سیلاب یا عذاب؟

محمد خان مصباح الدین

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار!

 کیا  بات  ہو گئی  جو خدا  یاد  آ گیا

ہندوستان جسکی زرخیزی،آب وہوا،تجارت ومعیشت، کی مثال دی جاتی ہے۔جسکی سنہری روداد سن کر لوگ اس ملک کے رہن سہن، آب وہوا، سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہونے کیلیئے بے چین ہو جایا کرتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے سے اس ملک میں قدم رکھ کر قلبی سکون حاصل کیا کرتے ہیں ۔ مگر آج دور دور تک پانی کا پھیلاو اور اسکی بہاو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں آج یہ ساری باتیں ایک خواب سی محسوس ہوتی ہیں , ہندوستان میں ایک بات بہت عجیب و غریب ہےکہ یہاں کچھ علاقوں میں پانی کی اتنی قلت ہوتی ہے کہ لوگ فصل سے محروم ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو پینے تک کیلیئے محتاج ہوجاتےہیں اور ایک گھونٹ پانی کیلیئے  دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ علاقہ پانی کی کثرت سے اپنا گھر بار  اور  فصل تک کھو دیتا ہے  اسوقت ہندوستان کا بہت سارا حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس سیلاب نے 60 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا کیوں کہ 60 سال پہلے جو سیلاب آیا تھا وہ اپنے ساتھ اتنی بڑی تباہی لے کے نہیں آیا تھا اس سال کے سیلاب نے تقریبا ہزاروں لوگوں کو اپنی طغیانی کا شکار بنا لیا اور فصلوں کو روندتا ہوا اسے بھی اپنی آغوش میں سمو لیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوکے رہ گئے آشیاں اجڑ جانے کا درد کیا ہوتا ہے,  بھوک کی تڑپ کتنی ہولناک ہوتی, زندگی کا سازوسامان اچانک بکھر جانے دکھ کیا ہوتا ہے کوئی آج جا کے سیلاب زدہ لوگوں سے پوچھے نہ جانے کتنے معصوم بچے اپنی ماوں کی گود سونی کر کے نہ جانے کس جگہ جا لگے اور نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے بچوں کو یتیم کر کے پانے کی بہاو کے ساتھ ہچکولے کھاتے ہوئے نہ جانے کہاں چلے گئے نہ جانے کتنے بسے بسائے گھر ہندوستان کے نقشےسے یوں مٹ گئے جیسے کبھی انکا وجود ہی نہیں تھا۔

قارئین! یہ سرسری جائزہ تو تھا سیلاب کی بولتی تصویرون کا… اور اب نظر ڈالتے ہیں سیلاب کی وجوہات پر… ہندوستان کی تاریخ کے اوراق پر اس سے قبل  آنے والے شدید سیلاب اور اس  میں ہونے والی تباہی بھی رقم ہے۔ مگر اس سال آنے والا سیلاب اس سے قبل آنے والے سیلابوں سے کہیں زیادہ شدید ہے اور اس سیلاب میں ہونے والی تباہی بھی پہلے سے کہین زیادہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتا ہوا تیزی کے ساتھ بڑھنے والے سیلاب کے بارے میں کسی نے سوچا کہ آخر ہم اس ناگہانی آفت کی زد میں کیوں آئے…؟؟

 بکھر کر رہ گئیں کیوں اپنی عظمت کی وہ تصویریں

 ہمیں اب اپنے بارے میں بہت کچھ سوچنا ہوگا

کیا کبھی چند گھڑیاں تنہائی میں بیٹھ کر ہمارے سیاسی لیڈروں نے اپنا محاسبہ کیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا اور ہم کیا کررہے ہیں … ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے ملک کی سلامتی اور غریبوں کی خوشحالی کا نعرہ تو بلند کرتے ہیں مگر اس کے  اصولوں کے نفاذ کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کرتے… یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر جگہ گناہوں کے بازار گرم ہیں اور برائیاں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں ۔

برائیوں کی یہ آگ غریبوں کی نہیں ۔ امیروں کی لگائی ہوئی ہے۔ کیا نائٹ کلبوں کی، سنیما گھروں کی، شراب خانوں کی، قمار بازی کے اڈوں کی، حسن کے بازاروں کی، رشوت کے لین دین کی، سودی کاروبار کی، قتل وغارت گری کی، ظلم و بربریت کی، فحاشی و عریانی کی، الغرض ہر ہر برائی کی سرپرستی و نگرانی دولت مندوں نے نہیں کی…؟؟ اور آج برائیاں اور جرائم ہیں کہ حد سے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ پورا ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہے۔

 معلوم ہوئے ہم کو بہت سے تیرے قصے

 ہر بات تیری ہم سے اچھالی نہیں جاتی

اے کاش! اپنے کرتوتوں کی طرف خود ہی نظر ہوجاتی… یاد رکھئے کہ برائیاں جب حد سے بڑھنے لگتی ہیں تو پھر زلزلے بھی آتے ہیں اور سیلاب بھی چڑھتے ہیں … سابقہ قوموں سے اگر ایک گناہ ہوتا تھا تو وہ عذاب میں گرفتار ہوجاتے تھے… اور دیکھا جائے تو ان کا ایک ایک گناہ ہمارے اندر موجود ہے۔پھر بھی ہم عذاب کی لپیٹ میں نہیں آتے کیونکہ ہم امت محمدیﷺ ہیں … ہاں البتہ جب گناہ بڑھ جائیں تو اس طرح کے سیلاب اور زلزلے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لئے آتے رہتے ہیں ۔ تاکہ مسلمان غفلت کی نیند سے جاگ جائیں ۔ گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اور برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ۔

کیا سیلاب سے تباہی ملکی اور صوبائی حکومتوں کی غفلت کے باعث آئی؟

پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے اور اس کا اختیار کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، یہ سب اللہ کا نظام ہے کہ وہ اپنی مصلحت کے تحت کہیں بارش زیادہ برسا دے اور کہیں سالہا سال بارش ہی نہ ہو لیکن آج کے جدید ترین دور میں یہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان و مال کا اہتمام کرے، انھیں سیلاب سے قبل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں اور اگر صورت حال بہت زیادہ ابتر ہو تو اپنے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم ہندوستان کے سیلاب کو سامنے رکھتے ہوئے  مذکورہ نکات کا مطالعہ کریں تو ہمیں ملکی اور صوبائی سطح پر ان اقدامات پر صرف بیان بازی کی حد تک عمل ہوتا نظر آتا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی ایسے مواقع پر پوائنٹ اسکورنگ کرتی نظر آتی ہیں

اسکے برعکس ہم دوسرے ملکوں کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسرے ممالک اپنی رعایا کو لیکر کتنے حساس ہیں کینیڈا کی بات ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹورنٹو اور جھیل انٹاریو کے نشیب میں 500 کلو میٹرز دور دریائے سینٹ لارنس میں  طغیانی کا خدشہ تھا جس کے بارے میں صوبہ کیوبک کے وزیراعظم فلپی کوئیلرڈ نے دو روز قبل ہی عوام  کو متنبہ کرتے ہو ئے کہا تھا کہ دو روز میں سیلاب کے باعث بدترین صورتحال کا سا منا ہو سکتاہے مانٹریال شہر ان دنوں شدید بارشوں کی لپیٹ میں تھا جہاں اچانک شب 90 سے لے کر125 ملی میٹرز بارش کا امکان تھا سیلاب اور دریا میں طغیانی سے دو روز قبل ہی ہزاروں مکانات رہائشیوں سے خالی کروالئے گئے اور متعلقہ علاقوں میں 400 فوجی اہلکار تعینات کر دیئے گئے ۔اسے کہتے ہیں حکومت اور اسکی کارکردگی,

قارئین کرام!

اگر حکومتیں تہیا کرلیں کہ سیلاب کے خلاف کوئی ٹھوس، مستحکم، پائیدار اور مضبوط نظام بنائیں گے تو یقین جانئے کہ یہ بہت مشکل کام نہیں ہے۔جب کچھ افراد مل کر ندی کے کٹاؤ کو روک سکتے ہیں ، ایک گاؤں کے لوگ مل کر ندی کا رخ موڑ سکتے ہیں اوراس کے نقصان کو ہلکا یاکم کرسکتے ہیں تو بھلا ایک حکومت یہ کام کیوں انجام نہیں دے سکتی ہے۔ صوبہ بہار کے ضلع مغربی چمپارن کے بلاک لوریاکے ایک گاؤں برندابن کا واقعہ ہے کہ اس گاؤں سے بوڑھی گنڈک ندی گزرتی ہے، کسی زمانے میں وہ برسات کے موسم میں انتہائی خطرناک ہوجایا کرتی تھی۔ اس نے سیکڑوں گھروں کو اپنے کٹاؤ کا شکار بنالیا، ہزاروں بگہا کھیت کو اپنے دامن میں سمولیا۔ علاقہ کی دومنزلہ جامع مسجد بھی ندی کے کٹاؤ کی نذر ہوگئی ، گاؤں میں کوئی ایسا فرد نہیں ہوگا کہ ندی نے جس کا کچھ نہ کچھ نقصان نہ پہنچایا ہو،ندی کی اس ہولناکی اور خطرناکی سے پریشان ہوکر لوگوں نے اس کے رخ کو ہی بدلنے کاتہیا کرلیا۔

جی ہاں ! سننے میں عجیب لگے گا۔ایسا علاقہ کہ جو بنیادی سہولیات سے بھی محروم، نہ سڑک نہ بجلی، پھر بھی گاؤں کے مشہور عالم دین حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی کی سربراہی اور نگرانی میں برندابن گاؤں کے لوگوں نے اس کام کو شروع کردیا اہل قریہ نے اپنی انتھک محنتوں اور پیہم کوششوں سے ندی کے رخ کو موڑ کر ہی دم لیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے لوگ آج انتہائی اطمینان و سکون سے زندگی گزاررہے ہیں ، سیلاب کا پانی ان کے کھیتوں میں گھستا ضرور ہے مگر ان کے گھروں کو نقصان نہیں پہنچاتا ہے اور انہیں ہرسال نیا آشیانہ بنانے کی ضرورت نہیں پیش آتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک گاؤں کے لوگ اپنی حوصلہ مندی سے جب ایک ندی کا رخ موڑ سکتے ہیں تو بھلا حکومتیں کیوں نہیں سیلاب سے بچاؤ کے اپائے اور علاج نہیں کرسکتی ہیں ہندوستان میں سیلاب کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے اور اب بھی مسلسل ہورہا ہے۔ اگر ہمارے حکمران اپنی رعایا کے لئے سجندہ ہوتے تو پہلے سیلاب کے بعد ہی اگلے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے انتظامات کرلئے جاتے لیکن اگر سیلاب کے باعث نقصان نہیں ہوگا تو پھر یہ گدھ نما حکمران عوام کے اربوں روپے کیسے نوچ نوچ کر کھائیں گے؟

آج ایک بار پھر جب بہار، مدھیہ پردیش، آسام، اڑیشہ، اتراکھنڈاور دیگر علاقے اس مصیبت کی زد میں ہیں تو ہم ایک بارپھر باڑھ اور سیلاب کے تئیں فکر مند دکھائی دے رہے ہیں ، اس کے اسباب و عوامل پر غوروخوض کررہے ہیں ، اس سے خاتمے کے لئے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں باتیں کررہے ہیں ، اگر سیلاب آنے سے پہلے اتنی سنجیدگی دکھائی ہوتی اور محنت و جانفشانی سے کوئی حکمت عملی تیار کی ہوتی اور ہماری حکومت نے اقدام کیا ہوتا تو پھر اس پیمانے پر تباہی نہیں ہوتی_

نوجوانوں سے ایک مشورہ ہیکہ جب ملک میں اسطرح کے حالات ہوں تو اس سے بچاو کی تدبیر سونچیں اور جہاں تک ہو سکے اپنے بھائیوں کی جان ومال کی حفاظت کیلیئے اچھے تدابیر نکالیں نہ کی سیلاب کے منظر کو اپنی تفریح کا ذریعہ بنائیں اور اس منظر کے ساتھ سیلفی نکال کر کسی کی بے بسی کا مذاق اڑائیں

 کسی کی بے بسی کو مسکرا کر دیکھنے والو!

 تمہیں لے آئے اس منزل پے مستقبل تو کیا ہوگا

اللہ ہم سب کو مصیبتوں سے محفوظ رکھے اور سیلاب زدہ لوگوں کی غیب سے مدد فرمائے اور انہیں صبر کی توفیق دے آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


3 تبصرے
  1. محمد خان مصباح الدین کہتے ہیں

    السلام وعلیکم ورحمة الله و بؤكاته
    اميد کرتا ہوں آپ سب بخیر ہونگے!
    مصامین.com کے مقالات ومضامین پڑھنے کا موقعہ ملا میں واقعی اپنی خوشی کا اظہار لفظوں میں بیاں نہیں کر سکتا کیوں کہ اسکے سارے مضامین اسلامیات مذاہب سیاست ادب اور حالات حاضرہ ہر چیز پر مشتمل ہوتے ہیں جو کہ عوام کیلیے نہایت ہی مفید اور تسلی بخش چابت ہوتا ہےساتھ ہی ساتھ اسکے ہر مضمون میں نہ تو ادبی چاشنی کی قلت کہیں نظر آتی ہے اور نہ طرز تحریر میں جھول محسوس ہوس ہوتاہے مبارکباد کے مستحق ہیں اخبار کےسرپرست و مدیر اور تمام رکن اللہ آپ لوگوں کو اپنے مقصد میں کامیاب کرے اور آپ لوگوں کی خدمات کو اوچ ثریا تک پہونجائے آمین
    منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
    مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

  2. عبدالجلال خان کہتے ہیں

    بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے مجھے پڑہکر بہت اچھا لگا اور یہ جان کر کی یہ ہمارے ساتھی محمد خان کی لکھی ہوئی ہے

  3. محمد خان کہتے ہیں

    بہت بہت شکریہ عبد الجلال بھائی
    ہمت افزائی کرتے رہیئے اور اپنے مفید مشورے سے نوازتے رہیئے
    اللہ کو سر بلندی عطا کرے آمین

تبصرے بند ہیں۔