دستورِ مدینہ کے تحت عدلیہ

ترتیب: عبدالعزیز
(دوسری قسط)
دستور کا مطالعہ
صحتِ متن: دستورِ مدینہ ایک مکمل دستاویز ہے۔ اس کا متن، اسلوب، طرزِ تحریر اور قدیم ادب عربی اور زبان و بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی مصنف کی تصنیف ہے۔ یہ ایک مستند دستاویز ہے۔ ابن اسحاق کے علاوہ اس کا پورا متن معتبر ترین راویوں نے بیان کیا ہے جن میں الزہری اور ابن خثیمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابن زنجویہ اور ابن سید الناس نے بالترتیب ان کا حوالہ دیا ہے۔ اس دستور کی اہم دفعات حدیث کتب صحاح ستہ: بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ میں روایت کی گئی ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کی مسند، سنن دارمی اور عبدالرزاق کی المصنّف میں بھی اس دستور کا حوالہ موجود ہے۔ ابن سعد، الطبری، البلاذری، الخطیب البغدادی، المقدیسی، الزرقانی، المقریزی جیسے نامور مورخین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ عظیم لغت نویس ابن منظور نے اپنی شہرہ آفاق لغت ’’لسان العرب‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
مستشرقین میں ویلہاؤزن نے اس دستاویز کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور اس کے مستند ہونے کے دلائل پیش کئے ہیں۔ منٹگمری واٹ بھی اس کی صحت کو تسلیم کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر، ایک محتاط نقاد نے بغیر وجوہ بیان کئے اس کی صحت کے متعلق استثناء کا اظہار کیا ہے۔ وہ دستور کی دفعہ 26 کو قبول کرنے کیلئے اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرسکے، جس میں یہود کو مومنین کے ساتھ ایک امت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ امت سے مراد ایک سیاسی وحدت ہے، نظریاتی لحاظ سے یہود توحید کے قائل تھے اور ایک خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے، ان کے بالمقابل مدینہ کے مشرکین اور کفار تھے جو توحید کے قائل نہ تھے۔ دستورِ مدینہ کے مطالعہ اور اس کی داخلی اور خارجی شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’دستور‘‘ ایک مستند دستاویز ہے۔ اس میں کوئی بات اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں۔ دنیا کے قدیم ترین تین براعظموں کی غیر مسلم آبادی جو مسلمانوں کی فرمانروائی میں آئی اس کے ساتھ مسلمان حکمرانوں نے وہی سلوک روا رکھا جو دستورِ مدینہ میں غیر مسلموں کے متعلق بیان ہوا ہے۔
زمانۂ تحریر: قدیم ترین اسلامی ماخذ بیان کرتے ہیں کہ دستورِ مدینہ ہجرت کے پہلے ہی سال کی ابتدا میں مرتب کیا گیا۔ صحیح بخاری میں روایت کردہ حضرت انسؓ کے ایک بیان کے مطابق یہ دستاویز ان کے والدین کے گھر پر لکھی گئی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ میں مسجد نبویؐ کی تعمیر سے پہلے مرتب ہوئی تھی۔ کئی مستشرقین نے دستور کا ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ ویلہاؤزن اور کیتانی بہت سی شہادتیں اور دلائل پیش کرنے کے بعد اس دستاویز کو غزوۂ بدر سے پہلے کی تسلیم کرتے ہیں۔ کیتانی نے مشہور مستشرق گِرم کے دلائل کا بھی جواب دیا ہے جس کے نزدیک یہ دستاویز غزوۂ بدر کے بعد لکھی گئی ۔
دستورِ مدینہ دو بڑے حصے پر مشتمل ہے: پہلا 1 تا 24 دفعات پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ 25 تا 50 دفعات پر محیط ہے۔
دستور کے دوسرے حصہ سے بعض علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ غزوۂ بدر کے بعد پہلے حصے میں شامل کیا گیا تھا۔ منٹگمری واٹ اس حد تک چلا گیا ہے کہ یہ دستور غزوۂ خندق اور بنو قریظہ کے اخراج کے بعد مرتب ہوا۔ یہ نظریہ سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے کیونکہ اس غزوہ کے بعد بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہود مدینہ چھوڑ چکے تھے اور یہودیوں کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا تھا۔ ایسی صورت میں یہود سے متعلق دستور میں دفعات کی کیا ضرورت تھی۔ منٹگمری واٹ نے اپنے نظریے کی بنیاد و دستور کی لسانی نوعیت اور دفعات کے اعادے پر رکھی۔ ہم نے ان دلائل کا بغور جائزہ لینے کے بعد انھیں بے بنیاد پایا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے نزدیک بدر کی شاندار فتح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب و جوار کے قبائل بنو ضمرہ اور مجہینہ سے اتحاد، یہودی قبائل کی رقابت ایسی وجوہ تھیں جنھوں نے یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاون حاصل کرنے پر مجبور کیا؛ حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، یہود نے غزوۂ بدر کے بعد تو نقضِ عہد کرنا شروع کر دیا تھا جس کی پاداش میں وہ جلا وطن ہوئے۔
مندرجہ بالا مصنّفین نے اپنے نظریات کی تائید کسی مستند تاریخی شہادت سے نہیں کی۔ اس کے برخلاف متذکرہ دور کے حالات یقیناًتصدیق کرتے ہیں کہ بدر سے پہلے کا زمانہ ہی یہود کیلئے بدر کے بعد کے زمانے سے زیادہ موزوں تھا کہ وہ اس دستور کی ترتیب میں حصہ لیں اور اس کے متن کی پابندی کریں۔ قرآن مجید میں اس بات کا واضح طور پر ذکر موجود ہے کہ یہود کو توقع تھی کہ جب وہ پیغمبر آئے گا جس کا ذکر DEUT 18:18 میں ہے تو وہ ان کے کافر مخالفین پر انھیں فتح مند کرے گا:
’’اور جب ان کے پاس اللہ کے پاس سے ایک کتاب آئی اس کی تصدیق کرتی ہوئی جو ان کے پاس موجود ہے اور اس سے پیشتر وہ دعا کرتے تھے کافروں پر فتح کیلئے‘‘۔ (القرآن)
ان توقعات کے تحت یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں آمد پر آپؐ کو اپنی مدد اور تعاون پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ اور اس کے گرد و نواح کے ملحد اور لادین لوگوں کی نسبت ایک خدا پر یقین رکھنے والے یہودیوں سے زیادہ قریب تھے۔ مدینہ آمد پر آپؐ نے کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قبلہ بنایا۔ اسی طرح 10 محرم الحرام کے روزہ کو بھی اپنایا گیا۔ جب کسی یہودی کا جنازہ پاس سے گزرتا تو آپ احتراماً کھڑے ہوجاتے۔ آپؐ اس بات کو بھی ناپسند فرماتے کہ آپؐ کے اصحابؓ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیں۔ امام بخاریؒ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان امور میں جہاں خدا نے حکم صادر نہ فرمایا ہوتا اہل کتاب کے طریق کو اپنا کر خوش ہوتے تھے۔
ہجرت کے پہلے سال میں مسلم، یہود خوشگوار تعلقات کی مزید تصدیق قریش کے اس سخت رویہ سے ہوتی ہے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنایا تھا۔ مدینہ کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے قریش نے محسوس کیا کہ ان کیلئے یہود کے بجائے عبداللہ بن اُبی کو اپنے ساتھ ملانے کے زیادہ مواقع ہیں۔ قریش نے عبداللہ بن ابی کی مدد طلب کرتے ہوئے اسے ایک خط لکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا انھیں مدینہ سے نکال دینے کیلئے کہا۔ بدر سے قبل کے ان خوشگوار تعلقات کے باعث یہود نے مدینہ میں ایک وفاقی ریاست کے قیام اور متفقہ دستور بنانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعاون کیا۔ اس وقت وہ آپؐ سے اتنی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے کہ انھوں نے اس دستور کی تدوین و ترتیب میں نہ صرف آپؐ کی رسالت پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ دستور کی دفعات 1، 24، 44اور 50 میں واضح طور پر اس کا اندراج ہوا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بدر مسلم یہودی تعلقات میں ایک اہم موڑ ہے۔ اس جنگ سے ایک ماہ قبل شعبان المعظم 2ہجری میں اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل کردیا:
’’فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام‘‘ (پس اپنا منہ مسجد حرام کی طرف موڑلو)۔
اس بات سے یہود ناراض ہوگئے۔ دستور نے یہود کو مذہبی آزادی کی ضمانت دے رکھی تھی، تاہم ان قابل اعتراض سماجی حرکات اور تکلیف دہ رویہ پر قرآن مجید میں تنقید کی گئی اور ان کے خطرناک عزائم بے نقاب کئے گئے۔ یہ بات ان کی توقعات کے خلاف تھی۔ وہ امید کرتے تھے کہ نیا رسول ان کے رویہ اور عادات و خصائل کو جائز قرار دے گا اور دوسروں کو ان کی پیروی کی تلقین کرے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ اس سے یہود بر افروختہ ہوگئے۔ غزوۂ بدر کی عظیم الشان فتح نے ان کی مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا۔
قریش نے غزوۂ بدر کے بعد بدلے ہوئے حالات کا جائزہ لیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ان حالات میں عبداللہ بن ابی کے مقابلے میں یہود ان کیلئے زیادہ مفید ہیں جو ان کے مفادات میں بہتر طور پر کام آسکتے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے ایک خط یہودیوں کو لکھا جس میں یہود کے اسلحہ اور قلعوں کی تعریف کی تھی اور یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب بھڑکایا گیا تھا۔
یہود کا قبیلہ بنو قینقاع سب سے مضبوط اور بہادر تھا۔ وہ سب سے پہلے یہود تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغاوت کی۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق ’’انھوں نے دستور کو مسترد کردیا‘‘ اور ’’وہ سب سے پہلے تھے جنھوں نے غداری کی‘‘۔ ابن ہشام اور الطبری نے بھی اسی نوعیت کی بات ابن اسحاق کے حوالہ سے روایت کی ہے:
’’بنو قینقاع پہلے یہود تھے جنھوں نے اپنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مابین معاہدے کو توڑا اور بدر و احد کی درمیانی مدت میں جنگ کی‘‘۔
مندرجہ بالا شہادت بالکل واضح کر دیتی ہے کہ دستور کا دوسرا حصہ بھی جو یہودیوں سے متعلق ہے پہلے سال ہجری میں غزوۂ بدر سے قبل لکھا گیا تھا۔ غزوۂ بدر کے بعد تو بجائے دستور کی ترتیب و تدوین میں تعاون کرنے کے یہودیوں نے اس کی خلاف ورزی اور جو کچھ پہلے طے ہوچکا تھا اس کے خلاف غداری شروع کر دی۔
غزوۂ احد کے بعد یہودیوں کے دوسرے قبیلہ بنو نضیر نے غداری کی۔ غزوۂ احد کے بعد یہودیوں کے تیسرے قبیلہ بنو قریظہ نے دستور کی پابندی کی تجدید کی اور غزوۂ خندق کے دوران دونوں معاہدوں سے غداری کی۔ ا س سے ثابت ہوتا ہے کہ دستور کے دونوں حصے غزوۂ بدر سے پہلے لکھے گئے تھے۔
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔