سی پی ایم اور کانگریس کا برا حال، بنگال میں بی جے پی کا عروج

عبدالعزیز

آر ایس ایس اور بی جے پی کا جو خطرہ مغربی بنگال میں بڑھ رہا تھا وہ خطرہ پورے طور پر سامنے آگیا ہے۔ مغربی بنگال کے چھ علاقوں میں جو بلدیاتی الیکشن کے نتائج آئے ہیں اس سے ثابت ہورہا ہے کہ بی جے پی بنگال میں مارکسی پارٹی اور کانگریس کو پیچھے کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس 148 میں سے 140 (وارڈس) پر قابض ہوگئی ہے مگر کانگریس اور مارکسی پارٹی کا صفایا ہوگیا جبکہ بھاجپا 6سیٹیں حاصل کرکے دوسرے نمبر پر ہے اور اس کا یہ دعویٰ فی الحال حق بجانب ہے کہ وہ اس وقت خاص حزب مخالف (Main Opposition Party) بن گئی ہے۔

 نریندر مودی کی پارٹی جلپائی گوڑی دھپ گوڑی  میونسپلٹی میں پہلی بار 41.7 فیصد ووٹ اور 5سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 2012ء میں یہاں بی جے پی کو صرف 8.6فیصد ووٹ ملے تھے۔ دھپ گوڑی میں راجبنسی اور شیڈول ٹرائب کے لوگ زیادہ تر آباد ہیں۔ یہ علاقہ نکسل باری سے 95کیلو میٹر دور واقع ہے جہاں بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے گزشتہ اپریل میں ایک ادیباسی خاندان کے گھر جاکر کھانا کھانے کی نمائش کی تھی۔ بعد میں اس کے خاندان کے لوگوں میں ترنمول کانگریس میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ بی جے پی ووٹ فیصد کے اعتبار سے بھی ہلدیا، دھپ گوڑی، پانسکوڑا میونسپلٹیوں میں لفٹ اور کانگریس سے آگے ہے۔ نئی ہٹی اور درگار پور میں دوسرے نمبر پر ہے۔ کوپر کیمپ میں بایاں محاذ کے برابر ہے۔ اس طرح خلیج بنگال میں مارکسی پارٹی اور کانگریس مل کر بھی بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کے قدم کو روکنے میں ناکام ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بنگال میں جب بھی مغربی بنگال الیکشن کمشنر کی نگرانی میں الیکشن ہوتا ہے تو دھاندلی ہوتی ہے اور حکمراں جماعت بوتھ قبضہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ لیکن کانگریس اور مارکسی پارٹی کا الزام بجا ہونے کے باوجود اسی انتخابی میدان میں بی جے پی مار دھاڑ کر دونوں سے آگے بڑھ گئی۔ اس لئے کانگریس اور مارکسی پارٹی کی شکایت کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔

بھاجپا کا قدم ہر حصہ میں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہر جگہ قدم جمانے میں کامیاب ہورہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پورے ملک کا ماحول فرقہ وارانہ ہوتا جارہا ہے اور ووٹوں کا انضمام (Polirization) ہورہا ہے۔ بھاجپا ہندو اور مسلمانوں کو بانٹنے میں کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ ترنمول کانگریس کی پالیسی بھی بی جے پی کے حق میں ہوتی جارہی ہے کیونکہ ترنمول جان بوجھ کر بی جے پی پر پے درپے حملے کرکے اسے خاص اپوزیشن پارٹی کی جگہ پر لانا چاہتی ہے اور کانگریس اور مارکسی پارٹی کو نیست و نابود کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ترنمول کانگریس یا ممتا بنرجی کیلئے یہ آسانی ہے کہ وہ جب بھاجپا پر شدید حملے کرے گی یا بیان بازی سے کام لے گی تو مسلمان خوش ہوں گے اور ترنمول کے حق میں ووٹ دیں گے۔

  پورے مغربی بنگال کے سیاسی میدان میں جو جنگ برپا ہے اس سے بی جے پی کو فائدہ ہورہا ہے۔ بی جے پی ترنمول پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی منہ بھرائی یا طرفداری میں لگی ہوئی ہے؛ حالانکہ محترمہ ممتا بنرجی مسلمانوں کو وہ حق بھی دینے سے قاصر ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ مسجد کے اماموں اور مؤذنوں کو چند روپئے مہینے دے کر وہ بھی وقف بورڈ سے بی جے پی کیلئے ترنمول کو بدنام کرنے میں آسانی ہوگئی ہے کہ مسلمان اماموں کو تو سرکار ماہانہ تنخواہ سے نواز رہی ہے جبکہ مندروں کے پروہتوں اور پنڈتوں کو کچھ بھی نہیں دے رہی ہے۔

 کانگریس میں بھگدڑ بہت پہلے سے مچی ہوئی ہے۔ بہت سے کانگریسی مغربی بنگال میں کانگریس کا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں، اس لئے کانگریس میں رہنا نہیں چاہتے۔ کانگریس دن بہ دن کمزور اور زوال پزیر ہوتی جارہی ہے۔ لفٹ پارٹیوں میں سی پی ایم کے کیڈرس یا لیڈرس اکا دکا ترنمول میں جارہے ہیں مگر پارٹی entach(مضبوط) ہے۔ اس کے باوجود وہ عوام و خواص کو متاثر کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے چھوٹے بڑے جلسوں میں اچھی خاصی بھیڑ ہوتی ہے۔ کانگریس کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے۔ کانگریس کا اگر کمزوری اور زوال پزیری کا موجودہ سلسلہ باقی رہا تو پھر کانگریس کی پوری جگہ پر بی جے پی قابض ہو جائے گی۔ ترنمول سے بھی جو لوگ ناراض ہوتے ہیں۔ وہ کانگریس یا مارکسی پارٹی میں جانے کے بجائے وہ بی جے پی ہی میں جاتے ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ بی جے پی کا مستقبل ہے اور وہ اس وقت ترنمول سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے۔

  مارکسی پارٹی کے اندر کانگریس سے اتحاد کرنے میں مختلف رائے ہے۔ کیرالہ اور دیگر ریاستوں کے مارکسی افراد کانگریس سے اتحاد کرنے کے مخالف ہیں جبکہ مغربی بنگال کی سی پی ایم چاہتی ہے کہ ترنمول اور بی جے پی کے مقابلے کیلئے کانگریس سے اتحاد ضروری ہے۔ مارکسی پارٹی اس طرح اتحاد کرنے میں تذبذب کی شکار ہے، جس کی وجہ سے بھی بنگال میں بی جے پی کا فائدہ ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد وجود میں آئے اور حکمراں جماعت سے اس لڑائی لڑے کہ بی جے پی کو فائدہ نہ ہو۔

 سیول سوسائٹی کیلئے بھی میدان میں اترنا ضروری ہے تاکہ فرقہ پرستی کا قدم جو مغربی بنگال میں مضبوط ہورہا ہے وہ مضبوط نہ ہونے پائے اور اپوزیشن مضبوط ہو۔ اپوزیشن کے بغیر جمہوریت آمریت کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ جو جمہوریت کیلئے سم قاتل سے کم نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔