سی سی آر یو ایم کی حالت زار کا نوحہ!

پرانی اور مہلک بیماریوں کے قابل اعتماد علاج کیلئے عالمی شہرت رکھنے والامقبول عام طریقۂ علاج یعنی طب یونانی آج اپنے زوال کا ماتم کررہی ہے ۔حدتو یہ ہے کہ قریب مرگ پہنچ چکایہ فطری طریقہ علاج یعنی طب یونانی اپنی بقااور وجو د کیلئے حکومت کی توجہ کا محتاج بن گیاہے۔طب یونا نی کی حالت زار دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ بنی نوع انسانی کیلئے شفاکاسامان کرنے والا بڑاادارہ آ ج خود ہی ’’بیمار‘‘ ہوگیا ہے ، پھر بھی اس کا علاج ممکن ہے ،بشرطیکہ حکومت سنجیدہ ہواورملک میں طب یونانی کی ترویج و ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرکار کے ذریعہ مامور کئے گئے اعلیٰ افسران اورسرکاری بابوؤں کواعلیٰ عہدہ مغرور نہ بنادے تبھی یہ ممکن ہوسکے گا۔

ان کی ذات سے فن شریف کواسی وقت نفع حاصل ہوپائے جب عہدہ پانے کے بعد یہ لوگ مغرور ہونے کی بجائے سراپا عجز و انکساری کا پیکر بن جائیں ،حالانکہ ہمارے معاشرتی نظام میں ایسی خوبیاں بہت کم لوگوں کے حصے میں آ تی ہیں ، جو عہدہ پانے کے بعد آسمان پر پیرنہیں رکھتے اور عہدے کا دھونس جمانے کی بجائے زمین سے جڑے رہتے ہیں ۔مگراب ایسے خداترس اور فرض شناس ہستیوں کی تعداد آٹے میں نمک برابر رہ گئی ہے ۔اس کے بر عکس آج کے مسلم افسران میں سے زیادہ ترلوگ عہد ہ اور سرکاری ملازمت کی طاقت کا بھر پور لطف اٹھاتے ہیں ۔اگر کوئی ضرورتمنداسکالر اپنا علمی مسودہ لے کران کے پاس جائے تو اسے دیکھتے ہی افسرصاحب کا چہرہ لٹک جا تا ہے۔ناک پر فوراًرومال ڈالیں گے تاکہ آپ خود ہی یہ محسوس کرلیں کہ آپ کے وجود سے ان کے دفترکا سارا ماحول آلودہ اور متعفن ہوگیا ہے۔

اس بات کی بھنک ملتے ہی کہ آپ سی سی آر یوایم کے توسط سے تحقیقاتی کام کیلئے مالی تعاون کے خواہشمند ہیں وہ سراپا سرخ ہوجائیں گے، طرح طرح کے بہانے تراش کریں گے۔تاکہ اپنی طبی تحقیق کے سفرمیں خود بخود آپ کا حوصلہ ٹوٹ جائے اور ناچار ہوکرآپ سپر ڈال دیں ۔ حالاں کہ یہ افسر شاہ اس جانب ذرہ برابر دھیان نہیں دیتے کہ طب یونانی کی جدید تحقیق اورترویج کیلئے حکومت انہیں سالانہ کروڑوں روپے دیتی ہے۔یہ رقم بابوؤں کے جیب کی نہیں ہوتی ،پھربھی وہ یہ نہیں چاہیں گے کوئی باصلاحیت ،قابل اور پرذوق شخص اپنی لگن ،محنت اور سرکاری ادارہ کے مالی تعاون کی بدولت ترقی کی معراج حاصل کرلے۔سرکاری بابواپنا منہ بگاڑلیں گے اور ان کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر آپ کو ان کے  پولیو زدہ ہونے کا شبہہ ہونے لگے گا۔چہرے پرآنے والے اتار چڑھاؤ سے گمان ہونے لگے گا کہ شاید ابھی ابھی گناہوں کی سزاپر مامور فرشتے نے ان کی اچھی خاصی تواضع کی ہے۔اتری ہوئی شکل دیکھ کر یقین ہونے لگے گا کہ کائنات کے عظیم خالق نے ان کے قلب و دماغ سے خلوص اور حسن اخلاق کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیا ہے۔

لہجہ سے ایسا غرورٹپک رہا ہوگا جیسے فرعون کے اباجان نے ان کی شکل میں دوبارہ جنم لیا ہے ۔حالانکہ ہم اہل ایمان ’’پنرجنم ‘‘ کو نہیں مانتے اورکوئی ایسی ٹھوس سائنسی دلیل بھی ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہوکہ ’’پنرجنم ‘‘کا عقیدہ جائزہے۔ مگر یہیں اگر ملاقاتی کوئی سرمایہ دار ہو،یا کسی سے ذاتی منفعت بھرپور امید ہوتو معاملہ با لکل اس کے بر عکس ہوجائے گا۔جیساکہ ہم نے مضمون کے ابتداء میں ہی عرض کردیاہے۔

اس وقت کچھ اسی قسم کی صورت حال ملک میں طب یونانی کی ترویج اور فروغ کے لئے قائم کردہ سر کاری ادارہ سی سی آر یو ایم کی بھی ہے۔ایک جانب حکومت ہند مذہبی مخاصمت کی بھڑاس نکالنے کیلئے سی سی آر یو ایم میں اب تک مستقل ڈائریکٹر جنرل کی بحالی نہیں کر رہی ہے ۔جبکہ اس کی جگہ پر کارگزار ڈائریکٹر نام کی دیمک زدہ بیساکھی سی سی آر یوایم کے ناتواں ہاتھوں میں تھمادی گئی ہے۔

ہم امت مسلمہ کے ساتھ غالباًیہ اللہ کی پھٹکار ہے کہ ہندوستان میں جہاں بھی کوئی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز کیاجاتاہے ،وہ کرسی سنبھالتے ہی اس قدر مغرور ہوجاتا ہے کہ عام لوگوں ،خصوصاً اپنے سے نیچے کے لوگوں کو اپنے برابر بیٹھنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ اپنی بدقسمتی سے اگر آپ غریب ہیں اور تلاش معاش کی بھٹی میں مستقل تپنے کی وجہ سے اپنے چہرے کی چمک کھوچکے ہیں تو اعلیٰ عہدہ پر فائز بابو آپ کے سلام کا جواب دینے کو بھی اپنی توہین سمجھیں گے۔ البتہ اگر آپ صاحب سرمایہ اور زردار ہیں تو یہی سرکاری بابو آپ کو دور سے ہی دیکھ کر کھڑے ہوجائیں گے،ہونٹوں پر مصنوعی تبسم رقص کرنے لگے گا اور چندقدم آگے بڑھ کروالہانہ انداز میں خوش آمدید کہیں گے اورتپاک سے بغل گیر ہوجائیں گے

۔یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے ،بلکہ ایک تلخ سچائی ہے جس کا مشاہد ہ ہم نے خود کیا ہے۔سی سی آر یو ایم جیسے عظیم ادارہ کی شبانی کیلئے جس عظیم ہستی کو کارگزار ڈائریکٹر بنایا گیا ہے ،وہ صاحب اتنے کمزور ہیں کہ ڈائریکٹرکے عہدہ جیسی عظیم نعمت کو سنبھال نہیں پارہے ہیں اور بڑے عہدہ نے انہیں سراپا مغرور بنادیا ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ سی سی آر یو ایم کو ترقی کی معراج تک پہنچانے کے صرف کاغذی دعوے کئے جا رہے ہیں ۔جبکہ زمینی سطح پر یہ دعوے خوبصورت فریب معلوم دیں گے۔بہر حال اس مایوس کن رویہ کے درمیان سی سی آر یو ایم کو جس راہ پر لے جانے کی ناپاک سعیکیجا ری ہے وہ ملک میں طب یونانی کیلئے اورزیادہ مشکلات کا سامان بن جائے گی،بلکہ یہ روش آنے والے وقت میں مسلمانوں کیلئے طب یونانی کادروازہ ہمیشہ کیلئے بند کردے گی۔

رہا یہ سوال کہ سی سی آر یوایم کے علاوہ ملک بھرمیں طب یونانی کے دروازے مسلمانوں کے لئے کیونکر بند ہوجائیں گے تواس کی تفصیل میں انشا ء اللہ بعد میں بیان کروں گا۔مگرآپ کی بیداری اورملت سے ہمدردی کے جذبہ کو پرکھنے کے بعد۔فی الحال دانائے شیراز شیخ سعدی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔

ترسم کہ بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی

کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

اللہ ہمیں حق اور سچ کہنے اورسننے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔