سیکولرزم (Secularism) یعنی لادینیت

اللہ بخش فریدی

سیکولرزم جمہوریت کا ایک اہم جزو ہے اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیرگواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تو وہ اپنی زندگی میں انفرادی حد تک بخوشی اپنے خدا کی عبادت کرے،اگر کسی کا ضمیر مانتا ہے کہ کوئی رسول ہے، کوئی آسمانی کتاب یا صحیفہ ہے اور اس پر ایمان رکھنا چاہیے تو وہ بس ان پر ایمان اور یقین اپنی ذات کی حد تک ہی محدود رکھے اور اسے دوسروں تک لے جانے کی جرات نہ کرے،ان کے ساتھ اپنا صرف پرائیویٹ تعلق رکھے باقی دنیا اور اس کے معاملات سے خدا، رسول اور کتاب و مذہب کے کسی قسم کے تعلق کو جوڑنے کی کوشش نہ کرے اگر کوئی ایسا کرنے کی جسارت کرے گا تو وہ مذہبی انتہا پسند قرار پائے گا۔

میں نے سیکولرزم کو معانی کئی معروف ڈکشنری میں تلاش کیا کہ اس کی تہہ کو پہنچاجائے۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق ’’سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام سیکولرزم ہے‘‘۔ امریکن ہری ٹیج ڈکشنری کے مطابق ’’اجتماعی معاملات مذہب کو شامل کیے بغیر چلانے کا نام سیکولرزم ہے‘‘۔ آکسفورڈ، مریم ویبسٹرز اور دیگر معتبر انگریزی لغات کے مطابق سیکولرزم کی تعریف یہی ہے کہ مذہب اور خدا اگر ہیں بھی تو انفرادی زندگی تک، اس سے آگے جانے کی ان کو اجازت نہیں ۔

اس نظریہ کی بنیاد پر جس نظام زندگی کی عمارت اٹھتی ہے اس میں انسانوں کا آپس میں اجتماعی معاشرتی تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا، رسول اور کتاب و مذہب سے آزاد ہیں ۔ دین ہے تو اس سے آزاد، معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم و تہذیب ہے تو اس سے آزاد، کوئی دینی قوانین، اصول و ضوابط ہیں تو اس سے آزادکر کے انسان کو خود مختاری کا درس دیتا ہے کہ جو انسان سوچے، سمجھے، جو اس کا دل چاہے، اس کی طبیعت، اس کا نفس جس خواہش کا اظہار کرے کر گذرے، دنیا کی کوئی چیز اس کی راہ میں روکاوٹ اور مانع نہ ہو۔ زندگی کے بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طے کیاجائے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جائے۔ ملک چلانے کا آئین و دستور ہے تو لوگوں کی اجتماعی خواہش کے مطابق بنے، پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے وقت انسانوں کے خیالات، سوچ، فکر اور خواہش کو مدنظر رکھا جائے اور کسی مذہب، دین یا کتاب کی طرف نہ دیکھا جائے ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام مقرر کیے ہیں یا نہیں ۔

 یعنی سیکولرزم اس نظریہ کا نام ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کو کسی بھی دین اور مذہب کے معاملات سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھا جائے اور چلایا جائے۔ جمہوریت کا یہ تصور انفرادی زندگی میں تو کسی خدا، رسول اور کتاب کو ماننے کی اجازت دیتا ہے لیکن اپنے اجتماعی معاملات اس خدا اور دین کے حوالے کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ کسی مذہب کو اپنے اوپر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتاہاں اگر کوئی بھی مذہب اس کے تابع رہنا چاہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں۔

اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خود مختاری اختیار کرے تو یہ اپنے خالق، مالک اورحاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اور پھر اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں ، صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تواس کے بندے نہ رہیں بلکہ خود قادرمطلق اور خودمختار بن جائیں اور اجتماعی معاشرت کے قانون اپنی سوچ اور خواہش کے مطابق ترتیب دیں ۔ جبکہ اس پوری کائنات کا خالق، مالک و مختار اللہ واحد ہے اور وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے اجتماعی معاشرت کے قانون کو مانا اور اسی پر نظام حکومت چلایا جائے۔ لیکن موجودہ نظام جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نظام میں مذہب کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔
حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو 
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 

جب دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے تو وہ ظلم، ستم، جبر اور زیادتی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتایعنی مذہبی اخلاقیات سے اگر کوئی طرز حکومت خالی ہوگا تو وہ چنگیزیت بمعنی ظلم و جبر ہی رہ جائے گا۔ اسلام باقی مذاہب سے یکسر مختلف ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ یہ ایک مکمل دین، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ کسی بھی ملک، ریاست اور معاشرہ کیلئے ایک مکمل آئین بھی ہے اور ایک مکمل دستور بھی اور لائحہ عمل بھی۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر کوئی نام نہاد مسلمان آئین و دستور بنانے کی بات کرے تو وہ عقل کا اندھا، اللہ و رسول ﷺ کا باغی، مغرب کا ایجنٹ اور نفس کا بندہ ہی ہو سکتا ہے۔

زندگی کا کوئی شعبہ خواہ وہ سیاست ہو، تجارت ہو، شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول و ضوابط ہوں کوئی شعبہ اسلام سے باہر نہیں رہ سکتا، اسلام ہر شعبہ ہائے زندگی کے رہنما اصول دیتا ہے۔ اسلام ریاست کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے باغی ہو کر نظام زندگی چلائے۔ اسلام ریاست سمیت کسی کی ماتحتی قبول نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک منظم جماعت بنانے کی دعوت دیتا ہے جس کا کام نہ صرف انفرادی و اجتماعی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی پیروی کرنا اور کرانا ہو بلکہ پورے کے پورے دین کو بطور نظام زندگی نافذ و غالب کر دینے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ وہ سیکولرز م کی طرح اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے غلبے کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اسے بزور قوت دور کر دویا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کر کے کچھ مان کر کچھ اپنی منوا کر معاملہ ختم کر دو۔ اسلام تو کہتا ہے کہ اس وقت تک لڑتے رہو، مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ثبت قدم رہو جب تک کہ اسلامی نظام حیات پوری دنیا میں غالب نہ آ جائے۔

اسلام اور سیکولرازم ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت جبکہ سیکولرازم کا مطلب ہے بندوں کی حاکمیت، بندوں کے اداروں ، بندوں کی خواہشات و مطالبات کی حاکمیت۔ کوئی آدمی اگر ہندو، عیسائی اور بدھ مت ہو تو سیکولر رہ سکتا ہے لیکن مسلمان بیک وقت سیکولر اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے قرآن اور سیرت رسول ﷺکے ایک بہت بڑے حصے کا واضح انکار کرنا پڑے گا۔ جبکہ دین کے تو ایک واضح نکتے کا انکار بھی کفر ہے اور خدا کے سخت غصے اور غیظ و غضب کا باعث۔ جیسا کہ قرآن کریم سخت انتباہ و ڈانٹ پلاتے ہوئے فرما رہا ہے

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبِعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا وَ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِo (البقرۃ 85:2)

’’کیا تم کتاب الٰہی کی کچھ باتوں پر تو عمل کرتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ؟ یاد رکھو! اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں بد ترین عذاب کے سوا اورکچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ‘‘

جو لوگ مسلمان ہوئے ایمان لائے اللہ جلاشانہ پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر اور جن کا آخرت میں یوم حساب، جزا و سزا پر یقین ہے انہیں اللہ کریم دین میں پوری طرح داخل ہو جانے کی نصیحت فرما رہے ہیں ۔

یَّاأَیُّھَا الَّذِینَ آمَنْوا اَدْخُلُوا فِیْ السِّلمِ کَافَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ اِنَّہُ لَکُمْ عَدْوٌّ مُّبِیْنٌo فَاِنَّ زَلَلْتُمْ مِّن بَعدِ مَا جَاءَ تُکُمُ البَیِّنَاتُ فَاعْلَمُوْاَنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌحَکِیْمٌ o (البقرۃ 208)

اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ اور شیطان کے گمراہ کن راستوں کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ پھر اگر کھلے دلائل پہنچ جانے کے بعد تم (راہ حق سے) پھسل جاؤ تو (اچھی طرح) جان لوکہ اللہ زبردست ہے (تم اس سے کے غضب سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے ) اور وہ حکیم ہے۔ (عذاب میں تاخیر اس کی حکمت پر مبنی ہے )۔

مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ طیبہ کا اقرار کر لینا شرط نہیں ہے۔ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونا مقصد ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین فرما دی ہیں ، ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی میں ایمان و اسلام کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے جس پر کفر اور منافقت کی چھاپ ہو۔ اسلام کی تمام ممنوعات سے بچا جائے اور احکامات پر عمل کیا جائے یہ ایمان کی اصل ہے۔ دین اسلام کی بعض باتوں کو قبول کر کے ان پر عمل کرنا اور بعض باتوں کو جان بوجھ کر چھوڑنا یہ ایمان والوں کا کام نہیں ہے، یہ اہل حق کا طریقہ نہیں ہے یہ اہل کتاب کی خصلت ہے جو کہ مردود ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات کسی درجے بھی قابل قبول تو درکنار قابل برداشت بھی نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ذات و صفات میں ، اس کے احکامات و ہدایات میں ، اس کے حقوق و اختیارات میں ، اس کے عطا کردہ دین اور ضابطہ حیات میں کسی جگہ بھی کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔ قرآن دین میں پورے کے پورے داخل ہو جانے کی تلقین کرتا ہے۔ خداکا دین پوری کی پوری انسانی زندگی پر محیط ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے، اس کاکوئی حصہ اختیاری نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ اتنا تو مانوں گا، اتنے پر تو عمل کروں گا اور اتنے پر نہیں کروں گا، ان ان معاملات کی حد تک تو اس کی پیروی کروں گا اور ان کے سو اباقی معاملات میں اپنی یا کسی اورکی مرضی پر چلوں گا۔ خدا کے دین میں سودے بازی اور کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ تو زندگی بسر کرنے کا ایک متعین طریقہ ہے اور ہر شعبہ زندگی کیلئے واضح احکام و ہدایات جاری کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یا اس پر چلا جائے یا اس کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل کیا جائے۔ اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے۔

وَ مَن یَّبتَغِ غَیرَ الاَ سلَامِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الاٰ خِرَِ مِنَ الخٰسِرِینَo (آل عمران:85)

اور جو اسلام کے سوا کو ئی اور دین لے کر(رب کی بارگاہ میں )آئے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

جس معاشرہ کا نظام لادینیت یا دنیاوی اصولوں پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ، جس طرح ہم آئے روز آئین میں ترمیم کی بات سنتے رہتے ہیں کہ آج آئین کے فلاں آرٹیکل میں ترمیم ہو رہی ہے۔ فلاں آج کے حالات کے مطابق صحیح نہیں رہا اس لیے تبدیلی ناگزیر ہے۔ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی،قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں ۔ دوانسانوں کے تعلق سے لیکرقوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہرایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب اور مفاد کے مطابق اصول اور قاعدے بنالیے ہیں ۔ خدا کے بندے بننے کی بجائے اپنے نفس، خواہشات اور مفاد کے بندے بن گئے ہیں ۔ پس لادینی اور دنیاویت کاماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیارکرے گا بے لگام، بدمست، غیر ذمہ دار اور نفس کا بندہ ہوکر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔
اسلام کئی صدیاں دنیا کا غالب نظام زندگی رہا۔ مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایک لمبا عرصہ حکومت کی۔ ح

کومت اور اقتدار چھن جانے کے بعد اسلام نے باقی مذاہب کی طرح کمپرومائز نہیں کیا کہ ان ان معاملات کی حد تک مجھے رہنے دو اور باقی معاملات میں اپنی اجتماعی سوچ کو اپنا لو۔ بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرکے اس کے ماننے والوں نے پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کر دیاہے اور اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کی تمام سیکولر طاقتیں آج مل کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچارہی ہیں ، ثقافتی اور تہذیبی یلغار کی جارہی ہے، علمی طور پر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں ۔ اسلام کے ماننے والوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ باقی مذاہب کی طرح آپ بھی اسلام کو ایک محدود مذہب تصور کرلیں ۔ ریاستی معاملات میں مذہب کو نہ لائیں ۔ لیکن تمام تر کمزور ی کے باوجود آج پوری دنیا میں اسلامی تحریکیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں ۔ خود مغربی اداروں کے مطابق اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر علاقے میں ایک مضبوط قوت کے طور پر بھی سامنے آرہا ہے۔ کئی ممالک میں تو یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ بہت جلد آباد ی کا تناسب الٹ جائے گا یعنی آج کی اکثریت کل کی اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ وقت دور نہیں جب اسلام ماضی کی طرح پھر پوری دنیا میں غالب آ جائے گا۔ اس قوت کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اللہ پاک نے جو نظام بنایا اس سے نہ کوئی بہتر ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بہتر لا سکتا ہے۔ اور اللہ پاک نے دین محمد ہم کو دیا جس میں نہ کمی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی زیادتی ۔ جو زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ جس میں انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی کیسا برتاؤ کیا جائے بتاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگوں کو سیکولرازم ہی دل کو بھاتا ہے۔ اسلام اور سیکولرازم کی مثال ایسے ہی ہے جیسے خنزیر اور بکرے کا گوشت۔ اسلامی تعلیم فرق واضح کرتی ہیں کہ یہ حلال اور وہ حرام ہے لیکن سیکولرازم میں آزادی کہ جس پر دل کیا حلال کر لیا۔ جیسا کہ کافی لوگ چاہتے ہیں کہ سیکولر نظام ہو تاکہ وہ ہر طرح کی آزادی حاصل کر سکیں جیسا کہ کہا کہ مرد عورت ہاتھ ملا سکتے ہیں لیکن ان کو بھی اگر کہا جائے کہ اپنی بیٹی محفل میں لائیں اور سب ان سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں تو وہ بھی ہزار بہانے تلاش کریں گے کیونکہ کہ ہم اپنے گھر والوں کےلئے اسلامی سوچ چاہتے ہیں لیکن دوسرے کے گھر والوں کےلئے سیکولر۔ ہم نفس پرستی میں دین تک کو بھول گئے۔ دور سے پہاڑ خوب صورت نطر آتے ہیں لیکن جب پاس جائیں سب ختم ایسے ہی ہمیں امریکی اور سیکولر نظام بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن جن اقوام نے اس کو اپنایا ہوا یہ وہ اس سے اتنے تنگ ہیں کہ شادیاں کم گرل فرینڈ زیادہ، طلاق زیادہ زنا عام ، بدن ننگے، خودکشی زیادہ اور ایسے بہت سے جرائم کا شکار ہیں۔ آج وہ لوگ اسلام قبول کر کے خوش ہوتے ہیں سکون محسوس کرتے ہیں لیکن ہم کو ہیں کہ اس جہنم کو پکار رہے ہیں۔ حلال حرام ایک نہیں ہو سکتا۔ ہمارا مذہب ہمیں کچھ حدود مہیا کرتا ہے
    ہمیں اپنا اسلامی نظام کی بات کرنی چاہیے ناکہ سیکولر ازم کاپرچار کیوں کہ ہمارے سامنے جنت دوزخ ہے

تبصرے بند ہیں۔