سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ: ایک عملی مفکر

عمر سلطان

مترجم : بانی عمر

بیسویں صدی کے عظیم مفکر سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی تحریروں نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل کے رکھ دیں بلکہ اُن میں زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کاشعوربھی پیدا کیا۔مولانامودودیؒ ایک دلنشین مصنف، سحر انگیز انشاء پرداز، اسلامی اسکالر، مفکر اور مفسرقرآن کے ساتھ ساتھ معاصر احیاء و اقامت  دین کے لئے سرگرم عظیم الشان تحریک  جماعت اسلامی کے بانی بھی تھے۔ اس لحاظ سے وہ خود بھی اسلامی تحریک احیاء کے ایک عملی کارکن تھے۔ پاکستان کے مؤقر انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق ’’ مغربی اور جنوب ایشائی مؤرخین مولانا مودودی ؒ کو بیسویں صدی کا ایک ایسا قوی اسلامی مفکر قرار دیتے ہیں جن کی تحریروں اور خیالات نے دنیا کی بیشتر مسلم جماعتوں کو متاثر کیا ہے۔‘‘The Oxford Encyclopedia of Modern Islamic World  میں مولانا مودودیؒ کا تعارف یوں کیا گیاہے ؛ ’’ مولانا مودودی  ؒاپنے ہم عصر علماء کے اندرایک جاندار اور عہدساز آواز تھے۔مولانا کے نظریۂ اسلام نے مراکش سے لے کر انڈونیشیاتک کئی اسلامی جماعتوں اور شخصیات کو متاثر کیا ہو ا ہے۔آپ کی توضیحی مطالعہ اسلام نے فکر احیاء دین کے اظہار و بیان پر گہرے نقوش ثبت کئے۔جس کا اثرمصری مصنف سیدقطبؒؒ کی تفسیر ـ’فی ظلال القران ‘   اور  الجیریا، ایران، ملائشیا اور سوڈان میں احیاء اسلام کے لئے سرگرم نا مورمسلم شخصیات کے افکار و عملیات میں نمایاں طور پایا جا تا ہے۔ آپ کی تشریحی  تحریرات نے مسلمانوں کے خواص و عوام میں رائج روایتی طرز فکر کے اندر انقلاب برپا کرکے ایک نئی جہت اور طُرح بخشی۔ اقامت دین کے لئے آپ کی قائم کی گئی تحریک کسی مو جود سیاسی منظرنامے کا رد عمل نہیں تھا اور نہ ہی اسے  کسی صورت میں اُس زمانہ کے دائیں بازو نظریات کے مدمقابل میں کوئی ’’جوابی بنیاد پرستانہ ‘‘ ردعمل کے طور دیکھا جاسکتا ہے۔ بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ  مولانا کی برپا کردہ تحریک دراصل ایک واضح مقصد اور غایت درجے کے غور و فکر کا نتیجہ تھی جو امت مسلمہ کو قدم قدم پر درپیش مسائل کے حوالہ اور چلینجوں کے تناظر میں منصہٗ شہود پر لائی گئی۔ اقامت دین کی خاطر اپنی اس سعی کے لئے مولانا مودودیؒ نے دیگر بیانیوں کے برعکس کسی بھی نئے طریقہ کار کی تجویز نہیں دی بلکہ انھوں نے زمان و مکان کے تقاضوں اور اسلام کی عالمگیر افادیت اور مطابقت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسلام کو ایک عملی دین کے طور پر پیش کیا۔ دنیا کے عظیم مفکرین اور دانشوروں کی طرح آپ کی شخصیت و فکر بھی زمانے کی شر انگزیوں اور تنقیدو تنقیص سے محفوظ نہ رہی۔ اس کے باوجود احیائے اسلام کی معاصرمباحث میں اُن کا بیانیہ سب سے زیادہ زور آور مانناجاتا ہے۔مولانا مودودیؒکے بارے میں اس بات کو عمومی طور تسلیم کیا جاتا ہے کہ ’’ وہ معاصر اسلامی مفکروں میں ایک مؤثر ترین آواز تھی جس کے افکار و خیالات نے مراکش سے لے کر ملائشیا تک احیائے دین کی تحریکوں پر اپنے اثرات مرتب کئے۔‘‘

مولانا مودودی ؒ کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے سادہ اور عام فہم زبان میں مروجہ اصطلاحات اورمحاوروں کے ذ ریعے اپنے وقت کے اہم اور حساس مسائل پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تحریر کردہ لٹریچر نے ایک ساتھ لاکھوں طلباء، دانشوروں اور عام لوگوں کو متاثرکیا۔مولانا مودودیؒ نے اپنے بہت سے معاصرین یاسابقین کی طرح اپنے نظریہ کو مبہم اور نہ ہی لفاظی کے لبادے میں لپییٹ کر رکھا۔ قارئین کے فکرو احساس کو اپیل کرکے انہیں خیالی دنیا اور گنجلک افکار میں بھٹکنے سے محفوظ رکھا۔ اُن کی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ اورفکر انگیز ہونے کے ساتھ جامع اور برمحل ہیں جووقت کی رعنائیوں سے قریب قریب کا تعلق رکھتی ہیں۔ اسلامی عقیدہ اور مبادیات کے بنیادی اصولوں کے حوالے سے مولانا کسی مصالحت کے قائل نہیں ہے۔مولانانہ تو انتہاپسندی کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اسلام کے حوالے سے کسی معذرت خواہانہ رویہ کے قائل ہیں بلکہ اعتدال پر مبنی بے کم وکاست اسلامی نظریہ کے علمبردار، سچے مسلمان اوراسلام پسند ہیں۔ پروفیسر خورشید کے بقول آپ ایک ایسے ’’عملی مفکر‘‘ ہیں، جس نے اسلامی طرز حکمرانی کا ماڈل ازسر نو دنیا کے سامنے پیش کیا۔جو  مسلمانوں کے فکری جمود، علمی پستی او رسیاسی تابعداری کی وجہ سے دھندلا ہٹ کا شکار ہو چکاتھاجو کئی صدیوں سے جاری مسلم دنیا کے سماجی ساخت پرداخت کی شکست و ریخت اور غیر محسوس اور بے وزن سیاسی قوت کے نتیجے میں سُرایت ہو چکا تھا۔اسلامی انقلاب کو معرض وجود میں لانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے مولانا مودودی ؒ  بیک وقت دو طریقہ کار پر عمل پیرا ہوئے۔ ایک یہ کہ اُمت مسلمہ کے اندر ایک متبادل نظریاتی قیادت کی فراہمی کے لئے منہمک ہوگئے اور دوسری طرف سماجی تبدیلی کے لئے جدوجہد میں ہمہ جہت انداز میں مصروف عمل ہوگئے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ مولانا مودودی ؒ کو اُس کی تحریروں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آپ کی شخصیت اور آپ کے مشن اقامت دین سے متعلق لایعنی اور بے بنیاد مفروضوں کو پھیلا یا گیا ہے تاکہ اس کی آواز جو مانند آذان سحر اُمت مسلمہ میں نئی صبح طلوع کرنے کی سمت میں بڑھ رہی تھی کی راہ کو روکا جائے۔ منفی پروپگنڈا اور فتنہ پردازی سے اسے متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن اللہ علیم وخبیر کو مو لانا کے حق میں کچھ اور ہی منظور تھا۔ باوجودیہ کہ آپ کے خلاف فرسودہ پروپگنڈا کی بھر مار کی گئی، من گھڑت اور حقیقت سے عاری افواہیں پھیلائی گئی، سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنے زمانے میں ایک ممتاز و کرشماتی اسکالر کے طور نمودار ہو گئے۔ جو فکر کے لحاظ سے بہت ہی روشن اور اعتدال ومتوازن سوچ رکھنے والے دانشور کے طور دنیا کے سامنے متعارف ہوگئے۔اپنے فلسفے اور فکر کی ترویج و فروغ کے لئے مولانا مودودیؒ نہ تو جبر و اکراہ کی وکالت کرتے ہیں اور نہ ہی وہ بے معنی اہنسا میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ تمام کوششیں جو مولانا ؒ کو متشدد اور انتہاپسند ثابت کرنے کے لئے کی جاتی رہیں اُس وقت کھوکھلی ثابت ہو جاتی ہیں جب اُن کی شاہکار تحریروں کا براہ راست مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اسلامی تحریک اور اس کے نظریہ ساز افراد کے لئے ایسے بھونڈے الزام اور پُرفتن شوشے پانی کے بلبلے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام ایک نظام حیات کے طور اپنے فلسفے کی تعمیر و تشہیر میں مولانا مودودی ؒ ہمیشہ سے پر امن جدوجہد کے دعوے دار رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے لئے وہ اپنے کارکنوں کو روز اول سے پرامن طریقہ کاراو ر بغیر کسی دھونس دباو کے دلائل و حقائق کی روشنی میں لوگوں کے سامنے اپنا نقط نظر پیش کرنے کی تاکید کرتے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی مولانا مودودیؒ روح سے عاری اور بے معنی اہنسا کے قائل بھی نہیں تھے۔ اس حوالے سے آپ نے اپنی معر کتہ الآرا کتاب ’’الجہادفی السلام‘‘ میں مفصل اور مدلل بحث کرکے اسلام کے تصورجہادکے اصول ومبادی اور خدوخال پیش کئے ہیں۔ اسلام کے اس مقدس رُکن سے متعلق لاعلمی کی بنیاد پر کھڑا کئے گئے مفروضوں اور رائج الوقت خدشات کی نشاندہی کی ہے۔ مقبوضہ مسلم علاقوں کی جدوجہدآزادی کے حوالے سے مولانا کا نقطۂ نظر اگرچہ مختلف ہے لیکن آپ مروجہ بین الاقوامی قوانین بشمول اقوام متحدہ چارٹر اور اس کی قراردادوں کی پاسداری کے روادار بھی ہیں البتہ ان کوعملانے پر کسی تعصب اور جانبداری سے کام لینے پر بیزار بھی ہیں۔ مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدو جہد سے متعلق کئے گئے کئی سوالات کے جواب میں مولانا ؒ کہتے ہیں ہیں کہ مختلف ممالک میں مختلف صورتحال ہونے کے پیش نظر وہاں کے حالات و واقعات مقامی حکمت عملی کی متمنی ہیں، ہر مقام اور پر جگہ پر متعین شدہ ایک ہی لائحہ عمل اور حکمت عملی کارگر نہیں ہو سکتی ہے بلکہ فی الاصل کسی جگہ کے مقامی حالات اس ضرورت کو سامنے لاتے ہیں کہ وہاں پر جدوجہد کا کو نسا طریقہ اختیارکیا جائے۔ اپنے اس نقطہ نظر کو  اپنی کتاب ’’تصریحات ‘‘ میں مولانا غیر مبہم اور واشگاف انداز میں یوں پیش کرتے ہیں :’’ان حالات کے اندر میرے نزدیک اس بات کی بنیادی اہمیت ہے کہ اسلامی انقلاب کے لئے خفیہ اور زیرزمین طریقہ کار اور تمام اشتعال انگیز سرگرمیوں اور خون خرابہ سے صریحاً اجتناب کیا جائے۔ ‘‘یہاں تک وہ لوگ جو مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے، وہ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے کبھی بھی اپنے اقامت دین کے مقصد کے حصول کے لئے انتہا پسندی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ ان میں ایرانی نژاد امریکی مصنف اور ماہر خارجہ پالیسی سید ولی رضا نصر کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ سید ولی رضا نصر اپنی کتاب "Maududi and Making of Islamic Revivalism میں رقمطراز ہیں کہ ’’ مولانا مودودی نے عوامی اور مقبول موضوعات کی ہیراپھیری کرنے والی عوام پسند جماعتوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے۔انھوں نے ہمیشہ قانونی حد بندیوں کا احترام اور اخلاقی اقدارکا پاس و لحاظ ملحو ظ نظر رکھا ہے اور بالخصوص آپ ہمیشہ سے تشددآمیز راستوں اور طریقہ کار کے مخالف رہے ہیں۔ تشدد اور زبردستی کی پالیسی اختیار کرنے کے حق میں وہ نہ کبھی رہے اور نہ اسے کبھی اختیار کیا۔ ‘‘

مولانا مودودیؒ کسی بھی غیر روایتی طریقہ کار اور ذرائع کی مدد سے سیاسی طاقت حاصل کرنے کے خلاف تھے۔وہ اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ انتہا پسندی اور طاقت کے ذریعے سے لائی گئی تبدیلی نہ صرف خلافِ فطرت ہوگی بلکہ غیر مستحکم اور ناپائیدار بھی ہوگی۔اس کے برعکس وہ اسلامی عقیدے کے اصولوں  کی بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر نو عوامی بیداری، تعلیم  اور علم کی مختلف شاخوں  میں اصلاح کرنے میں یقین رکھتے تھے، سید نصر آگے لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی  ؒ اسلامی نظام کی تشکیل میں سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول میں روایتی اقدار کے پاسدار رہے ہیں نہ کہ ان سے کو ئی انحراف کیا ہے اور نہ ہی یہ روایات اسے اپنے حصول مقصد میں کسی طرح سد راہ ثابت ہوئے ہیں ۔ اپنے نظریہ کی فطری برتری اور یقینی کامیابی کے باوجود بھی مولانا مودودیؒ نے کبھی ہنگامہ بازی اورر احتجاجی سیاست کا سہارا نہیں لیا، جو آگے چل کر اُن کو سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے اصولی و اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتے اور نتیجتاً اس کے اپنے نظریہ اقامت دین کی شبیہ کو متاثر کرنے کا باعث بن جاتے ۔ سیدولی نصر مولانا مودودیؒ کو اُن نا مور شخصیات میں ایک اہم شخصیت قرار دیتے ہیں جن کی داستان حیات مستعار اور دانشورانہ صلاحیتیں براہ راست احیاء اسلام سے وابستہ رہیں اور اسے سماجی تحریک کاروپ دھارنے کا موجب بنیں۔ مولانامودودیؒ ایک مفکر اور ایک نظریہ ساز شخصیت تھی اور اُن کو فلسفیوں اورصوفیوں سے جوڑنا یا اُن کو فلسفہ اور تصوف کے جہانوں میں دریافت کرنے کی کوشش کرنا یقیناً اُن کی شخصیت سے ناانصافی ہو گی۔ جو لوگ  جماعت اسلامی کے کارکنوں اور مولانا مودودیؒ کے محبان پر یہ بے تُکا الزام لگاتے ہے کہ وہ مخصوص اُن کی کتابوں سے آگے نہیں بڑھتے، اُن کی یہ رائے اُس وقت بے وزن ہو کر ر ہ جاتی ہے جب اس حقیقت سے آشنائی ہوتی ہے کہ اس رجل رشید  نے نہ صرف اپنے ہم نواوں بلکہ تمام مسلمانوں کو اُبھار ا ہے کہ وہ مطالعہ کو اپنا حرز جان بنائیں۔ مغربی نظریہ سیاست و فلسفہ کو نہ صرف پڑھنے کی حد تک پڑھیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش بھی کریں اور ان کے علوم میں اعلی درجہ مہارت حا صل کریں۔

آج سید ابو الاعلی مودودی کے ۱۱۵ ویں سالہ ولادت کے موقعہ پر یہ بات کہنے میں کو ئی عار و باق نہیں ہے کہ مو لانا مو دودی کے افکار و نظریات معاصر احیاء اسلامی کی تحریکات میں معانی و عمل کے لحاظ سے نہ صرف متعلق و بر محل اور قابل تقلید ہیں بلکہ تقاضہ ہائے وقت بن گئے ہیں۔ آپ نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ پوری عالم انسانیت کے لئے امید و رجاء کی آواز اور عدل و انصاف کے علمبردار تھے۔ مو لانا مودودی ؒ کے مشن و پیغام اور مقصد کو سمجھنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کی تحریر و تصانیف کو بغیر کسی تعصب و عناد کو پڑھا جائے بجائے یہ کہ کہ آپ کے متعلق پڑھا جائے۔

٭٭٭

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ماشاءاللہ۔بہت خوب۔
    شدیدمصروفیات کی بناپرکچھ اظہارخیال نہیں کرسکتا،بس طبیعت عش عش کراٹھی پڑھ کر۔

تبصرے بند ہیں۔