سیرت محمدی ﷺ آبرومندی اور آزادی کا واحد طریقِ عمل

ابراہیم جمال بٹ
ہر سال کی طرح امسال بھی ماہِ ربیع الاول جلوہ فگن ہوا۔یہ ماہ اسلامی کیلنڈر میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس ماہ عرب کی سرزمین پر آخری پیغمبر ومکمل رہنما حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی۔ اسی مناسبت سے ہر سال ہمارے ہاں حضرت محمدمصطفی ﷺکے نام پر سیرتی جلسے، سیرت کانفرنسیں، سیرتی کوئز مقابلے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف مسجدوں بلکہ سکولوں اور کالجوں میں بھی کئے جاتے ہیں۔ سال بھر میں اگرچہ کئی ایک مخصوص دن کے طور پرمنائے جاتے ہیں، لیکن ان سب میں ماہِ ربیع الاول کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ہماری وادی میں اس ماہ عموماً اور 12؍تاریخ کو خصوصاً دینی مجالس کا اہتمام بڑے زور وشور سے کیا جاتا ہے بلکہ سرکاری طور سے اس دن چھٹی کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ ماہ ربیع الاول کے اس مبارک دن جب پیغمبر آخر الزماں ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی تو ہر طرف بجھے ہوئے چراغ روشن ہو گئے، تاریکی سے بھری زمین پر روشنی ہی روشنی پھیلنے لگی، گویا پوری دنیا کا چراغ جو بجھ گیا تھا، آپﷺ کی ذات سے وہ چراغ ایسا روشن ہوا کہ آج تک اپنی روشنی سے انسانیت کو منور کرتا آرہا ہے اور تاقیام قیامت یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرزمین عرب جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، بات بات پر قبائل کے مابین جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ ایسی جنگ جن پر کبھی کبھی آدھی آدھی صدیاں بھی لگ جاتی تھی۔
وہ قبیلہ بکر اور تغلب کی لڑائی
صدی جس پہ انہوں نے آدھی گنوائی
سید حامد علی مرحوم اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’جس سوسائٹی اور جس قوم کو آپﷺ نے سب سے پہلے یہ تعلیم دی وہ اس لحاظ سے بہت گئی گزری تھی، چھوٹی سی قوم ہونے کے باوجود اس میں سینکڑوں قبیلے تھے۔ پھر ہر قبیلے کے مختلف ٹکڑے تھے اور ہر ٹکڑے میں مختلف خاندان اور کنبے تھے اور ان میں سے ہر ایک نسلی غرور کا بری طرح مارا ہوا تھا، اسی بنا پر وہ آپس میں دست وگریباں رہتے تھے اور کسی طرح بھی ان کو متحد نہ کیا جاسکتا تھا، لیکن نبی کریم ﷺکی سیرت پاک اور تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ چند سال کے اندر ہی وہ بھائی بھائی بن گئے اور جہاں بھی یہ پیغام گیا وہاں اسے دل وجان سے تسلیم کیا گیا۔ وہاں تمام تفرقے ختم ہو گئے اور ایک عالمگیر برادری اور ہمہ گیر اخوت وجود میں آگئی جس کا ہر فرد دوسرے فرد سے اسی طرح وابستہ تھا جس طرح ایک جسم کے اعضا ایک دوسرے سے‘‘۔
اسی سرزمین پر جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پڑے تو پہلا کام جو ہوا وہ آپﷺ کے چچا ابو لہب کے ذریعے سے اس کی ایک لونڈی جس نے آپﷺ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری سنائی تھی، کو ابولہب نے خوشی کے مارے اسی وقت آزاد کر دیا۔ اس طرح آپﷺ کے قدم مبارک پڑتے ہی اس سرزمین کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنی شروع ہو گئیں۔ آپﷺ کی آمد بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرنے کا سبب بنا، اور پھر نبوت عطا ہونے کے بعد آپﷺ کا اہم مشن ہی یہ قرار پایا کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرا کے خدا کی غلامی میں لایا جائے۔ اس بارے میں صاحب تفہیم القرآن سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’فتنہ کی اصل جڑ اور فساد کا اصل سرچشمہ انسان پر انسان کی خدائی (غلامی) ہے۔ خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ، اسی سے خرابی کی ابتدا ہوئی اور اسی سے آج بھی زہریلے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو خیر انسان کی فطرت کے سارے ہی راز جانتا ہے مگر اب تو ہزارہا برس کے تجربے سے خود ہم پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ انسان کسی نہ کسی کو الٰہ اور رب مانے بغیررہ ہی نہیں سکتا، گویا کہ اس کی زندگی محال ہے، اگر کوئی اس کا رب اور الٰہ نہ ہو۔ اگر اللہ کو نہ مانے، تب بھی اسے الٰہ اور رب سے چھٹکارا نہیں ہے۔ بلکہ اس صورت میں بہت سے الٰہ اور رب اس کی گردن پر سوار ہو جائیں گے‘‘۔۔۔’’یہی وہ چیز ہے جو انسان کے سارے مصائب، اس کی ساری تباہیوں، اس کی تمام محرومیوں کی اصل جڑ ہے۔ یہی اس کی ترقی میں اصلی رکاوٹ ہے، یہی وہ روگ ہے جو اس کے اخلاق اور اس کی روحانیت کو، اس کی علمی وفکری قوتوں کو، اس کے تمدن کو اور اس کی معاشرت کو، اس کی سیاست اور اس کی معیشت کو ، قصۂ مختصر اس کی انسانیت کو تب دق کی طرح کھا گیا ہے۔ قدیم زمانہ سے کھارہا ہے اور آج تک کھائے چلا جارہا ہے۔ اس روگ کا علاج بجز اس کے کچھ ہے ہی نہیں کہ انسان سارے ارباب اور معبودوں کا انکار کر کے صرف اللہ کو اپنا الٰہ اوررب العالمین قرار دے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس کی نجات کے لیے نہیں ہے، کیوں کہ ملحد اور دہریہ بن کر بھی وہ الٰہوں اور ارباب سے چھٹکارا نہیں پاسکتا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کی جب ورق گردانی کرتے ہیں تو یہی دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک طرف آپﷺ اپنی دعوت آزاد لوگوں تک پہنچا رہے تھے وہیں دوسری طرف یہ پیغام حیات اس وقت کے غلام طبقہ تک بھی پہنچایا جا رہا تھا، بلکہ صفِ اوّل میں ایک طرف اگر دعوت قبول کرنے والی آپﷺ کی زوجہ مظہرہ حضرت خدیجہؓ تھی، وہیں دوسری طرف غلاموں میں حضرت زیدؓ بھی تھے۔ ایک طرف اگر دوستوں میں حضرت ابو بکر صدیقﷺ اور بچوں میں اپنے چچیرے بھائی حضرت علیؓ تھے تو دوسری طرف غلاموں میں حضرت بلالؓ بھی تھے۔ غرض یہ کہ آپﷺ کی ورودِ مسعود اور آپﷺ کی نبوت کا اہم مقصد ہی یہ تھا کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔
اسلام جس کے داعی پیغمبر حضرت محمدمصطفیﷺ تھے، کے نزدیک آزادی کا تصور ہی ایک نرالا تصور ہے۔ نعیم مولانا صدیقی مرحوم:
’’بحیثیت مسلمان ہمارا (مسلمانوں کا) تصورِ آزادی ساری اقوا م سے نرالا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت تک آزاد نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت واطاعت کے لیے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں غیر الٰہی ضابطہ وقانون سے آزاد نہ ہو جائیں۔۔۔ چاہے وہ ضابطہ قانون سمندر پار سے آیا ہو یا اپنے دیس کے لوگوں کا ایجاد کردہ ہو۔ جب تک ہمارے اوپر غیر اسلامی دستور، غیر اسلامی قانون، غیر اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور غیر اسلامی تہذیب وتمدن مسلط رہے، اس وقت تک ہماری غلامی کی زنجیریں نہیں کٹتیں۔ ہمارے لیے صبحِ آزادی اس وقت طلوع ہوتی ہے جب ہم اپنی پوری زندگی کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہو جائیں اور اس مدعا کو حاصل کرنے میں نہ غیروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ باقی رہے، نہ اپنوں کی طرف سے کوئی مزاحمت‘‘۔
مذکورہ بالا اقتباس کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک آزادی کا تصور کیا ہے۔ آخری پیغمبر حضرت رسول اکرمﷺ اسی آزادی کے علم بردار تھے۔ آپﷺ کا پہلا پیغام جو کوہِ صفا پر آپﷺ نے انسانیت کے سامنے رکھا وہ اسی آزادی کا تصور دلاتا ہے: ’’کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔
مطلب یہ کہ اپنے آپ کو جو تم نے بے شمار من گھڑت معبودوں کی غلامی میں جکڑ لیا ہے اس سے پورے کے پورے نکل کر صرف اللہ واحد کی غلامی اختیار کر لو۔ ادخلوا فی السلم کافۃ۔ ہر طرح کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی وبندگی میں آجاؤ، کیوں کہ اللہ نے تمہیں اس دنیا میں دوسروں کی غلامی کے لیے نہیں، بلکہ صرف اپنی غلامی اختیار کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ اس تصور آزادی کو عام کرنے کے لیے حضرت رسول اکرمﷺکو مبعوث کیا گیا۔ ماہ ربیع الاول کے پورے ماہ آپﷺ کے پیغام کو عام کرنے کے لیے یہ مجالس، یہ تقاریر، یہ سیرت کانفرنسیں اور یہ ذکر واذکار کی جومجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے، کیوں کہ دور حاضر پھر اسی راہ پر چل پڑا ہے جس پر آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے لوگ چل رہے تھے۔ جو ایک غلامی سے نکل کر اَن گنت غلامیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے عر ب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایسی دلدل میں پھنس چکی تھی کہ دور دور بچنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ اسی تاریخ کو دور حاضر میں پھر سے دہرایا جارہا ہے۔ اسلام جو آزادی کا پیغام ہے کو چھوڑ کر ہم مسلمان آج بہت سارے اِزموں میں اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ ایک طرف مغربیت و مشرقیت اور دوسری طرف عربیت ہے، ایک طرف سیکولرازم، گاندھی ازم ہے اور دوسری طرف سوشلزم و غیر اسلامی طرزِ جموریت ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام کے نام پر آج دنیا میں بہت سارے ممالک پائے جاتے ہیں مگر آج تک وہاں اسلام کو حقیقی معنی میں نہیں اپنایا گیا۔ ان ممالک کے لوگ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں،مگر حقیقتاً ان کا آزادی کے معنی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ ہمارے ہاں بھی لوگ آزادی اور ’’یہاں کیا چلے گا‘‘ کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر اکثر لوگ اس معنی سے ہی نابلد ہیں۔ آزادی ایک نعمت ہے اس کا تصور کرنا بھی عبادت ہے ،لیکن جب ہمہ گیر آزادی کے نام پر غلامی میں جانے کی راہیں تلاش کی جارہی ہوں تو اس کا کیا معنی ہے کہ صرف رسمی طورربیع الاول کے ماہ میں یہ سیرتی مجالس منعقد کی جائیں؟ سیرت طیبہﷺ کا پیغام ایک ہے اور ہماری کوششیں دوسری اور ہو رہی ہیں۔اس تناظر میں کسی نے بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ :
’’انسانیت۔۔۔ جو اِس وقت ہلاکت اور تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے کا مداوا صرف اسلامی نظامِ حیات کے اندر ہے لیکن انسان کی عجب حالت ہے کہ وہ دوسری ہر دوا کے پیچھے لپک رہا ہے لیکن اصل دوا کی طرف وہ آنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتا۔ مسلمانوں کو اگر اس پسماندگی کے گڑھے سے کوئی نسخہ نکال سکتا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کا ایک گروہ جو مغرب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر چکا ہے، یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ راکٹ اور مصنوعی سیاروں اور ایٹم وہائیڈروجن کے بغیر کیونکر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے مگر ہم اس گروہ کے علی الرغم اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ اصل طاقت فاطر السمٰوٰت والارض کی طاقت ہے‘‘۔
اسی لیے آج ہم مسلمان ’’ آدھا تیرا آدھا میرا‘‘والا معاملہ شاید اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے متعلق سیرت رسول اکرمﷺمیں صاف واضح ہے کہ جب رسول اکرمﷺکے سامنے کفار مکہ کی طرف سے یہ تجویز رکھی گئی کہ آپ خدا کی غلامی بھی کریں اور کبھی کبھی ہمارے من پسند معبودوں کی بھی مانیں۔ اس پر حضرت رسول اکرمﷺنے فرمایا کہ اگر میرے ایک ہاتھ میں آپ ماہتاب اور دوسرے میں آفتاب رکھیں گے تب بھی میں اپنی دعوت سے نہیں ہٹوں گا۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺکے نام پر سیرتی مجالس وغیرہ کا اہتمام کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ’’ آؤ پیغام آزادی کو تھام کر ساری غلامیوں سے آزاد ہو جاؤ۔ اس ماہ ربیع الاول میں اگر اس حیثیت سے ان مجالس وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے تو یہ ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے بھلائی کا فارمولہ ہے کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب انسان نے طاغوتوں کی غلامیوں سے نکل کر ایک غلامی اختیار کی تو پوری دنیا میں امن وشانتی کا ماحول پیدا ہوا۔ اس لحاظ سے پیغام سیرت کو عام کرنا دور حاضر کے انسان کی ضرورت ہے۔
’’رسول اکرم ﷺکی زندگی کو اگر دو لفظوں میں سمیٹا جائے تو اسے ’’محور انسانیت‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، دنیا آج کی ہو یا ہزاروں سال بعد کی وہ جب بھی حقیقی انسانیت کی تلاش کرے گی تو اسے مجبور ہو کر حضور اکرمﷺہی کی طرف جھکنا پڑے گا اور جتنا جتنا وہ اس پاک ہستی کی طرف جھکتی جائے گی اتنا ہی اس کی زندگی میں سکون، اطمینان، یقین، اعتماد، نکھار اور حسن پیدا ہوتا جائے گا اور اگر اس پاک زندگی کو پھیلایا جائے تو دنیا کتنا ہی کچھ بیان کرتی چلی جائے، موضوعات اور ان کے تنوعات کم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ جس طرح تاریکی میں ہر انسان روشنی کا محتاج ہے، اسی طرح یہ دور اور اس دور کا ہر انسان اس پاک ہستی کا ہر وقت محتاج رہے گا۔ اس دین کا جسے قیامت تک کارفرما رہنا ہے، یہی تقاضا بھی ہونا چاہیے کہ اس کو پیش کرنے والی ہستی کی تعلیمات ہر زمانے میں روشن اور تابندہ رہیں۔ اب یہ ہماری سوچ پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ غلامی یا حقیقی آزادی۔۔۔‘‘؟

تبصرے بند ہیں۔