سیرت نبوی کا ایک اہم باب : غزوۂ احد

شاہ اجمل فاروق ندوی

دنیا میں کج فطرتوں کی شروع ہی سے ایک عادت چلی آ تی ہے۔ ان کی غلطی پر جب کسی طرح کی تنبیہ کی جائے تو اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے گناہوں اور خطاؤں کا سلسلہ مزید دراز کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں :’’اچھا ؟ ہمیں سزا دی ؟ اب ہمیں سدھار سکو توسدھار لو۔ پہلے تو مان بھی لیتے، لیکن اب کسی صورت تمہاری بات نہیں مان سکتے۔‘‘ قرآن کریم میں کفار کی ہٹ دھرمی اور سرکشی کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ غزوۂ بدر میں شکست کھانے کے بعد کفار مکہ نے بھی اسی سرکشی کا مظاہرہ کیا۔ سلیم الفطرت ہوتے تو ہرطرح طاقت ور ہونے کے باوجود حاصل ہونے والی شکست کے اسباب پر غور کرتے۔ اپنے سنجیدہ اور سلجھے ہوئے لوگوں سے رائے مشورہ کرتے۔ لیکن کہاں ؟ وہ تو سرکشی اور دشمنی کی حدیں پارکرگئے تھے۔

جنگ سے پہلے

  ابھی بدر میں مرنے والوں کے نوحے ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کے خاتمے کی تدبیریں کرنے لگے۔ اس بار وہ چاہتے تھے کہ اسلام کا قصہ ہی ختم کردیں۔ مسلمانوں کا نام و نشان ہی مٹادیں۔ پیغمبر اسلام ﷺکے وجود مسعود کو(نعوذ باللہ) نیست و نابود ہی کردیں۔ پورے مکے میں ہرطرف اب یہی سرگرمیاں تھیں۔ بدر میں مرنے والوں کے ورثاء کفار مکہ کے باقی ماندہ سرداروں سے صلاح و مشورے کرتے نظر آتے۔ شعراء اپنے اشعار کے ذریعے مرنے والوں کی تعریفیں بیان کرتے اور زندوں کو غیرت دلاتے۔ عورتیں اپنے مردوں کو عار دلاتیں۔ غرض یہ کہ بدر کی شکست کے بعد سے احد کے آغاز تک مکے والوں کی صرف ایک ہی بڑی مصروفیت رہ گئی تھی۔ بدر کے انتقام کی تیاری۔ قریش نے اپنے ساتھ اُن قبیلوں کو بھی شامل کرلیاتھا، جواُن کی سرداری تسلیم کرتے تھے۔ کل ملاکر تین ہزار کا لشکر تیار ہوا۔ انتقام کی آگ میں جھلستا اور اہل اسلام کے خون کا پیاسا۔ ۳ھ میں شوال کی کسی ابتدائی تاریخ کو یہ لوگ مکہ مکرمہ سے نکلے۔ ساتھ میں عورتوں کو بھی لے لیا۔ تاکہ وہ اشعار پڑھ کر اور ڈھول تاشے بجا بجاکر مسلسل فوجیوں کا خون گرماتی رہیں۔

 دوسری طرف رسول کریم ﷺ نے انصارومہاجرین کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ یہیں رہ کر کفار کی آمد کا انتظار کیا جائے یا باہر نکل کر حملہ کردیا جائے؟ دونوں طرح کی رائیں آئیں۔ دونوں کے پاس اپنی اپنی دلیلیں تھیں۔ رسول کائنات ﷺ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ ہم خود حملہ نہ کریں۔ تیار ہوکر مدینے ہی میں اُن کا انتظار کریں۔ وہ جنگ پر اُتر ہی آئیں تو ہم بھی مقابلہ کریں۔ لیکن پیش قدمی نہ کریں۔ کچھ نوجوانوں کا اصرار تھا کہ نہیں، ہمیں باہر نکل کر ہی اُن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ کہیں کفار ہمیں بزدل نہ سمجھ لیں۔ رسول کریم ﷺ نے جب اس طرح کی باتیں سنیں تو خاموشی سے کھڑے ہوئے اور گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ باہر تشریف لائے تو پوری طرح فوجی لباس میں ملبوس۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبی کے بارے میں کسی طرح یہ نہ سوچنا کہ وہ بزدل ہوسکتا ہے۔ تم باہر نکل کر حملہ آور ہونا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ میں تم سے پہلے تیار ہوں۔ یہ دیکھ کر اُن لوگوں کو خود بھی ندامت ہوئی کہ ہم نے اپنی باتوں سے حضور کو مزاج مبارک کے خلاف کام کرنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے معذرت بھی کی اور آپ کی رائے عالی کے مطابق شہر میں رہ کر ہی مقابلہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن اب ایسا ممکن نہ تھا۔ ذہن ِ نبوی نے جو ٹھان لی، ٹھان لی۔ قلب مبارک میں جو بات آگئی، آگئی۔ اگر مگر یا چوں چرا کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’ یہ بات شان ِ نبوت کے خلاف ہے کہ مسلح ہونے کے بعد جنگ سے پہلے ہتھیار رکھ دے۔‘‘  نبوی جاہ وجلال کے آگے کس کو دم مارنے کی جرأت تھی؟ یہ تو پہلے سوچنے کی بات تھی کہ ہمارے کس جملے کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ کیا بعید کہ فراست نبوی آگے پیش آنے والے ناخوش گوار حالات کا اندازہ لگا چکی ہو۔ اُسے محسوس ہوگیا ہو کہ مسلمانوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اپنے مسلمان ہونے یااپنے درمیان رسول کی موجودگی ہی کو کافی سمجھ رہے ہیں۔ اسی لیے بڑھ چڑھ کر ایسی باتیں کررہے ہیں۔ ابھی اِنہیں ایمان باللہ اور توکل علیٰ اللہ کی تربیت کی اور ضرورت ہے۔لیکن جب بات بزدلی کی آگئی تو سوچا ہو کہ شاید اللہ کو اِ ن کی تربیت آج ہی منظور ہے۔

بہر حال آپ ﷺ ایک ہزار کا لشکر لے کر کفار سے مقابلے کے لیے نکلے۔ ابھی ذرا دور ہی چلے تھے کہ عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس ہوگیا۔ واپسی کی اصل وجہ تو وہ نفاق تھا، جو اُس نے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے اختیار کررکھا تھا۔ البتہ اُس نے اپنی ناراضی کا بہانہ یہ بنایا کہ نبی ﷺ نے نوجوانوں کی بات مان لی اور ہماری بات کو اہمیت نہ دی۔ دراصل اُس کی رائے بھی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی۔ یعنی وہ اس مسئلے میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ اس لیے اُس کی بے عزتی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب وہی رائے خود رسول کریم کی تھی، تو اُس میں صرف اُس کی بے عزتی کا کیا مطلب؟ اگر بے عزتی تھی تو اُس سے پہلے خود رسول کریم کی تھی۔ بات صرف یہ تھی کہ اُسے لشکر اسلام کو نقصان پہنچانے اور اپنی جان بچانے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت تھی۔ سو اُس نے تراش لیا۔ غرض یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ سات سو جاں نثاروں کا لشکر لے کر تین ہزار کے مقابلے کے لیے نکلے اور مدینہ سے کچھ دوراحد پہاڑ کے دامن میں قیام فرما ہوئے۔ لشکر کو مختلف حصوں میں بانٹ کر تعینات فرمایا۔ میدان میں ایک بڑا ٹیلہ تھا، جس پر نگرانی کی سخت ضرورت تھی۔ کیوں کی اس کے پیچھے سے دشمن بہ آسانی حملہ کرسکتا تھا۔ رسول کریم ﷺ نے اپنی حکمت ِ بالغہ سے اُس ٹیلے کی اہمیت کو آنک لیا اور حضرت عبداللہ ابن جبیرؓ کی سربراہی میں پچاس تیر اندازوں کو ٹیلے پر تعینات فرمایا۔ ساتھ ہی یہ تاکیدی حکم بھی دیا کہ ہم جنگ جیتیں یا ہاریں، لشکر اسلام کو چڑیوں کا جھنڈ نوچ نوچ کر لے جائے، لیکن تم لوگ میرے حکم کے بغیراس جگہ سے ہرگز نہ ٹلنا۔ اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب ابن عمیر ؓکے ہاتھوں میں دیا۔ ایک زرہ پہن رکھی تھی، اُس پر ایک اور زیب تن فرمائی۔ یقینا آپ کا دوہری زرہ زیب تن کرنا، آنے والے نازک حالات کی طرف اشارۂ غیبی تھا۔

  جنگ کے دوران

 ۷؍شوال ۳ھ بہ مطابق ۲۳؍مارچ ۶۲۵ء کو سنیچر کے دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ لشکر اسلام کو بدر کی شان دار فتح کی وجہ سے نفسیاتی برتری حاصل تھی، تو کفار کی فوج جذبۂ انتقام سے پاگل ہوئی جارہی تھی۔ اس لیے زور کا رن پڑا۔ کفار انتقام کے لیے اور مسلمان اسلام کے لیے داد شجاعت دینے لگے۔مسلمان ہرحال میں اسلام کا تحفظ چاہتے تھے، تو کفار کسی بھی صورت میں اسلام کے وجود کو ختم کرنے کا عزم لے کر آئے تھے۔

 غزوات رسول میں غزوۂ احد اس اعتبار سے سب سے نمایاں اور ممتازہے کہ اس میں صحابۂ کرام نے اپنے مقدس خون سے جاں نثاری اور فدائیت کی سب سے روشن تاریخ لکھی۔ رسول کریم ﷺ کے چچا اور دودھ شریک بھائی سیدالشہداء حضرت حمزہؓ ایک غلام (حضرت وحشی ؓ) کے نیزے کا شکار ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے آقا (حضرت جبیر ابن مطعمؓ) کے کہنے پر آزادی کے لالچ میں یہ حملہ کیا تھا۔ ہند بنت عتبہ ؓنے بھی غلام کو حضرت حمزہ ؓکے قتل پر اکسایا تھا، تاکہ اپنے باپ اور بھائی کا انتقام لے سکیں۔ غلام نے تاک کر نیزہ پھینکا۔ حضرت حمزہ ؓ کی ناف پر لگا اور آرپار ہوگیا۔ حضرت ابو دجانہ ؓ نے اپنے جسم کو رسول کریم ﷺ کے لیے ڈھال بنادیا۔ دشمنوں کے تمام وار اپنی پیٹھ پر لیتے لیتے اُن کی پیٹھ چھلنی بن گئی۔ حضرت قتادہ ابن نعمان ؓ  کی آنکھ پر ایسی زور کی چوٹ لگی کہ آنکھ باہر آگئی۔خادم رسول حضرت انس ابن مالک ؓ  کے چچا حضرت انس ابن نضرؓ  انتہائی سخت حالات میں بھی جنگ کی طرف چلے جارہے تھے۔ حضرت سعد ابن معاذ نے پوچھا : ’’انس ! کہاں چلے؟‘‘ جواب دیا: ’’سعد ! میں احد کے پہاڑ سے جنت کی واضح خوش بو محسوس کررہا ہوں۔ ‘‘ چنانچہ میدان میں پہنچے اور شہید ہوئے۔ ان کے جسم پر اتنے زخم تھے کہ پہچان مشکل ہورہی تھی۔ آخر کار ان کی بہن نے انگلی پر موجود بچپن کی ایک نشانی سے پہچانا۔رسول کریم ﷺ نے حضرت زید ؓ سے فرمایا کہ سعد ابن ربیع ؓ کو ڈھونڈو اور اُن کو میرا سلام پہنچاکر پوچھو کہ وہ کیا محسوس کررہے ہیں ؟حضرت زید نے اُن کو میدان میں زخموں سے چور دیکھا۔ جب اُن سے حضور کا سوال پوچھا تو انہوں نے بے ساختہ فرمایا:’’ حضور ﷺ سے بھی میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے جنت کی خوش بو صاف محسوس ہورہی ہے۔ ساتھ ہی میرے انصاری بھائیوں سے کہہ دینا کہ اگرتمہارے جیتے جی دشمن حضور ﷺ تک پہنچ گئے، تو یاد رکھنا اللہ کے سامنے کوئی عذر نہ چل سکے گا۔‘‘اِدھر زبان سے لڑکھڑاتے ہوئے یہ جملے ادا ہوئے اور اُدھر روح پرواز کرگئی۔ حضرت زیاد ابن سکن ؓ رسول کریم کی حفاظت کرتے کرتے زخموں سے نڈھال ہوکر گرپڑے تو حضور نے انہیں اٹھوا کر اپنے پاس لٹوالیا۔جنگ کی وجہ سے آپ بیٹھ نہ سکتے تھے، اِس لیے اُن کے سر کو اپنے پیروں پر رکھ کر محاذ آرا رہے۔ چند لمحات میں حضرت زیاد کی روح اس عالم میں نکلی کہ ان کا سر محبوب کائنات ﷺ کے پائے مبارک پر تھا۔ جنگ کے دوران کفار کا ایک ٹولہ حضور کی جان لینے کے ناپاک ارادے سے آپ کی طرف بڑھا۔ یہ دیکھ کر دس بارہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت سامنے آگئی۔ سب شہید ہوگئے تو حضرت طلحہ ابن عبیداللہؓ  اکیلے سامنے آگئے اور اپنے ہاتھ پر اتنے وار روکے کہ ہاتھ مفلوج ہوگیا۔غرض یہ کہ صحابۂ کرام کی اتنی بڑی تعداد میں اور اس طرح کی بے مثال قربانیوں نے غزوۂ احد کو تمام غزوات میں نمایاں مقام دلایا۔

 سات سو صحابہ تین ہزار کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور انہیں میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔کفار پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔ اُن کی عورتیں بھی اپنا سارا تام جھام چھوڑ کر سرپٹ دوڑنے لگیں۔ کفر ایک بار پھر ذلیل و رسوا ہوا اور لشکر اسلام میں فتح کی خوشیاں منائی جانے لگیں۔ لیکن آج قدرت الٰہی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

 ایک چوک

  سرور کائنات ﷺ نے جن تیر اندازوں کو ایک ٹیلے پر کھڑا کیا تھا، اُن سے ایک چوک ہو گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ کفار جنگ ہار چکے۔ اُن کی عورتیں سرپر پاؤں رکھ کر بھاگنے لگیں۔ مالِ غنیمت جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا۔ تو وہ ٹیلے پر اپنے کمانڈر اور پورے لشکر اسلامی کے سربراہِ اعلیٰ کی اجازت کے بغیر ٹیلے سے نیچے اترنے لگے۔ اُن کے کمانڈر نے انہیں بہت روکنا چاہا۔ آوازیں دیں۔ پکار پکار کر کہا کہ رسول کریم نے فرمایا تھا کہ میری اجازت کے بغیر یہاں سے کسی حال نہ ہٹنا۔ لیکن فتح کی خوشی، جیت کے نعروں، مال غنیمت جمع کرنے کے ہنگامے اور زخمیوں کی خبرگیری کے شور شرابے میں اُن کی پکارکون سنتا؟ کسی نے اُن کی ہدایت پر عمل نہ کیا اور کودتے پھاندتے ٹیلے سے نیچے اتر آئے۔ حضرت خالد ابن ولید اُس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور ’’سیف اللہ‘‘ نہیں بنے تھے۔ انہوں نے بھاگتے بھاگتے جب دیکھا کہ ٹیلے پر کھڑے ہوئے اکثر تیر انداز اپنی جگہ سے ہٹ چکے ہیں، تو اپنے ساتھ موجود قریش کے فوجیوں کو لے کر واپس پلٹ آئے۔ ٹیلے کا چکر لگا کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ آور ہوگئے۔ کفار کے باقی لشکر نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ بھی واپس آگیا۔ اب مسلمان دو طرف سے گھر گئے۔ اس درمیان یہ غضب بھی ہوا کہ کچھ کفار نے سیدھا اللہ کے رسول ﷺ کو نشانہ بنایا۔ ایک کافر نے بڑا پتھر آپ کے اوپر پھینکا، جس کی چوٹ سے دو مبارک دانت شہید ہوگئے۔ وہ دانت، جولوگوں پر شفقت کے پھول برسانے کے لیے کھلتے تھے۔ وہ مقدس ہونٹ زخمی ہوگئے، جن سے ہمیشہ انسانوں کی بھلائی کی بات نکلتی تھی۔ وہ پاکیزہ سرخون آلود ہوگیا، جس میں انسانیت کی کام یابی کا سودا سمایا ہوا تھا۔ وہ مبارک چہرہ خون میں تر بہ تر ہو گیا، جس کی زیارت ٹوٹے دلوں کا سکون اور بے چین روحوں کا اطمینان تھی۔کفار نے ایک گہرا گڑھا کھود کر ڈھانک رکھا تھا۔ حضور کا پائے مبارک اس پر پڑا اور آپ دائیں پہلو پر گڑھے کے اندر جا گرے۔ آپ چہرۂ مبارک سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور زبان مبارک سے فکر مندی کا اظہار اِس طرح ہو رہا تھا:  ’’وہ قوم کیسے کام یاب ہو سکتی ہے، جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اِس وجہ سے خون آلود کرڈالا کہ وہ انہیں اُن کے رب کی طرف بلاتا ہے؟‘‘ ایک طرف رسول کریم گڑھے میں گرنے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں یہ ا فواہ اڑ گئی کہ آپ شہید کر دیے گئے۔ محبوب کائنات کی شہادت کی خبر کفار کے دوبارہ حملے سے سخت ثابت ہوئی۔ لشکر اسلام تتر بتر ہوگیا۔ مسلمانوں کو پوری طرح منتشر اور نبی کریم کو موجود نہ پاکر کفار مطمئن ہوگئے اور دوبارہ اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوگئے۔ حضرت علیؓ اور حضرت طلحہ ابن عبیداللہؓ نے حضور کو سہارا دیا اور گڑھے سے نکالا۔ احد پہاڑ کے مشرقی حصے پر ایک غار میں آپ کو آرام کے لیے لے جایا گیا۔ حضرت مالک ابن سنانؓ نے آپ کا مبارک خون اپنے چلّو میں بھرکرپی لیا۔ حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال میں پانی لا کر چہرۂ مبارک دھلوایا۔ حضرت فاطمہ ؓ نے مرہم پٹی کی۔

 کفار کو واپس جاتا دیکھ کر مسلمان پھر میدان میں جمع ہونے لگے۔ جن لوگوں کو حضور کے غار میں موجود ہونے کی خبر ملی، انہوں نے غار کا رخ کیا۔ کفار کی ایک ٹکڑی نے مسلمانوں کو اونچے غار کی طرف چڑھتے ہوئے دیکھا تو سوچا کہ ایک بار پھر حملہ کریں اور اہل ایمان کا وجود ہی ختم کر ڈالیں۔ لیکن مسلمان کافی بلندی پر تھے۔ اُن کا سامنا کرنے کے لیے ایک ٹکڑی کافی نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے باقی لشکر کے ساتھ واپس لوٹنے میں ہی عافیت سمجھی اور مسلمانوں کے اِس آخری محاذ کو خاص اہمیت نہ دی۔ کفار کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے تو مفید ثابت ہوا، لیکن درحقیقت فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے یہ ایک بڑی غلطی تھی۔ اس کا احساس کفار کو بھی ہوا۔ احد سے واپسی کے وقت ان لوگوں میں آپسی بحث و مباحثہ بھی ہوا۔ کسی نے کہا کہ تم نے بنابنایا کھیل بگاڑ دیا۔ مسلمانوں کو پسپا بھی کیا اور نیست و نابود کیے بغیر چھوڑ بھی دیا۔ کسی نے کہا کہ بس جو ہوا ٹھیک ہی ہوا۔ کوئی بولا کہ تم نے بزدلی دکھائی، ورنہ آج مسلمانوں کا کام

 تمام ہوگیا ہوتا۔ لیکن اس بحث سے کوئی فائدہ نہ تھا۔ کفار واپس آچکے تھے اور مسلمان دوبارہ متحد ہو چکے تھے۔

  کفار کی واپسی کے وقت ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ابوسفیان نے ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر فاتحانہ انداز میں پکارا کہ آج کی جنگ برابر سرابر رہی۔ پھر کفار مکہ کے ایک بڑے بت ہبل کی عظمت کا نعرہ لگایا۔ اس کے جواب میں رسول اکرمؐ کے اشارے پر حضرت عمر ؓنے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا نعرہ بلند کیا۔ یہ سن کر ابوسفیان نے اپنے ایک اور بڑے خدا کی دہائی دیتے ہوئے کہا: ’’لنا عزیٰ ولا عزیٰ لکم ‘‘(ہمارے پاس تو عزیٰ بھی ہے، تمہارے پا س عزیٰ نہیں )۔ جواب میں اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت پر مسلمانوں نے یہ نعرۂ مستانہ لگایا: ’’اللہ مولانا ولا مولیٰ لکم‘‘ (اللہ ہمارا والی و نگراں ہے، تمہارا کوئی نگراں نہیں )۔جاتے جاتے کفار نے پھر چلّا کر کہا کہ اگلے سال بدر میں پھر مقابلہ ہوگا۔ حضور نے بھی اس کے جواب میں کہلوایا کہ ٹھیک ہے، یہ بات پکی ہے۔

  یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ٹیلے پر کھڑے ہوئے جن تیر اندازوں کی چوک کے نتیجے میں مسلمانوں کو انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، انہیں اللہ تعالیٰ نے معافی کا پروانہ عطا فرما دیا تھا۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۲ میں یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا : ’’و لقد عفا عنکم‘‘(اور اللہ نے ان کو معاف فرمادیا)۔ اس لیے ان حضرات کے بارے میں دل میں بدگمانی لانا یا اُن کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔یہ ایک چوک تھی، جو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مصلحت کے تحت کرائی تھی۔آگے ہم یہ سب مصلحتیں بیان کریں گے۔

جنگ کے بعد

 رسول کریم ﷺ کو کفار کی طرف سے اطمینان نہیں تھا۔ آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں کفار یہاں سے لوٹتے ہوئے مدینے پر حملہ نہ کردیں۔ وہاں عورتوں اور بچوں کو تنہا پا کر لوٹ مار نہ مچائیں۔ آپ نے لوگوں سے نظر رکھنے کو کہا۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ کفار نے گھوڑوں پر سامان لاد ا اور اونٹوں پر خود سوار ہوگئے تو یقین کر لیا کہ ان کا ارادہ مدینے کا نہیں، بلکہ کسی لمبے سفر کا ہے۔ وہ اب مکہ ہی جانا چاہتے ہیں۔ اس خبر سے حضور کو کچھ اطمینان تو ہوا، لیکن آپ کے دل میں دھڑکا لگا رہا۔ آپ قریش کی فطرت سے واقف تھے۔ آپ کو خدشہ تھا کہ ہوسکتا ہے کچھ آگے جا کر کفار مکہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ مسلمانوں کو پوری طرح ختم کرنے کے ارادے سے واپس پلٹ آئیں۔ اس لیے آپ نے سب سے پہلے اپنے شہداء کی تدفین کا نظم فرمایا۔ شہیدوں میں سے جس کو زیادہ قرآن یاد تھا، اُس کو پہلے دفنایا گیا۔ ایک ایک کفن میں دو دو شہید رکھے گئے۔ کفن دفن کی ساری کارروائی حضور کی رہ نمائی میں انجام دی گئی۔ آپ نے اپنے زخموں اور ضعف کے باوجود ایک ایک شہید کو اپنی نگرانی میں کفن دلایا اور دفن کرایا۔یہ بھی ارشاد فرماتے کہ میں قیامت کے دن اِن لوگوں کے حق میں گواہی دوں گا۔ اسی پر بس نہیں۔ حضور ﷺ اپنی پوری حیات مبارکہ میں کثرت سے شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے۔ ان کے لیے دعا فرماتے۔ ان کی لافانی قربانیوں کا تذکرہ فرماتے۔ دنیا میں کسی مرنے والے کے لیے اس سے بڑا خراج اور کیا ہوسکتا ہے؟

 اگلی صبح سرور کائنات نے اعلان کرایا کہ آج کفار مکہ کا پیچھا کرنے کے لیے نکلنا ہے۔ صرف وہی لوگ جاسکتے ہیں، جو کل جنگ میں شریک تھے۔ صحابۂ کرام میں سے کوئی ایسا نہ تھا، جو زخمی نہ ہو۔ لیکن حضور کا حکم سنتے ہی سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ چست پھرت، ہشاش بشاش۔ گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔ سب کے سب اپنے ہادی و رہ نما کی قیادت میں نکل پڑے۔ آٹھ دس میل جا کر حمراء الاسد کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ تین چار دن قیام کیا۔ جب دشمن کی طرف سے پورا اطمینان ہوگیاتو واپس مدینہ لوٹ آئے۔صحابۂ کرام کی یہ جاں نثاری خالق کائنات کو بھی بہت پسند آئی۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۷۳ تا ۱۷۵میں اُن کے اِس عمل کو سراہا گیا ہے۔ بارگاہِ خداوندی سے مقبولیت کی سند مل جائے تو اور کیا چاہیے؟ اِس سند نے احد کے شرکاء کا مرتبہ اور بلند کردیا۔

 غزوۂ احد کے اثرات

 احد کے میدان میں جو کچھ پیش آیا تھا، وہ حیرت انگیز بھی تھا اور نصیحت آمیز بھی۔ سب کچھ اتنی تیز اور اچانک ہوا کہ عقلیں حیران تھیں۔ غزوۂ احد اپنے آپ میں جتنا عظیم ہے، وہ تو ہے ہی، انتہائی اثر انگیز اور نتیجہ خیز بھی ہے۔ اس غزوے نے اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ بالخصوص اہل ایمان کے دلوں پر، کیوں کہ وہ ایک خاص مقصد اور مشن کے لیے لڑ رہے تھے۔ یہ اثرات در اصل مہمیز اور تمہید تھے آنے والے حالات کے۔ اِن اثرات کا ادراک کرلینے سے اسلام کے متواتر عروج اور کفر کے بہ تدریج زوال کی وجہ ہاتھ آجاتی ہے۔ اگر کوئی دانش مند قاری اِن اثرات کو اچھی طرح سمجھ لے گا، تو وہ چھٹی صدی عیسوی میں اسلام و کفر کے مستقبل کا اندازہ بھی لگا لے گا۔

۱۔ فطری نظام پر یقین

  غزوۂ احد میں کام یابی کے بعد پسپائی کا پہلا اثر اہل ایمان پر یہ پڑا کہ انہیں عام حالات میں فطری نظام کی کارفرمائی کا یقین ہوگیا۔ دلوں میں یہ بات جم گئی کہ اسلام لانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی جادو کی چھڑی مل گئی۔ اسے جدھر چاہو گھما دو، کام ہونا ہی ہونا ہے۔ اللہ و رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں کہ معجزات و کرامات کی کنجی ہاتھ آگئی۔ جب ضرورت پڑے، کوئی کرشمہ دکھاؤ اور اپنا کام پورا کر لو۔بلکہ ہمیں بھی ہر چھوٹا بڑا کام اُسی نظام کے تحت کرنا ہوگا، جو قدرت نے طے کر دیا ہے۔ ہمیں بھی اپنی ذاتی یا اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے قوانین فطرت کے مطابق کام کرنا ہوگا۔یقینا اللہ تعالیٰ کی قادر مطلق ہستی ہر لمحے ہمارے ساتھ ہے۔ رسول کریم ﷺ کی ذات مقدس ہمارے درمیان ہے۔ ان دونوں باتوں میں ہرگز کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہمیں انسانوں کی اِس دنیا میں رہنا ہے۔ اسی دنیا میں زندگی گزارنی ہے اور اسی میں اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر حال میں کائنات کے فطری نظام کے مطابق ہی کام کرنا ہوگا۔ اُسی کو اختیار کرنا ہوگااور اس کے لیے تمام اسباب اختیار کرنے ہوں گے۔کسی کرشمے یا چمتکار کے انتظار میں رہنا فطری نظام کے بھی خلاف ہوگا اور اللہ و رسول کی مرضی کے بھی۔

 ۲۔ اتباع سنت میں نجات کا تصور

  صحابۂ کرام (رضی اللہ عنھم)اللہ کے رسول ﷺ پر جان چھڑکتے تھے۔ آپ کے ہر حکم کو تمام دنیوی احکامات سے افضل و برتر سمجھتے تھے۔ آپ کی ایک ایک ادا کی نقل کرتے تھے۔ اس کے باوجود اُن میں سے ایک آدھ بزرگوں سے کبھی کبھی ایسی چوک ہوجاتی تھی، جو رسول کریم کی مرضی کے خلاف ہوتی تھی۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اُن پاکیزہ نفوس سے کبھی کبھی کچھ ایسے کام کرا دیتا تھا، جن کو کرنے سے اُس کے رسول نے روکا ہوتا تھا۔یہ کام کرانے میں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت یہ ہوتی تھی کہ دنیا کو پتا چل جائے کہ ایسا کرنے کا کیا حکم ہے۔ اگر رسول کے سامنے وہ کام ہی نہ ہوتے تو رسول کیسے اُس کا حکم بیان کرتے ؟ اِن بزرگوں سے کبھی کوئی چوک ہی نہ ہوتی تو دنیا کو اُس چوک کا نتیجہ کیسے معلوم ہوتا؟یعنی اِن حضرات کی بھول چوک بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادے کے مطابق ہوتی تھی۔اس کے سرزد ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ خود اُن کی معافی اور اُن سے اپنی رضامندی کا پروانہ نازل فرما دیتا تھا۔ اِس سے اُن کی عظمت اور بڑھ جاتی تھی۔ یہی معاملہ غزوۂ احد میں بھی پیش آیا۔ ایک تو جنگ سے پہلے مشورے کے دوران حضور کی مرضی تھی کہ ہم دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کریں۔ باہر نہ نکلیں۔ لیکن چند نوجوان اصحاب جو غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے، انہوں نے جذبات میں ایک ایسی بات کہی جس پر حضور کی حمیت وغیرت کو جوش آگیا۔ آپ نے مدینے سے باہر نکل کر ہی جنگ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور پھر کسی کے روکے سے بھی نہ رکے۔ دوسرے یہ کہ جن تیر اندازوں کو ایک ٹیلے پر کھڑا کرکے کسی بھی حالت میں بغیر اجازت نہ ہٹنے کا حکم دیا تھا، وہ اپنی فتح دیکھ کر ہٹ گئے۔ رسول کے حکم کا انتظار نہ کیا۔ نتیجے میں سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ اِس چوک پر اللہ تعالیٰ نے بھی معافی کا حکم نازل فرما دیا۔ لیکن صحابۂ کرام کے سامنے یہ حقیقت خوب کھل کر آگئی کہ اگر رسول کی اتباع میں ذرا بھی کوتا ہی ہوئی، تو سخت تباہی کا سامنا کرنا ہوگا۔ پرانے ایمان لانے والے جلیل القدر صحابہ تو اِس حقیقت کو سمجھے ہوئے تھے ہی، اب نئے ایمان لانے والوں کے سامنے بھی یہ اٹل حقیقت آگئی۔ اتنا ہی نہیں، یہ واقعہ مستقبل کے لیے بھی درس و عبرت کی ایک عظیم یادگار ہوگیا۔ آئندہ تمام غزوات اور دوسرے تمام معاملات میں یہ حقیقت ہمیشہ سب کے سامنے رہی، جس کے عظیم ترین خوش کن نتائج دنیا نے دیکھے۔

 ۳۔ قربانی دینے کا جذبہ

 جنگ میں ستر صحابۂ کرام کی شہادت اور اِس سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ کے لہولہان ہونے سے مستقبل میں عظیم قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ لوگوں کو احساس ہوگیا کہ یہ دین کوئی معمولی چیز نہیں کہ بغیر کسی محنت و قربانی کے عام ہوجائے۔ یہ قربانی چاہتا ہے۔ اپنے ماں باپ، آل اولاد، گھر بار اور جان مال کی قربانی۔ہمیں رسول اکرم کی صحبت ومعیت کا شرفِ عظیم حاصل ہے تو عظیم قیمت بھی ادا کرنی ہوگی۔ آج ہمارے ستر ساتھی آن کی آن میں خاک و خون میں لوٹ گئے تو کل ہمیں بھی لوٹنا پڑے گا۔ آج محبوب کائنات کا جسم مبارک لہولہان ہوا، تو کل ہمیں بھی اپنے خون میں نہانا پڑے گا۔ ہم تعداد اور ظاہری طاقت میں بہت کم ہیں اور باطل بہت زیادہ اور مضبوط۔ کب کیا ہوجائے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں ہر لمحہ اپنا گھر باراور جان مال لٹانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

  ۴۔ ایمان اور نفاق میں فرق

 غزوۂ احد کے لیے لشکرِاسلام چلا تھا تو اُس میں ایک ہزار لوگ شامل تھے۔ لیکن راستے میں تین سو منافقین نے ایک بہانہ بنا کر ساتھ چھوڑ دیا تھا اور واپس چلے گئے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آج اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ غزوۂ بدر کا بدلہ لینے کے لیے مکہ والے پورے جوش اور طاقت کے ساتھ آرہے ہیں۔ آج ان کا مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا چلتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مد ینہ منورہ واپس تشریف لائے اور دوبارہ پہلے کی طرح زندگی گزارنے لگے۔ غزوۂ احد نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ منافقین کے نجس چہرے دنیا کے سامنے آگئے۔ انہیں سب نے پہچان لیا۔ ان کے لیے غداری کرنے کے مواقع انتہائی محدود ہوگئے۔

 ۵۔ کفار کو کامیابی کی ایک اور امید

 کفار مکہ کو بھی غزوۂ احد سے کئی فائدے حاصل ہوئے۔ اگرچہ اِن فائدوں کی حیثیت ’’خوش فہمی‘‘ اور ’’خام خیالی‘‘ سے زیادہ نہیں تھی۔ حضرت حمزہ ؓ جیسے مشہور شہسوار کی شہادت بھی اُن کے لیے اطمینان کی بات تھی اور قرآن کریم کو حفظ کرنے والے کئی صحابہ کی شہادت سے بھی وہ خوش تھے۔ رسول کریم ﷺ  کو زخمی کرکے بھی وہ خوش تھے اور اپنے گمان کے مطابق بدر کا بدلہ لینے سے بھی اُن کے کلیجوں کو ٹھنڈک ملی تھی۔ اِن تمام واقعات نے اُن کو ایک طرح کے احساس برتری میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ بدر میں تو مسلمانوں نے اندھے کی لاٹھی گھما کر بازی مار لی تھی۔ اصل جنگ تو اب ہوئی ہے۔ بس! اب دیکھو، آئندہ ان کو کیسی دھول چٹاتے ہیں۔ اِس نفسیاتی برتری نے ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا کردی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ غزوۂ احزاب میں وہ بہت بڑا لشکر لے کر اسلام، اہل اسلام اور ریاست اسلام سب کو نیست ونابود کرنے کے ارادے سے میدان میں آئے تھے۔ اس کیفیت میں وہ مارے خوشی کے یہ بات بھول گئے تھے یا بھلا رہے تھے کہ احد میں بھی وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اگر ٹیلے پر کھڑے کچھ تیراندازوں سے معمولی چوک نہ ہوئی ہوتی تو بدر کی طرح آج بھی اُن کے چہروں پر ذلت کی کالک پُتی ہوتی۔

غزوۂ احد کا سبق

ذرا سا غور کیاجائے تو اکیسویں صدی کے مسلمانوں کے لیے بھی غزوۂ احد میں بڑا سبق ہے۔ کہنا چاہیے کہ تمام غزوات نبوی میں غزوۂ احد ہمارے لیے جتنا عظیم پیغام رکھتا ہے، اتنا دوسرے غزوات نہیں رکھتے۔ تفصیل میں جائیں تو بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ مختصراً بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جنگ ہمیں نازک سے نازک حالات مین بھی ایمان پر جمے رہنے اور رسول اکرم کی مکمل پیروی کا پیغام دے رہی ہے۔ حالات کیسے ہی نازک اور مایوس کن ہوجائیں، اہل ایمان کو مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بزدلی کا مظاہرہ نہ کرنا چاہیے۔ اللہ پر ایمان مضبوط رکھنا چاہیے اور اللہ کے رسول کے اسوے پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ ایمان کی کم زوری، سخت حالات میں مایوسی اور نبی اکرم کے اسوے سے دوری ہر دور میں امت کی بربادی اور تباہی کے بنیادی اسباب ہوں گے۔ یہ امت قیامت تک باقی رہنے کے لیے پیدا کی گئی ہے، قرآن حکیم کو ہمیشہ باقی رہنا ہے، احادیث کا مبارک ذخیرہ بھی تاقیامت باقی رہے گا، لہٰذا وقت کی کسی بڑی طاقت کے سامنے ہمیں مایوس نہ ہونا چاہیے۔ مایوسی کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ہمارا ایمان ڈگمگا رہا ہے اور اسوۂ نبوی کی حقانیت میں ہمیں کچھ شک سا ہونے لگا ہے۔ اللہ نہ کرے اگر یہ دونوں باتیں ہمارے اندر پیدا ہوگئیں، تو پھر ہمارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ جڑ ہی کٹ جائے، تو کیسا تنا اور کیسے پتے؟ پھر تو ہم پر جو مصیبت نہ آئے، وہ کم ہے۔ ہاں ! اگر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان بھی ہو، رسول کریم کے طریقے کی مکمل پیروی بھی ہو اور مایوسی کے بجائے امید اور عزم جواں بھی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں سربلندی و عروج سے نہیں روک سکتی۔ غزوۂ احد ہمیں یہی پیغام دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔