سید علی شاہ گیلانیؒ : آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تمہارا مکمل بدلہ تو صرف قیامت کے دن ملے گا‘۔ اس آیت مصداق  وادیٔ کشمیر کے مقبول ترین رہنما سید علی شاہ گیلانی بھی  اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئےاب ان کا بہترین اجر رب ذوالجلال  کے پاس ہے۔ شیخ عبداللہ کو کشمیر کا سب سے بلند قامت  رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن علی شاہ گیلانی کے انتقال پر پوری وادی میں کرفیو جیسی پابندی  اور انٹرنیٹ کی معطلی  ان کے بلند تر مرتبے کا  جیتا جاگتا ثبوت ہے۔انتظامیہ اگرعلی الصبح اہل خانہ کی موجودگی میں    تدفین پر اصرار نہکرتاتو وادی  کے طول و عرض سے مداحوں  کے سیلاب  کو روکنا ناممکن تھا ۔  سید علی شاہ گیلانی ؒ کے انتقال  پر بی جے پی نواز پیپلز کانفرنس کے سجاد لون اور  ان کی کٹر مخالف پی ڈی  پی رہنما محبوبہ مفتی نے تعزیتی پیغام لکھا۔ محبوبہ کے مطابق ’گیلانی صاحب کے انتقال کی خبر سے دکھ ہوا ۔ممکن ہے کہ ہم بیشتر معاملوں میں متفق نہیں رہے ہوں لیکن میں ان کی استقامت اور اپنے اعتقاد پرمستقل مزاجی  کا احترام کرتی ہوں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں  اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کے اہل خانہ اور خیرخواہوں سے میری تعزیت ‘ ۔

 محبوبہ مفتی  نے   اپنے تعزیتی پیغام میں مرحوم علی شاہ گیلانی  کے اس  صبر و ثبات کو سراہا جس نے انہیں کشمیر کا  ہر دلعزیز رہنما بنادیا۔ ان  کی زندگی میں کئی اتار چڑھاو آئے ۔ ایک زمانے تک وہ جماعت اسلامی کشمیر میں  تھے اور اس کے ٹکٹ پر دو مرتبہاسمبلی کے انتخاب میں سوپور سے کامیابی بھی  حاصل کی ۔    تیسری مرتبہ وہ مسلم یونائٹیڈ فورم کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے ۔ اس کے بعد استصواب کی حامی حریت کانفرنس بنائی  ۔ دس سال بعد اس سے الگ  ہوکر تحریک حریت(گیلانی )  قائم کی ۔  پچھلے سال اس  سے بھی کنارہ کش ہوگئے ۔ پاکستان کے حامی  سمجھے جانے والےاس رہنما  نے  جنرل  پرویز مشرف کی مخالفت بھی کی۔ اس  ساری تبدیلیوں کے باوجود کشمیر کے حوالے سے ان کا موقف کبھی نہیں بدلا ۔  ان کو ہمیشہ ایک  غیر مصالحت  پسند  رہنما کے طور  دیکھا گیا اور اسی  لیے  وہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے  رہے ۔  انہوں نے اپنی عملی  زندگی سے یہ پیغام دیا کہ قید بند کی صعوبت کسی  دلیر رہنما کا نقطۂ نظر نہیں  بدل سکتی  ۔ وہ برسوں جیل میں رہے مگر کے پائے استقلال میں ذرہ لغزش نہیں  آئی کیونکہ بقول اقبال ’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘۔ ان کو برسوں تک گھر میں نظر بند رکھا گیا مگر اس کے باوجود ان کی مقبولیت بدستور برقرار رہی۔

سید علی شاہ  گیلانی کو حریت کانفرنس  (گیلانی) کا تاحیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا لیکن جب  اتحاد میں شامل بعض افراد کی یہ رائے بنی  کہ ان کی پیرانہ سالی اور بگڑتی صحت کے پیشِ نظر انہیں ایسی سرگرمیوں سے الگ ہوجانا چاہیے  جن کو  نبھانے میں  مشکل پیش آ سکتی ہےتو انہوں نے ازخود  استعفیٰ دے دیا اور اس  کے ساتھ ایک طویل خط  میں لکھا  کہ :’ پیرانہ سالی، جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض سے نہ میرے دل و دماغ کی قوت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے‘۔انہوں نے حسبِ استطاعتآخری سانس  تک اپنی قوم کی رہنمائی کا جو وعدہ کیا تھا اس کو نبھاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ پچھلے سال دسمبر میں علی شاہ گیلانی ؒ اپنی نواسیرویٰ شاہ  سےیہ حوصلہ بخش پیغام دیا  تھا کہ  ’ظلم کو ثبات نہیں‘۔ اُن کی وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے ۔ ایک مذہبی اور سیاسی کے مالک گیلانی  شعلہ بیان مقرر اور زبردست خطیب تھے ۔ کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ انہوں نے سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات پر سیکڑوں کتابچے اور بڑی تعداد میں مضامین تحریر کیے ۔ ایک معتبر مصنف  کی حیثیت سے انہوں نے  ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں ۔ ان میں دو جلدوں پر مشتمل اُن کی جیل ڈائری ‘رودادِ قفس’ اور سوانح حیات شامل ہے۔انہوں نے علامہ اقبال کی تین فارسی کتابوں کا  ترجمہ بھی کیا۔ ان کے انتقال پر  حکیم الامت کا وہ  دعائیہ شعر یاد آتا ہے جواقبال  نے اپنی والدہ کے لیے کہا تھا ؎

آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

1 تبصرہ
  1. عبدالوہاب کہتے ہیں

    ولر کنارے تین جلدوں میں ۔

تبصرے بند ہیں۔