سیرت نبویؐ ۔ اپنوں کی جہالت اغیارکی عداوت

عبدالبراثری فلاحی

سیرتِ نبویؐ کے سلسلے میں اپنے گوناگوں جہالتوں میں گرفتار ہیں، میں ان سب کا استقصاء کرنے کی کوشش کروں گا، قطع نظر اس سے کہ اس آپریشن کے بعد ان کی کیا پوزیشن بنتی ہے۔
منکرین حدیث
ان کا کہنا ہے کہ رسولؐ کاکام بس قرآن پہنچادیناتھا اور اب ہمارا کام صرف قرآنی احکام کی تعمیل کرنا ہے ۔ اس سے باہر اور اس کے علاوہ کوئی چیز دین میں حجت نہیں ہے حتی کہ رسولؐ کا قول و فعل بھی دینی حجت اور واجب الاتباع نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں آیا ہے ’’مافرّطنا فی الکتاب من شیء‘‘(الانعام:38) ، ’’ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء‘‘(النحل:89) ’’ھو الذی أنزل الیکم الکتاب مفصلا‘‘ (الانعام:114)’’الیوم أکملت لکم دینک وأتممت علیکم نعمتی ‘‘(المائدہ:3)
یعنی یہ کہ قرآن میں تمام چیزیں مکمل تفصیل کے ساتھ واضح کردی گئیں تو احادیث کی کیا ضرورت ؟ ورنہ اگر توضیح و تبیین قرآن کی ضرورت ہے تو گویا یہ دعویٰ اس بات پر دال ہے کہ پہنچانے والے نے (نعوذباللہ) کمی یا زیادتی کی ہے جو قرآن اور منزل قرآن کی تکذیب کے مترادف ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ احادیث یا تو متواتر ہیں یا آحاد ہیں، متواتر قطعی لیکن تھوڑے ہیں اور آحاد ظنی لیکن زیادہ ہیں اور قطعی و ظنی کا مجموعہ ظنی ہی سمجھا اور شمار کیاجاتاہے اور ظن سے حق کی معرفت نہیں ہوتی۔ ’’وان الظن لایغنی من الحق شیئا‘‘(النجم:28)جبکہ دین کو قطعی اور حق ہونا چاہیے اور قطعی صرف قرآن ہے اور اس لیے بھی کہ زیادہ صحیح کی طرف قرآن ہی رہنمائی کرتا ہے۔ ’’ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی أقوم‘‘(الاسراء:9) لہٰذا قرآن کی پیروی کرنی چاہئے، حدیث کی نہیں۔
ان کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اگرحدیث مصدر شریعت ہوتی تو جس طرح اولین مصدر شریعت قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے’’انا لہ لحافظون‘‘ (الحجر:9) کے ذریعہ لیا اسی طرح اس کا بھی لیتا جبکہ اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ آپﷺ نے قرآن کے حفظ و کتابت کا حکم دیا لیکن احادیث کے سلسلے میں فرمایا’’لاتکتبوا عنی غیر القرآن ومن کتب غیر القرآن فلیمحہ‘‘(مسلم)مزید یہ کہ ابوبکرؓ نے مجموعہ احادیث جلوائے، عمرؓ نے بھی جلوائے اور لوگوں کو اس سلسلے میں قید کیا جبکہ اگرجزء شریعت ہوتا تو ایسا نہ کرتے۔ نیز کہتے ہیں کہ صدراول میں مدون نہیں ہوا لہٰذا مشتبہ ہے اور یہ کہ شدید اختلافات پائے جاتے ہیں تو آخرکیسے یہ شریعت بن سکتی ہے؟ اور یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے مروی احادیث کو چھوڑکر عقلی رائے پر اعتماد کیا ہے۔
قادیانیت
آپﷺ خاتم النبیین تھے لیکن شروع ہی سے ختم نبوت پر حملے ہورہے ہیں، پہلے مسیلمہ اور اسود العنسی نے جھوٹا دعوائے نبوت کیا اور فی زمانہ غلام احمد قادیانی اوران کے گروہ نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی تاویل کرکے نبوت کا دروازہ کھول رکھا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ’’ خاتم النبیین ‘‘کے معنیٰ ہیں ’’نبیوں کی مہر‘‘ مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپؐ کی مہرلگنے سے نبی بنیں گے۔ بعض کہتے ہیں خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے یعنی نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے البتہ کمالات نبوت حضورؐ پر ختم ہوگئے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مسیح موعود کے آنے کی خبر دی گئی ہے اور مسیح نبی تھے اس لیے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی نہیں واقع ہوتی بلکہ ختم نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق اور اب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ غلام احمدقادیانی کے الفاظ میں سنئے:
’’اس نزول سے مراد درحقیقت مسیح ابن مریم کا نزول نہیں ہے بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام الٰہی یہی عاجز ہے۔‘‘(قادیانیت،ص66)
اہل تصوف
ان کے یہاں محبت الٰہی اور عشق خدا وندی کا ایسا ڈھانچہ ہے کہ عقیدہ نبوت ہی کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے ۔ مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب ان کی بنیادی فکر کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’خدا تک پہنچنے کے لیے جو کہ طاعت و بندگی کا اصل مقصود ہے کسی نبی کا نہ تو توسط ضروری ہے نہ اس کی اقتدا رضروری ہے، اس کے بغیربھی آدمی اس منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ بہت سے صوفیہ کے نزدیک خدا رسی کا یہ براہِ راست طریقہ انبیائی طریقے کے مقابلے میں افضل بھی ہے۔‘‘(معرکۂ اسلام و جاہلیت،ص126)
کچھ اسی طرح کی بات مولانا اسماعیل شہیدؒ لکھتے ہیں:
’’اس محبت(حب عشقی) کا ہی فطری تقاضہ یہ بھی ہے کہ انسان ظاہری علوم اور طاعات (یعنی احکام شریعت کے علم اور عبادتی افعال و آداب) سے بے نیاز ہے۔‘‘(صراط مستقیم، ص11)
شیعہ
اول تو انھوں نے احادیث میں تحریف کردی جیسے ’’کتاب اللہ و سنتی ‘‘کو ’’کتاب اللہ وعترتی ‘‘کردیا اور اسی کی بنیاد پر وہ صرف اہل بیت جوتین سے گیارہ تک کے بیچ تھے انہی کی روایت قبول کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ نبوت و رسالت کی طرح انھوں نے امامت کا سلسلہ جاری کررکھا ہے اور وہ امام مرتبہ اور درجہ میں رسول اللہؐ کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے افضل و بالا تر ہوتا ہے اور انبیاء ہی کی طرح اللہ کی حجت، معصوم اور مفترض الطاعۃ ہوتاہے۔ 
یہ تو امت کے وہ افراد ہیں جنھوں نے یا تو آپ کے مقام و مرتبہ اور مطاع و متبوع ، امام و ہادی ہونے کی حیثیت کو ختم کردیا ہے یا اتنا گرادیا ہے کہ آپ کی ہر حیثیت بے معنیٰ ہوگئی ہے اور دوسروں نے آپ ؐکواتنا بڑھادیا کہ کہنے لگے ؂
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفےٰ ہوکر
بدعتی
وہ کہتے ہیں آپ ؐ بشر نہیں تھے دلیل’’قل انّما أنا بشر مثلکم یوحی الی‘‘ (الکہف:110) ، اس آیت میں ’’ما کافہ ‘‘ہے لیکن وہ ’’مانافیہ ‘‘بناکر ترجمہ کرتے ہیں’’میں تم جیسا بشر نہیں ہوں‘‘ اور بعض نے ’’ماکافہ ‘‘مان کر بھی معنی بدل دیا ’’میں بظاہرتم جیسا بشر ہوں‘‘ مزید کہتے ہیں آپؐ کا سایہ نہیں تھا ا ور آپؐ کے قضائے حاجت کی گندگی نہیں ہوتی تھی ۔ اس سلسلے میں ذرا ان کی عقلی دلیل ملاحظہ ہو۔
’’رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں بشر کی صورت میں اترے تھے، یہ ایسی ہی بات ہے جیساکہ حضرت جبرئیل ؑ اگرچہ کہ فرشتہ تھے لیکن اس دنیا میں انسانی صورت میں بھی آیاکرتے تھے اور جس طرح انسانی صورت میں آئے ہوئے حضرت جبریل کو انسان کہنا غلط ہے اسی طرح حضورؐ کی ظاہری شکل پر آپؐ کو بشر قرار دینا خلاف حقیقت ہے۔‘‘(ارشدالقادری کی شریعت کا جائزہ ،ص56)
آپؐ کو نور مانتے ہیں، دلیل’’قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین‘‘ (المائدہ:15) اس میں نور سے مراد آپؐ ہیں، روایت میں بھی آتاہے’’یاجابر اول ما خلق اللہ نور نبیک من نورہ‘‘ آپؐ کو عالم الغیب مانتے ہیں دلیل’’فلایظھر علی غیبہ أحدا الا من ارتضی من رسول‘‘ (26۔27) احادیث میں ہے ’’سلونی عما شئتم‘‘(بخاری)نجاشی کی وفات کی خبرپر(بخاری) ابتداء سے قیامت تک کے حالات ایک بار مسلسل بتاتے رہے (بخاری) یہ سب دلیل ہیں کہ آپؐ عالم الغیب تھے تبھی توسب کچھ بتادیتے تھے ۔ آپؐ کو حاضر و ناظر مانتے ہیں۔ غایۃ المرام میں ہے’’حضورؐ ہرمحفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں، تعظیم کے واسطے کھڑا ہونا فرض ہے، قیام نہ کرنے والا کافر ہے۔‘‘ (ارشدالقادری کی شریعت کا جائزہ ، ص133) آپؐ کو سمیع الدعا مانتے ہیں دلیل ’’ومانقموا الا ان أغناھم اللہ ورسولہ من فضلہ‘‘(التوبہ:74) یعنی جس طرح اللہ بے نیاز کرتا ہے اسی طرح اس کا رسول بھی بے نیاز کرتا ہے ۔ مزید آپؐ کو مطیع بلاشرط مانتے ہیں دلیل’’فرمایا رسول اللہؐ نے جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا میں قیامت کے دن اس کا شفیع و شہید ہوں گا‘‘، غرضیکہ سب کچھ بنادیا اور مزید یہ کہ اس پر اصرا ربھی ہے ۔ چنانچہ کسی نے کہا ہے ؂
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں ہے نہیں میرا تیرا
اب ذرا عمومی قسم کی جہالتیں بھی ملاحظہ ہوں:
جہالتیں
(1)عام عدم واقفیت اور عام بے عملی و بے راہ روی ، ایسے میں بھلا ’’اطیعوا الرسول ‘‘کا کیا اور کیسے حق ادا ہوگا؟(2)سیرت نبوی علمی انداز میں تو محفوظ ہو گئی ہے البتہ اس انداز میں نہیں آئی ہے کہ وہ حرکت پر آمادہ کرے اور انقلاب انگیز ہوجبکہ آپؐ امم انقلاب کے بانی تھے۔(3) اغیار یعنی مستشرقین کے اعتراضات اور مفتریات کے جواب میں غفلت برتی گئی ہے۔(4)سیرت رسولؐ سے ہماری دلچسپی مجرد حصول ثواب کی خاطر رہ گئی ہے۔(5) اللہ کے پیغام کو نظام حیات کی حیثیت سے ہم قبول نہیں کر تے بلکہ چند اعتقادات و رسوم و عبادات کی حیثیت سے۔(6) ہم نے اپنے آپ کو مذہبی و قومی جتھے میں بدل کر محمدؐ کو محض اپنے ملی و قومی رہنما کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان کے بین الاقوامی پیغام اور نمونہ حیات کو گروہی اجارہ بنا لیا ہے۔
اغیار کی عداوت
مذہبی و سیاسی تعصب، کم علمی اور روایت و درایت کے عدم اہتمام کی وجہ سے اغیار نے سیرت نبوی پر لامحدود اعتراضات، الزامات اور مفتریات کیے ہیں جن کا احاطہ مع ان کے دلائل تو مشکل ہے ، البتہ اہم مسائل کے ذکر کے ساتھ کچھ دلائل کا اشارۃً ذکرکروں گا اور بقیہ یوں ہی پیش کردوں گا۔ کچھ تو ان کے مشترکہ اعتراضات ہیں (1)آنحضرت ﷺ کی زندگی مکہ معظمہ تک تو پیغمبرانہ تھی لیکن مدینہ جاکر جب زوروقوت حاصل ہوا تو دفعتاً پیغمبری بادشاہی میں بدل گئی اور اس کے جو لوازم ہیںیعنی لشکر کشی ، قتل، انتقام، خوں ریزی وغیرہ کا مظاہرہ ہوا ۔ جیسے قافلہ ابوسفیان کو لوٹنے کے لیے سریہ کو بھیجا، جنگ خیبرمیں خزانہ کا پتہ نہ بتانے کی وجہ سے کنانہ بن الربیع کو قتل کرادیا جب کہ بچے اسے امن دے چکے تھے۔ (2)کثرت ازدواج اور میل الی النساء ۔ان کے بقول آپؐ کی پندرہ بیویاں تھیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر صفیہؓ بنت حیّ کو پہلے دحیہ کلبیؓ کے حوالے کردیا اور کسی نے ان کے حسن کی تعریف کی تو ان سے مانگ لیا اور اس کے معاوضہ میں ان کو سات لونڈیاں دیں۔ زینبؓ سے شادی کی جو منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی اور آپ کے لیے مثل بہو تھیں۔ (3)مذہب کی اشاعت جبروزور سے۔(4)لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت اور اس پرڈھیل(5)دنیاداروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئی۔
آپﷺ بت پرست تھے۔ قرآن میں اشارہ ہے’’ووجدک ضالا‘‘(الضحیٰ:7) بیٹے کا نام عبدالعزیٰ رکھاتھا، قریش کے بتوں کو سجدہ کیا اور کہا ’’تلک الغرانیق العلی ان شفاعتھنّ لترتجیٰ‘‘(طبری) مسٹرمارگولس نے لکھا ہے کہ ’’آنحضرت ؐ اور خدیجہؓ دونوں سونے سے بنے ایک بت کی پرستش کرلیاکرتے تھے جس کا نام عزیٰ تھا۔‘‘(مسندحنبل ج4،ص222) یہ کہا ہے کہ آپؐ نے عزیٰ کے نام پر ایک خاکی رنگ کی بھیڑ ذبح کی تھی۔ ان کے مطابق آپؐ کا نام Mahound یعنی شہزادۂ تاریکی تھا۔ مارگولیتھ نے آپؐ کے نام و حسب کو لا ینحل معمہ قرار دیا ہے۔ تیموتاس کے مطابق آپ ولد الزنا تھے تبھی تو محمدبن آمنہ کہاجاتاہے۔ مارگولیتھ کے نزدیک نیچ ذات Lowbirth تھے۔ دلیل قریش کو تعجب کہ شریف خاندان سے نبی نہ ہوا ۔’’وقالوا لولانزّل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم‘‘(الزخرف:31) لفظ مولی کے ذریعہ خطاب سے انکار کیا۔ فتح مکہ کے دن فرمایا ’’آج شرفائے کفار کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ جین برڈر کے نزدیک حیوان تھے، مخالف عیسائیت تھے ، دلیل ان کے خلاف مدینہ میں یہودیوں سے معاہدہ کیا۔ نبوت نتیجہ تھی ان کی طویل خیالی یا خواب کا۔ میور کے مطابق الہامی مشن کے بارے میں وہ مشکوک و متذبذب تھے۔ واٹ کے نزدیک آپؐ کی نبوت کا سلسلہ برقرار نہیں رہا۔ دلیل یہ کہ مدنی زندگی کے ابتدائی زمانہ میں کچھ عرصہ یہود مدینہ سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ ان کو نبی و رسول تسلیم کریں۔ اینال وغیرہ نے آپؐ کو مکار، دغاباز، غدار اور کاذب کہاہے۔ تیموتاس نے نبیذپینے کی وجہ سے شرابی کہاہے۔ ہیوم نے آپ کے خرق عادت کا انکار کیا ، اس کی دلیل اس کے نزدیک بلااسباب و علل کے کسی چیز کا وجود ناممکن ہے۔ ولیم میور، ڈریپر اور مارگولیوس کے نزدیک آپ نے مذہب کے حقائق و اسرار یہودی وعیسائی سے لیا ، دلیل بحیرہ راہب وغیرہ سے علم حاصل کیا اور اخذ کیا۔ منشور مدینہ میں آپؐ کا مقام و مرتبہ غیر معین تھا۔ آپؐ نے قرآن کا طرز خطاب خطبات قس بن ساعدہ سے لیاتھا۔ ہجرت فرار کی راہ تھی۔ سیلون کینانی کے نزدیک محض معاشی بدحالی کی بنا پر ہجرت پر مجبور ہوئے،ہجرت حبشہ کا سبب نجاشی کو مکہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دلانا تھا۔ پرخور، خوب سونے والے تھے۔ جے سی آرچر کے نزدیک آپؐ محض ایک صوفی اور مجذوب تھے۔ ڈوزی کا بیان ہے کہ آپ کا مزاج سوداوی تھا۔ موقع پرست و مفادپرست تھے۔ وحی بطور خواب دیکھاکرتے تھے۔ نزول وحی کے وقت مرگی کا دورہ پڑتا تھا، اعصابی مریض تھے، شیطان کے آلہ کار اور جاسوس تھے۔ کارلائل نے آپ کو جنگلی، بادیہ نشین، غیرمہذب، حیوانی اور وحشیانہ آغوش فطرت کا پروردہ قراردیا۔ ایک نیا اور جھوٹا مذہب جاری کیا۔ بہت رواداری دکھائی ہے تو صرف ایک معاشرتی و سماجی مصلح کے طور پر تسلیم کیاہے۔ تیموتاس اور بارود کے نزدیک زینب بنت الحرث نامی یہودیہ کے زہر کھلانے کی وجہ سے آپ ؐکی وفات ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ۔
جواب برائے نمونہ
حق تو یہ تھا کہ ان تمام کا بالاستیعاب جواب دیاجاتا ، لیکن افسوس کہ صفحات کی تنگ دامانی تفصیل میں جانے سے روک رہی ہے۔ لہٰذا صرف موضوع کے دونوں پہلوؤں کی ایک ایک جہالت و عداوت کی مثال لے کر بطور نمونہ جواب پیش کرتا ہوں تاکہ بقیہ کے سلسلے میں آپ خودسوچ لیں۔
جواب مسئلۂ ختم نبوت
(1) سورہ احزاب کی دسویں آیت میں مذکور لفظ ’’خاتم النبیین ‘‘سے مراد تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق ’’آخر النبیین ‘‘لیا ہے۔
(2) حدیث شریف ہے ’’قال النبیﷺ کانت بنوااسرائیل تسوسھم الأنبیاء کلما ھلک خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء‘‘(بخاری)
(3) صحابۂ کرامؓ کے اجماع کی دلیل یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو تمام صحابہ کرامؓ نے اس سے جنگ کی۔
(4)علمائے امت کا بھی آپؐ کے خاتم النبیین ہونے پر اتفاق ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ہر ۔علماء کے بیانات اپنی کتاب ’’ختم نبوت‘‘ میں پیش کیے ہیں۔ میں صرف امام اعظمؒ کا قول پیش کرتا ہوں ، ایک شخص نے آپ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کرکے علامت نبوت پیش کرنے کا موقع مانگا، اس پر آپ نے فرمایا’’جوشخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماچکے ہیں’’لانبی بعدی‘‘(مناقب الامام الاعظم ج1ص۔۔۔)
(5) اور نبی جدید تو اس وقت آتا ہے جب کہ سابق نبی کسی خاص علاقہ کے لیے آیا ہو یا اس کی تعلیم محفوظ نہ رہی ہو یا تعلیم مکمل نہ ہوئی ہو یا کسی مددگار کی ضرورت ہو لیکن اب اس میں سے کسی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
(6) نئی نبوت امت کے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت ہے کیونکہ سوال پیدا ہوگا کہ کس کی پیروی کی جائے۔
(7) مسیح موعود کے سلسلے میں 21روایتیں ہیں لیکن کسی میں مثیل مسیح کا ذکر نہیں بلکہ اصل عیسیٰ بن مریم آئیں گے لیکن بحیثیت نبی نہیں اور ان کے نہ ماننے پر کفرو ایمان کا سوال نہ پیدا ہوگا بلکہ فتنۂ دجال کے استیصال کے لیے بھیجے جائیں گے پھر کیسے کوئی آپؐ کے بعد نبی ہوسکتاہے۔
جواب آپﷺ نے راہب سے دین کے اسرار و رموز سیکھے
یہ روایت ناقابل اعتبار ہے ۔ اس روایت کے جس قدر طریقے ہیں سب مرسل ہیںیعنی راوی اول واقعہ کے وقت خود موجود نہیں تھا۔اوراس راوی کا نام نہیں بیان کرتا جو شریک واقعہ تھا۔ اس حدیث کے اخیرراوی ابوموسیٰ اشعری شریک واقعہ نہیں تھے کیونکہ وہ تو 7ھ ؁ میں مسلمان ہوکر یمن سے مدینہ آئے تھے۔ سب سے احسن طریقہ ترمذی کا ہے لیکن تین قابل لحاظ پہلو ہیں (1) ترمذی نے لکھا ہے ’’حسن اور غریب اور ہم اس حدیث کو اس طریقے کے سوا کسی اور طریقے سے نہیں جانتے۔‘‘(2)راوئ حدیث عبدالرحمن بن غزواں بعض کے نزدیک گرچہ ثقہ ہیں لیکن اکثراہل فن بے اعتباری ظاہر کرتے ہیں۔ علامہ ذھبی ’’میزان الاعتدال‘‘ میں لکھتے ہیں’’عبدالرحمن منکر حدیثیں بیان کرتا ہے جس میں سب سے بڑھ کروہ روایت ہے جس میں بحیرا کا واقعہ مذکور ہے۔‘‘ (3)اس روایت میں مذکور ہے کہ بلال حبشیؓ اس سفر میں ساتھ تھے حالانکہ اس وقت بلالؓ کا وجود بھی نہیں تھا اور ابوبکرؓ بچے تھے، اس روایت کو صحیح مان بھی لیاجائے تو بحیرا کے تعلیم دینے کا ذکر کہیں نہیں۔ مزید یہ کہ صرف ایک ملاقات رہی بھلا اتنی دیرمیں کیسے عالم گیر مذہب کے اسرار و رموز ایک 12سالہ بچہ سیکھ سکتا ہے جب کہ اس نے اب تک کچھ نہ پڑھا ہو، اور کیونکر کوئی اسے بلاکم و بیش تیس سال تک محفوظ رکھ کر وقفہ وقفہ سے بلاد تضاد کے من و عن بتاسکتاہے اور اگر اسے خرق عادت یا معجزہ مان لیا تو بھلا پھر بحیرا سے فیض کی کیاضرورت تھی اور اگر آپؐ کی تعلیمات عیسائیت سے ماخوذ ہیں تو کیوں نہیں وہ اپنی تعلیمات کی بنیاد پرویساہی انقلاب برپا کرلیتے جیساکہ آپؐ نے کیا اور ہمہ گیر نظام حیات عالم انسانیت کو عطاکرتے؟ ویسے اسی قسم کا اعتراض کفارمکہ نے گمان کی بنیاد پر اٹھا یاتھا۔ اس کاجواب سورہ فرقان آیت 4۔6 میں موجود ہے۔
جس طرح انسان کے مادی وجود کے لیے ہوا، پانی اور غذا ضروری ہے ، اسی طرح انسان کے روحانی زندگی کی بقا کے لیے تعلیم و تزکیہ اور اوصاف حمیدہ سے مزین ہونا ضروری ہے اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ نے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا جس کی آخری کڑی آپﷺ اور اب آپؐ کے بعد آپؐ کی سیرت ہی سے وہ کام پورا ہوگا تو جس طرح ہوا، پانی اور غذا وغیرہ کے عدم استعمال یا غلط استعمال سے مادی وجود کی بقا ناممکن ہے اسی طرح آپؐ کی لائی ہوئی ہدایت اور اسوہ کے عدم استعمال یا غلط استعمال یا کمی و بیشی سے انسان کا روحانی وجود خطرے میں پڑ جاتاہے۔ لہٰذا ہر ایک پر لازم ہے کہ سیرت رسولؐ کو مکمل اور صحیح طور پر سمجھے اور ان کا صحیح استعمال کرے ورنہ تباہی ہی تباہی ہے ۔ اللہ ہمیں غلط سے بچائے اور صحیح کی توفیق دے۔

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔