سیلاب سے پست ہندستان – حکومتیں اپنے پرانے راگ پر ہی قائم

بہار، بنگال، اڑیسہ، آسام، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں سیلاب کا قہر جاری ہے، حکومتوں کے اعلانات لگاتار ہورہے ہیں لیکن سیلاب سے بچاو کے لیے واضح حکمتِ عملی کا فقدان

صفدر امام قادری، پٹنہ

        ہر سال کی طرح اس سال بھی جولائی سے سیلاب، راحت، صوبائی اور مرکزی حکومت کے پیکج اور طرح طرح کے اعلانات شروع ہوگئے۔ اگست میں اس کی رفتار مزید تیز ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ نصف ستمبر کے بعد اخبارات کی سرخیوں سے سیلاب اور اس کے مسائل غائب ہوجائیں گے اور حکومت بھی آیندہ سال کی جولائی تک اپنے اعلانات کو بھو ل کر دوسرے ضروری کاموں میں مصروف ہوجائے گی۔ جنھیں مرنا تھا، وہ اٹھ چکے، جن کا گھربار لُٹ جانا تھا، وہ سڑک پر آگئے۔ تھوڑے بہت راحت کے سامان مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئے، اسی پر صبر کرتے ہوئے سیلاب متاثرین اپنی قسمت کو کوستے ہوئے بدن ہاتھ جھاڑ کر بہت جلد اپنی نئی زندگی اور جدوجہد میں مصروف ہوجائیں گے۔

        سیلاب تین مہینے کا ایک سرکاری ایجنڈا ہوکررہ گیا ہے۔ 1975ء کے پٹنہ کے سیلاب کے رپورتاژمیں ممتاز ہندی مصنف فنیشور ناتھ رینو نے لکھا تھا کہ سیلاب اور راحت کاری سرکار اور ان کے کارندوں کی نظر میں تہوار کی طرح سے ہے۔ سب کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے۔ کوئی زیادہ پاتا ہے اور کوئی کم۔ اسی لیے سیلاب میں بہائے گئے آنسو کتنے سچے اور کتنے جھوٹے ہوتے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔ پورے ملک میں سیاست داں ایک کھیل تماشے کی طرح سے سیلاب کی تباہ کاریوں کو لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دو بار ہیلی کاپٹر سے وزیر اعلا اور دوچار وزرا معائنہ کرلیتے ہیں۔ اندراگاندھی کی تصویریں اس زمانے کے حساب سے وائرل ہوئی تھیں جب سیلاب زدہ علاقوں میں وہ ہاتھی پر بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینے کے لیے پہنچی تھیں۔ اس بار تصویر کے اعتبار سے معرکتہ الارا پوز مدھیہ پردیش کے وزیر اعلا شیو راج سنگھ چوہان کی رہی جنھیں لوگوں نے دیکھا کہ دو سپاہی دو طرف سے گود میں اٹھائے ہوئے اور الگ سے جوتا پکڑے کارندے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرانے کے لیے لے گئے ہیں۔

        ملک کے چلانے والے سیاست دانوں کو یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ کبھی صوبائی حکومت، مرکزی حکومت سے شکوہ سنج ہوتی ہے اور کبھی مرکز کو ریاستوں کے کام کاج اور طریقۂ کار پر اعتماد نہیں ہوتا۔ جی لگا کر دونوں ایک دوسرے پر الزامات عاید کرتے ہیں اور سیلاب زدگان کے مسائل فٹ بال کی طرح ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ میں پہنچتے رہتے ہیں۔ نہ کسی کا مسئلہ حل ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل اصلاح کی جانب دوچار قدم بڑھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس بات پر سب تازہ دم ہوتے ہیں کہ شہر میں جو سیلاب متاثرین آچکے ہیں، ایک دو دن وہاں کلکٹر صاحب کی نگرانی میں کون سا کام ہورہاہے، اس کی دیکھ ریکھ ہوجاتی ہے۔ باقی ڈھاک کے وہی تین پات۔

        پچھلے دو برسوں سے نتیش کمار بہار، یوپی اورمغربی بنگال کے علاقے میں سیلاب کا سبب فرخّا باندھ کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ تعلیم سے باضابطہ انجینئر ہیں اور سول معاملوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ نتیش کمار کو پچھلے دو برسوں میں ہی سیلاب کی وجہ فرخّا باندھ ہے، اس کا عرفان اچانک کیسے ہوگیا۔ گیارہ برس ان کی وزارت کے ہوئے۔ آخر ابتدائی نو برس میں یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آئی؟ مرکزی حکومت میں بھی وہ اہم وزارتوں میں تھے لیکن اپنے صوبے کے اس بڑے مسئلے پر قومی سطح پہ غور و فکر کرنے کی کوشش انھوں نے کبھی نہیں کی۔ آج حکومتِ ہندسے ان کی بہت ساری توقعات ہیں اور انھیں اس بات کا احساس ہے کہ مرکزی حکومت کے ساتھ بیٹھے بغیر سیلاب کے مسائل پر متفقہ طور پر کوئی بات ممکن نہیں۔

        اتراکھنڈ، اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال ریاستوں سے گنگا ندی گزرتی ہے۔ سمندر میں پہنچنے کے لیے تو وہ بنگلہ دیش بھی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گنگا ندی ہی ان پانچوں ریاستوں میں اور بنگلہ دیش میں سیلاب کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمالیہ سے برف کے پگھلنے اور بڑی مقدار میں بارش کے پانی کو سمیٹ کر گنگا کے میدانی علاقے کی تمام چھوٹی بڑی ندیوں کے پانی کو لے کر سمندر تک پہنچاتی ہے۔ یہ شاید تاریخ کے پہلے دن سے سلسلہ رہا ہوگا۔ ایک دور میں سیلاب کے سرکاری ماہرین کے دماغ میں یہ بات تھی کہ سیلاب کو باندھ سے روکا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے سے بڑے بڑے پروجیکٹ تیار ہوئے اور کروڑوں کی رقم خرچ کی گئی۔ بہار میں گنڈک اور کوشی ندی کے منصوبے بڑے لبھاونے انداز سے مرکزی حکومت کی مددسے پیش کیے گئے۔ آج دونوں منصوبے نقصان پہنچانے کے سارے ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ فائدہ سرکاری مشینری، ٹھیکیداروں اور تھوڑے بہت سیاست دانوں نے حاصل کیے۔

        گنگا پر بجلی اور سینچائی کا دباو بنانے کے لیے اتراکھنڈ سے لے کر مغربی بنگال تک بڑے براج، پُل اور ہزاروں طرح کی رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ نیپال سے آنے والی ندیوں پر بھی ہندستان میں براج بنائے گئے تاکہ برسات میں ناپ تول کر پانی چھوڑا جائے اور گنگا میں اُپھان نہیں آئے اور لوگ سیلاب سے بچ سکیں۔ بڑے پیمانے پر سینچائی کے خواب دکھائے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ اچھی خاصی مقدار میں ہم پن بجلی پیدا کرلیں گے۔ لیکن ریشی کیش سے کلکتہ تک کوئی یہ بتا دے کہ جتنے نشانے مقرر کیے گئے تھے ان میں کسی میں بھی کامیابی ملی ہو۔ گنڈک براج اور باندھ سے آب پاشی کیا ہوتی مظفرپور اور ویشالی اضلاع سات آٹھ مہینے تک پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ پہلے جتنی کھیتی ہوتی تھی اس سے وہ لوگ آدھے پر سمٹ گئے اور کاشت کاری سے پنجاب اور دوسری جگہوں پر جاکر مزدوری تک پہنچ گئے ہیں۔ کوشی باندھ نے بہار کے کم سے کم پانچ چھے اضلاع کو سالانہ تباہی کے ریکارڈ میں کچھ اس طرح شامل کیا کہ تباہ کاری کے اعتبار سے اب بھی یہ بہار کا آنسو ہے۔

        گنگا ندی میں براج کا سلسلہ خطرناک تر ہوتا گیا۔ فرخا براج ہی نہیں جگہ جگہ جو پل بنائے گئے اور آمد و رفت کے وسائل کی آسانیوں کے نام پر ہر چار شہر کے بعد اربوں روپے کے وارے نیارے ہوئے لیکن کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ندی سے ہم لڑائی مولنے کی تیاری میں ہیں۔ ندی کی رفتار اور فطری طور پر اس کے بہاو کو روکنا کبھی بھی کھیل تماشا نہیں ہوسکتا۔ فرخا براج کی تعمیر کے وقت ہی اس زمانے کے ایک مشہور انجینئر کپل بھٹاچاریہ نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ یہ باندھ کسی طور پر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پہلا خاموش مقصد یہی تھا کہ ہگلی پورٹ پر تیزی سے پانی چھوڑا جائے تاکہ بڑے جہاز وہاں تک پہنچ سکیں۔ اس میں سو فی صد ناکامی ہوئی۔ بنگلہ دیش کے سیلاب زدہ علاقے میں اضافہ ہوا اور تباہیوں میں وہ مبتلا ہوئے۔ مچھواروں کو جو مہنگی مچھلیاں پورے گنگا کے علاقے میں دستیاب تھیں، وہ نہ جانے کہاں کھو گئیں۔ بعد میں ماہرین نے بتایا کہ ہلسہ مچھلی گنگا کی مخالف دھار میں چل کر ریشی کیش میں ٹھنڈے پانی میں اپنے انڈے زیرے دیتی تھی اور مچھوارے مالامال ہوتے تھے۔ فرخا براج کے بعد سمندر سے آنے والی یہ ہلسہ مچھلی گنگا کے علاقے سے غائب ہوگئی کیوں کہ فرخا براج سے آگے اس کا فش لیڈر خراب ہونے اور بے اثر ہونے کی وجہ سے وہ مچھلیا ں ادھر ہی لوٹ جاتی ہیں۔

        یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اتراکھنڈ، اترپردیش، بہار، آسام اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں مرکز سے مخالف حکومتیں کام کررہی ہیں۔ سیلاب کا مسئلہ ایک صوبہ یا ایک ملک کا نہیں ہوسکتا۔ بنگلہ دیش اور نیپال بھی ا س کا حصہ ہوں گے۔ سیاست داں اپنے کاروبار سے الگ ہوکر سیلاب کے مسائل کے جاننے والے اور ماہرین کو بٹھاکر معقول پالیسیاں بنانے کے لیے کیوں نہیں پیش قدمی کرتے ؟ مسئلہ اصل یہ ہے کہ سیاست دانوں کو اور ان سے متعلق محکمہ جات کے مالکان کو سالانہ روٹین کام کرنے کے لیے سیلاب بھی ایک کام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پالیسی بنانے کے لیے تمام سرکاریں ماہرین کو ذمہ داری دیں، انجینئر، سماجی ماہرین، ماحولیات کے کارکن اور سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرین کو ساتھ بٹھا کر گفتگو ہونی چاہیے۔ مرکزی حکومت میں اوما بھارتی اور نتین گدکڑی نے گنگا کے سلسلے سے جن پالیسیوں کا تذکرہ کیا ہے انھیں سنجیدگی سے تماشا کہنا بھی مشکل ہے۔ ڈھائی سال میں خرد برد کے علاوہ کسی نے کوئی کام زمین پر نہیں دیکھا۔ نتیش کما راور اکھیلیش یادو ٹکنالوجی کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ انھیں اب کی بار ستمبر سے لے کر جولائی آنے سے پہلے تک نو دس مہینوں میں یہ مہم چلانی چاہیے کہ کس طرح سیلاب کے سلسلے سے ایک قومی پالیسی بنے۔ جب تک ایسا کام نہیں ہوگا غیر ضروری طور پر عوام مرتے رہیں گے اور لٹتے رہیں گے۔ گھڑیالی آنسو بہانے والے بھی اسی طرح آتے جاتے رہیں گے  لیکن ہوگا کچھ نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔