گیا، نرسنگھ یادو کو گرفتار کیا گیا اور بہت سے نام ہیں جنہیں حوالات کی ہوا کھانی پڑی ہے اور کیجریوال کو بھی اسی حالت میں کردیا گیا کہ آگے نہ بڑھیں، اپنی حفاظت کریں ورنہ دوسری طرف مایاوتی کو گالی دی گئی، گرفتاری ابھی تک نہیں ہوئی جب دلت سماج سڑکوں پر اترا تب ان کے خلاف سخت کاروائی کی گئی اور بہت سے ایسے لیڈران ہیں جن لہ زبانیں ہمیشہ زہر اگلتی ہیں مگران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، کوئی سزا کوئی عتاب نہیں ہوتا، پھر سوال یہ پیدا ہوتا کہ عآپ کے ساتھ اتنا سخت رویہ کیوں کیا؟سارے غنڈے، موالی اروند کی ٹیم میں آگئے یا منشاء و مقصد کچھ اور ہے؟ سچائی جوبھی ہو یہ رویہ شک کے دائرے میں لاتاہے۔ ایک طرف سنگیت سوم جیسے لیڈران آزاد ہیں اور دوسری طرف امانت اللہ خان جیسے محنتی لیڈر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن کی زبان نے کوئی ایسی بات نہیں اگلی جو ملک کی سالمیت اور آپسی بھائی چارہ اتحاد واتفاق کے لئے خطرہ ہو یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ حقیقت ہے ؟ مگر ابھی وقت کی گردش یہ ظاہر کررہی ہے کہ عآپ کہ بڑھتے قدموں کوروکنے کی کوشش ہے اور پنجاب کے خیال کو ذہن سے اروندکیجریوال نکال دیں، اس کو ذہن میں رکھ کر یہ طریقہ کار اختیار کیا جارہاہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوگا عآپ کی مشکلات ابھی برقرار ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔