میں آج بھی گرفتار ہوں !

صلاح الدین ایوب

ٹرین کا تتکال ٹکٹ جیب پر تو بھاری ہوتا تھا لیکن دل کو اس طور پر ہلکا لگتا تھا کہ میری ماں کو صرف چوبیس گھنٹے کے لیے اپنے آنسو مجھ سے چھپانے پڑتے تھے۔ اس روز بھی ماں اپنی پتھرائی آنکھوں سے مجھے تکے جارہی تھی اور سر پر ہاتھ پھیر پھیر کر میرے سفر کو کوس رہی تھی اور سلامتیِ سفر کی دعائیں دے رہی تھی۔ ماں بالکل بھی مجھے دور بھیجنے پر مطمئن نہیں ہوتی لیکن میں اسے خوابوں کی دنیا کی ایسی تفریح کرواتا تھا کہ بالآخر وہ ہاں کہنے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ "ماں تعلیم کے چند سال ہی تو بچے ہیں پھر میری نوکری لگ جائے گی اور میں تجھے بھی ساتھ لے چلوں گا، وہاں تیرا اچھا علاج ہوسکے گا، پتہ ہے ماں وہاں تجھے دن بھر ہاتھ کا پنکھا نہیں ہلانا پڑے گا، زندگیاں وہاں آرام دہ اور محفوظ ہیں ماں”۔ معلوم نہیں وہ بھی میرے ساتھ خوابوں کا سفر کرتی تھی یا میرے محلوں کو توڑنا نہیں چاہتی تھی۔
ٹرین کا چلنا تھا کہ میں اپنے آنسووں پر تاب نہ لا سکا اور کھڑکی سے باہر کی طرف جھانک کر جی بھر کر رویا اور پھر دوسرے ہی پل میں گھر اور گھر کی یادوں سے دور نکل چکا تھا۔ سیاسی گفتگو ئیں ہورہی تھیں، چائے کے دور چل رہے تھے، شہر کے دوستوں کے فون آرہے تھے کہ وہ ماں کے ہاتھوں کے بنے حلوے کے منتظر تھے۔ میں تو رخصت ہونے کے غم سے بچ کر بہت دور نکل آیا تھا لیکن ماں تو اسی میں جیتی تھی۔
ٹرین غازی آباد پہنچ کر کافی دیر کے لیے رک گئی تھی۔ منزل کے قریب پہنچ کر انتظار مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک ایک منٹ کی تاخیر مجھ پر گراں گزر رہی تھی۔ کھڑکی کے باہر کھڑے لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پولیس کا ایک دستہ کسی مجرم کی تلاش میں ہے اور شاید اسی وجہ سے ٹرین روکی گئی ہے۔ وجہ قابل فہم تھی۔ میں نے بھی ادھوری کتاب کو مکمل کرنے میں خود کو مصروف کر لیا۔ اس کتاب کا ایک اقتباس کچھ یوں تھا۔
"انسان ہمیشہ کسی سماج کے اندر رہتا ہے۔ کوئی شخص کسی شرعی مقصد کی تکمیل صرف اس وقت کرسکتا ہے جب کہ سماج کے اندر امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی مقصد کی تکمیل عملاً ممکن نہیں۔ شرعی مقصد کی حیثیت اگر فرض کی ہے تو امن کی حیثیت وسیلہ کی”
پولیس مسافروں کو تکتی ہوئی میرے ڈبے میں داخل ہوئی اور میرے قریب آتے ہی انہوں نے بندوقیں تان لیں اور قبل اس کے کہ میں کچھ سمجھتا، پوچھتا یا بتاتا میرے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے، منھ پر کالا گرم ٹوپا تھا اور کئی مضبوط ہاتھوں نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ پہلی بار مجھے اپنی کمزور ہڈیوں کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ ایک پل میں میں لاچار اور مشہور ہوگیا تھا۔ اب مجھے عدالتوں اور جیلوں کا سفر کروایا جاتا، مار مار کر جرائم کے سلسلے میں ایک جیسے سوال اتنی بار کیے جاتے کہ اب میں سپنوں میں جرائم کرنے لگا تھا اور ان جرائم کی ندامت میں میرے شب و روز گزرنے لگے تھے۔ میں خوابوں کے اپنے کردار سے سخت نفرت کرتا اور جاگتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھتا۔ مسلم جماعتوں نے عوامی چندوں سے عدالتوں میں میرے کیس سنبھال لیئے لیکن میری بیمار ماں اس دن کے بعد کبھی خود کو سنبھال نہیں سکی اور ایک دن جیل کے چھوٹے سے تاریک کمرے میں اس کی وفات کے غم کا پہاڑ بھی ڈھکیل دیا گیا۔ اب وہ کمرہ بالکل تنگ ہوچکا تھا۔ کمرے کی دیواروں نے جم کر میری تعزیت کی اور خوب میرے آنسو پوچھے۔
اب جیل میں میرا دل لگنے لگا تھا، کیونکہ جیل کے باہر بھی میرے لیے کچھ بچا نہیں تھا۔ ایک ایک کرکے مختلف عدالتیں میری بے گناہی کے فیصلے سنا رہی تھیں لیکن پتہ نہیں کیوں یہ فیصلے مجھے خوش کرنے کے بجائے افسردہ کر دیتے، شاید اس وجہ سے کہ ماں کے بغیر گھر جانے کی میرے اندر تاب نہیں تھی۔ شاید باہر نکل کر ہونے والےاحساس محرومی سے میں بچنا چاہتا تھا۔ اب شاید میں جیل میں ہی زیادہ خوش تھا۔
بیس سال گذر گئے، میرے بال سفید ہوچکے تھے، چہرہ مرجھا چکا تھا، رنگ کالا پڑگیا تھا، مختلف چھوٹی بڑی بیماریوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اگر بیس سال جیل میں گذرے تھے تو مزید بیس سال میری صحت کی خرابی کی وجہ سے کم ہوتے لگتے تھے۔
آخری عدالت نے بھی میری بے گناہی کا فیصلہ سناہی دیا اور اب میں اپنے ماضی میں مقید مستقبل کی تلاش میں تھا۔ حال تو میرا کچھ تھا ہی نہیں، میرے دوست پروفیسر ، انجینیر اور ڈاکٹر بنے ہوئے تھے اور میں اپنا بی اے مکمل کرنے کا ارادہ بنا رہا تھا۔ میرے ساتھی اپنے جوان بیٹوں کے ساتھ محفلوں میں شرکت کررہے تھے اور میں اپنے بڑھاپے کو کسی طرح چھپانے کی جدوجہد کرتا رہتا۔ میں نہ تو کبھی اپنےباپ کا پیار لے سکا اور نہ بیٹوں کو پیار دے سکا۔ میرے ہم عمر اپنے گھر تعمیر کرچکے تھے اور میرے پاس اپنے آبائی گھر کی مرمت کی بھی استطاعت نہیں تھی۔ کیونکہ میرا دلی کا سفر اتنا طویل ہوگیا تھا کہ سفر ہی اب منزل لگنے لگا تھا اور قید ہی زندگی بن چکی تھی۔

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔