کفّارہ

نعیم کوثر،ؔ بھوپال
اسے اپنے باپ چٹر جی وکیل سے بالکل محبت اور لگائو نہ تھا ،لیکن اس نے کبھی بھی نفرت اور اچاٹ پن کا اظہار نہیںکیا اور نہ کوئی گستاخی کی ۔چندر تین چار سال کا تھا جب اس کی ماں بیوہ تھی۔اور چٹر جی وکیل نے قانون کی موٹی موٹی کتابیں اٹھائیں ،ان کی دھول صاف کی اور ریتی رواج سے بغاوت کرکے کوشلیا سے بیاہ رچا لیا ۔ماں کو خوب عزت دی اورخود اسے ڈھیر سارا پیار ،پڑھائی لکھائی ،اچھے کپڑے ،بڑا اسکول اور جانے کیا کیا ۔پھر بھی چندر نہ جانے کیو ں چٹرجی وکیل کو اپنا باپ نہیں بنا پایا ۔اسکول کے فارم میں اس کی ولدیت بھی چٹر جی وکیل درج تھی ۔وہ جب کبھی موقعہ پڑتا اسے پاپا بھی کہتا سر پر پیا ر اور شفقت کا ہاتھ بھی پھر واتا ،مگر اس کے سینہ سے لگتا تو دل کی دھڑکنوں میں عجب ٹھہرائو اور سکوت سامحسوس کرتا جیسے پن چکی چلتے چلتے ایک دم رک جاتی ہے اور سناٹا چھا جا تا ہے ۔
اس کی ماں کوشلیا کو ضرور احساس ہو چلاتھا کہ چندر جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی چٹر جی وکیل سے دور رہتا ہے ۔اس میں نہ وہ لپک تھی جیسے بچوں میں ہوتی ہے ۔باپ گھر میں داخل ہوا کہ خوشی سے بچے چلاتے ہوئے بھاگ کر لپٹ جاتے
’’پاپا ۔کیا لائے !‘‘ ’’ٹافی کہاں ہے پاپا؟‘‘ ’’میرا ٹیڈی؟‘‘
’’پاپا ۔پاپا۔!‘‘ کی آواز سے گھر کا آنگن کونجنے لگتا جیسے شام کو چڑیوں کا غول امرود کے پیڑ کو اپنی چوں چوں سے ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔چندر ایسا کچھ نہ کرتاتھا اور کوشلیا سوچتی کہ اس نے جو کچھ کیا چندر کے سنہری مستقبل کے خاطر اس کو اور اس کی خوشیوںکو وہ اکیلی تنہا کبھی پروان نہ چڑھا سکتی تھی۔
’’تجھے کیا ہوگیا ہے بیٹے ۔وہ تیرے پتا ہے!ــ‘‘
میں کب نا کہتا ہوں ۔دنیا انہیں میرا پتا کہتی ہے ۔لیکن میں کیا کروں ؟۔مجھے وہ کالے کوئلے جیسا ۔اپنا باپ آج بھی یاد ہے ۔جودن رات گود میں لئے پھرتا تھا ۔!‘‘
وہ بھی سچائی ہے چند ر بیٹے ۔اور یہ بھی سچائی ہے وکیل صاحب نے مجھ سے بیاہ رچا یا ہے ۔!‘‘
کوشلیا آنسو بہاتی کڑھتی اور چندر کو طرح طرح سمجھاتی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتا ۔وہ دس سال کا تھا ۔ملیریا ہوا اور پھر بخار نے اترنے کا نام نہ لیا ۔چار دن ہوش نہ آیا ۔شہر کے نامی گرامی ڈاکٹر اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور آخر میں مایوس ہوکر بمبئی لے جانے کا مشورہ دیا ۔کوشلیا دیوانی سی ہوگئی چٹر جی وکیل کے بھی ہاتھ پائوںٹھندے پڑ گئے ۔اس نے حوصلہ نہ ہارا بریف کیس میں نوٹ بھرے ،چندر کو گود میں اٹھایا اور کوشلیا کو لے کر ہوائی جہاز سے بمبئی پہنچ گیا ۔ایشور کی مرضی تھی ،دس دن کے علاج کے بعد چندر ٹھیک ہوتا گیا ۔کوشلیا بیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے چندر کو یہ بتاتے تھکتی نہ تھی ۔
وکیل صاحب نے تیرے علاج میں روپیہ پیسے کا منہ نہ دیکھا تھا ۔ایک لاکھ روپیہ پھونک دیا اور تجھے بھلا چنگا لیکر بمبئی سے لیکر آئے تھے !‘‘
’’ماں تم سب کچھ ٹھیک کہتی ہو ۔میں ان کی عزت کرتاہوں مگر میرے دل میں باپ کی تصویر نہیں بن پاتی ۔میں کیاکروں ماں ۔!
چندر نے بی۔اے پاس کرلیا تو تو چٹر جی وکیل خوشی سے جھوم پڑا۔اس کی چھاتی فخر سے پھول گئی ۔سارے محلے اور یا ر دوستوں کی شاندار دعوت کی ۔ اس نے ناچتے ہوئے بھری محفل میں چندر کو سینے سے لپٹا لیا اور بھاری آواز میں کہا ۔
’’میں چاہاتا ہوں میرالاڈلا بیٹا وکیل بنے ‘میری طرح اور باپ کا نام اونچا کرے !‘‘
چندر بری طرح کڑ ھ کر رہ گیا ۔دل ہی دل میں بڑ بڑیا ۔’’اونہہ وکیل ؟
جھوٹ بول کر آپ کا نام روشن کروں ؟۔کبھی نہیں ۔!‘‘ چٹر جی وکیل نشے میں مست ہو کر ہر اک سے کہہ رہا تھا ۔ ’’دیکھنا میری طرح گائوں پہن کر الہ آبادی ہائی کورٹ جائے گا۔دیونی معاملات کا نامی گرامی وکیل ہوگا میرا بیٹا۔! ’’ ارے فوجداری میں جانے دو چٹرجی !‘‘
’’ہر گز نہیں ۔بہت مکاری اورعیا ری کر نی ہوتی ہے مسٹر رائے ۔ادھر پولس کی ہیرا پھیری اور گواہوں سے وکیل کی سانٹھ گانٹھ ۔نہیں مجھے پسند نہیں ہے !‘‘
’’ دیوانی میں کیا رکھا ہے ‘‘؟
اجی خان صاحب ۔دیوانی میں مغز پچی نہیں ،کاغذ کا سیدھا سچا کھیل ہے اور پھر انسانیت کی خدمت !‘‘
’’ وہ کیسے چٹرجی صاحب‘‘!
بیوہ کی جائداد جیٹھ نے ہڑپ لی ۔بھائیوں نے بہن کا حق مار لیا ۔میرا بیٹا حق والے کو حق دلائے گا کاغذ بڑا ثبوت اور قانون پتھر کی لکیر ۔!‘‘
دوسری صبح ناشتے کے وقت چندر نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔
’’نہیں پاپا ۔میں وکالت میں نہیں جانا چاہتا ۔!‘‘
’’پھر کیا کروگے !۔‘‘چٹرجی وکیل نے مایو سی سے پوچھا ۔
’’میں ایم ۔بی۔اے ۔کروں گا۔!‘‘
’’اس سے کیا ہوگا بیٹا؟‘‘
’’پاپا ۔آج کل ملٹی نیشنل دھڑا دھڑ آرہی ہے ۔سیلز مین آسانی بن جائوںگا۔‘‘
چٹر جی وکیل کوکوشلیاسے شادی کئے بیس سال ہوگئے تھے ۔اور آج چندر کی بات سن کر بری طرح جل بھن گیا ۔
اسے پہلی بار کرشنا کا سورگیہ پتی رام موہن یاد آگیا ۔کمشنر آفس کا چپراسی ۔درجہ چہارم کا ملازم ۔صبح سے شام تک فائلیں اٹھانے ‘ بابوئوں کی ٹیبل صاف کر نے اور ادھر سے ادھر چائے پان لے جانے والا معمولی چپراسی ۔چٹر جی وکیل کے جسم میں کپکپاہٹ سی آگئی ۔نفرت اور کراہیت کی ۔’’ سالا ۔جیسا تخم ویسا ہی پھل ۔سیلز میں بنے گا نالائق ۔تیل صابون بیچتا پھرے گا ۔!‘‘ وہ کڑھتا رہا اور چندر جیسے اپنے باپ کی زبان کی تلخی کو پہچان گیا ۔وہ مسکرایا تو چٹر جی وکیل بھی پگھل گیا ۔سر کو جھٹکا دے کر رام موہن کو دماغ سے دورپھینک دیا ۔خود کرشنا نے کبھی اپنے شوہر کے نام کو زبان پر نہیں آنے دیا تھا وہ تو لا چار ‘بے سہارا بچے کی خاطر چٹر جی وکیل کی سماج سیوی اور غریب پرور بانہوں میں آ دبکی تھی ۔اسے مرد کی چاہ ہوتی ۔جسم کی انگڑائیوں کا خیال ہوتا تو چٹر جی وکیل سے دو چار بچے اور ہو جاتے ۔چندر کیلئے اس نے عورت پن کو رام موہن کی چتا میں جلا دیا تھا ۔
چندر کو ایم ۔بی۔اے۔کر نے کے بعد زیادہ دن بیکار نہیں رہنا پڑا ۔دو ماہ بعد ہی اسے امریکن فاسٹ فوڈ کمپنی میں نوکری مل گئی ۔مہینے میں پندرہ دن ٹور پر رہتا ۔اس کا ہیڈ کوارٹرلکھنو میں تھا ۔اپنے گھر کانپور سے قریب ۔باقی دن وہ کانپور سے لکھنئو کے لئے روز آتا جاتا ۔پوری تنخواہ ماں کے ہاتھوں میں رکھ دیتا اور بھتوں سے اپنا جیب خرچ چلاتا۔!
چٹر جی وکیل دو دن سے بخار میں پڑا تھا ۔چندر الہ آباد ‘بنارس اور قنوج جانے کے لئے نکلا تو باپ کے پائوں چھوئے ۔ماں نے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی ۔
’’بیٹا جلدی آجانا تمہارے پتاجی بخار میں گھبراتے ہیں ۔‘‘
وہ الہ آباد اور بنارس میں کام کر چکا تو نہ جانے کیوں دل میں ہول سا اٹھا اور بجائے قنوج جانے کے وہ کانپور کے لئے ٹرین میں بیٹھ گیا ۔گھر پہنچا تو دروازے کے باہر اپلہ جلتے ہوئے اس کا ماتھا ٹھنکا ۔آٹو سے اترا اور پیسے دئے تب ایک پڑو سی نے بتایا ۔
’’وکیل صاحب کا رات چار بجے دیہانت ہوگیا !‘‘چندر کو جھر جھر ی سی آگئی ۔چٹر جی وکیل بیس سال تک چوبیس گھنٹوں اس کی نظروں میں ‘اس کے جسم کے قریب اس کی سانسوں کے آس پاس گھومتا رہا ۔ایک ایسے ہمدردباپ کی طرح جو ماں کی مجبوریوں کے رہتے بچپن نوجوانی اور جوانی پرموسم باراں کی بدلیوں کی طرح چھایا رہا لیکن اس کے دماغ پر بوندوں کی بوچھار نہیں کر پایا ۔اندر پہنچا تو ارتھی کو محلے کے مرد عورت گھیرے بیٹھے تھے ۔کوشلیا سفیدساڑی کا گھونگٹ کا ڑھے سسک رہی تھی ۔چندر کو پہلی بارکسی اپنے کا بے جان جسم دیکھنے کو ملا ۔اور اپنی ماں کی بے بسی اور اکیلے پن کا سوچا تو سگے باپ کی موت پر ماں کے درد اور اجاڑ لمحات کی وحشت اس کی سمجھ میں آگئی ۔وہ تڑپ کر اپنی ماں سے لپٹ گیا اوراپنے آنسوئو ں کو روک نہیں پایا ۔
دوسرے دن روہانسی ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔
’’ بیٹا جا پتاکی استھیاںلے آ ۔!کوشلیا نے پیتل کی ایک لٹیا اسے تھمادی ۔
چندر نے ماں سے کچھ نہ کہا ورنہ چٹرجی وکیل کے معاملے وہ پہلے کبھی بنا بحث کیے کوئی بات نہیں کر تاتھا ۔خاموشی سے شمشان چلا گیا ۔اور چٹر جی وکیل کی راکھ سمیٹ لایا۔
’’تجھے بہت چاہتے تھے چندر بیٹا ۔تیرے سوا انکا اور تھا بھی کون ۔شام کی گاڑی سے نکل جا میرے لال اور بنارس میں گنگا میا میں بہادے !‘‘
چٹر جی وکیل کے ارمانو ں بھری راکھ کو پیتل کی لٹیا میں بند کر کے اپنے بریف کیس میں رکھنے سے پہلے کمپنی کا لیٹر پیڈ نکال کر اس نے عرضی لکھی ۔باپ کی موت اور استھیاں گنگا میں بہانے کے لئے تین دن کی چھٹی مانگی ۔لفافے میں بند کر کے ٹکٹ لگایا ‘ماں کے چرن چھوئے اور گلے لگنے کے بعد درخواست کی کاربن کاپی بریف کیس میں رکھی اور لفافہ ہاتھ میں لئے اسٹیشن روانہ ہوگیا ۔ہفتہ بھر کے ٹور اور چٹر جی وکیل کی موت نے اسے بہت بری طرح تھکا دیا تھا ۔ ٹرین چلی تو برتھ پر سونے کے لئے لیـٹ گیا اور بریف کیس داہنی طرف کروٹ کر سینہ کے قریب رکھ لیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ خراٹے لینے لگا۔
صبح ۷ بجے بنا رس پر ٹرین رکی تو ہڑ بڑا کر اٹھا ۔جیب سے کنگھا نکال کر بال سنوار ے تبھی اس کی سانس رک سی گئی ۔بریف کیس غائب تھا ۔اس نے بوکھلا کر سیٹ کے نیچے اوپر کی برتھوں اور پھر پورے کمپارٹمینٹ کو چھان مارا ۔ڈبے سے نیچے اترا تو سانس پھولی ہوئی تھی ۔وہ تھکے قدموں کے ساتھ اس ہوٹل میں پہونچا جہا اکثر رکا کر تاتھا ۔تین دن ہوٹل کے کمرے میں رہا ۔کہیں نہ آیا گیا ۔یہی سوچتا رہا ۔’’ماں کو کیا جواب دوںگا۔‘‘!وہ چٹر جی وکیل کا اتنا پرانا قرض کیسے چکا پائے گی ۔اس نے چتامیں اگنی دے کر اپنا فرض تو پورا کر لیا ۔لیکن ماں ۔ماں ۔وہ کیا کہے گی ۔‘‘
چوتھے دن تھک ہار کر گھر کے لئے اسٹیشن آیا ۔اس نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا تھا ۔پر اب جھوٹ بولنے کا فیصلہ کر لیا ۔اور اس باپ کی استھیاں نہ بہا نے کا کفارہ کیسے ہو یہ بھی روپ ریکھا بنا لی ۔
’’ماں ۔چٹر جی وکیل میرے پتاتھے ۔سچ ماں ۔‘‘ کوشلیا کی بانچھیں کھل گئیں اور اس نے چیڑ کی لکڑی کا ایک ڈبہ اسے تھمادیا ۔
’’بیٹا ۔ڈاکیہ یہ پارسل کل ہی دے گیا تھا ۔‘‘
چندر اپنے کمرہ میں آیا اور جلدی سے ڈبہ کھولا تو حیرت میں ڈوب گیا اس میں چٹر جی وکیل کی راکھ والی لٹیا اور چھوٹا سا پر چہ رکھا تھا ۔
’’شریمان ۔میں بی ۔اے۔پاس بیروزگار ہوں ۔نوکری نہیں ملی تو ٹرین میں ہاتھ کی صفائی شروع کردی ۔آپ کابریف کیس ۲۵ روپئے میں بیچ کر ماں کی دوا خرید لی ۔اس میں آپ کی چھٹی کی عرضی سے آپ کے پتا کے دیہانت کا پتہ چلا ۔دکھ ہوا۔پتا جی کی استھیاں واپس لوٹا رہا ہوں ۔‘‘
چندرخط پڑھ کر پھو لا نہ سمایا ۔وہ ماں کو بتا ئے بنا بنارس کے لئے باہر دوڑپڑا۔

تبصرے بند ہیں۔