نماز اور قربانی میں مناسبت (چوتھی قسط)

تحریر: علامہ حمید الدین فراہیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

 پیرویِ اسلام کا عہد کرلینے کے بعد ہم خدا کے ہاتھ بک جاتے ہیں اور اسی عہد کی تجدید کیلئے ہم اس کے آستانہ پر حاضر ہوتے ہیں اور حجر اَسود کو ہاتھ لگاکر اس عہد کو از سر نو تازہ کرتے ہیں ۔ یہ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے عہد کی ہماری طرف سے توثیق اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے کیلئے ہماری طرف سے اقرار ہوتا ہے۔

  پھر حج کا اجتماع میدانِ حشر میں ہمارے کھڑے ہونے کی بھی تصویر ہے۔ اس پہلو سے نماز، حج اور قربانی ان تینوں کو معاد سے نہایت قریبی نسبت ہوئی۔

 (9  یہ دونوں ابواب صبر میں سے ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے وعدہ پر پورا بھروسہ کرکے نماز کی پابندی کرتا ہے، اس کی مثال اس درخت لگانے والے کی ہے، جو شب و روز اپنے لگائے ہوئے پودے کی نگہداشت کرتا ہے، اس کی خدمت کرتا ہے، اس کو پانی دیتا ہے اور اس کے پھل لانے کا منتظر ہے اور دوسروں کی غفلت و سرمستی اس کی اس سرگرمی و خود فراموشی میں کوئی کمزوری نہیں پیدا کرتی۔ لوگ اس کی امید موہوم پر ہنستے ہیں لیکن وہ خدا کی شکر گزاری اور اطاعت کے جس جادۂ مستقیم پر چل رہا ہے برابر اس پر سرگرم سفر ہے اور لوگوں کے ہنسنے اور مذاق اڑانے سے اس کی ہمت پست نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے یہ باتیں اس وقت تک نہیں ہوسکتیں جب تک آدمی میں ارادہ کی غیر معمولی پختگی اور انجام کار کی کامیابی کا غیر متزلزل یقین نہ ہو؛ چنانچہ اسی وجہ سے قرآن مجید نے صبر اور نماز کو متعدد آیات میں ایک ساتھ ذکر کیا ہے:

 وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ’’اور صبر و نماز کے ذریعہ مدد چاہو‘‘۔

  اوپر ہم نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے، مندرجہ ذیل آیت میں ان کی طرف نہایت واضح اشارات ہیں :

  ’’پس ان کی باتوں پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد پڑھو، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اور رات کے وقتوں میں اس کی تسبیح پڑھو اور دن کے اطراف میں تاکہ تم نہال ہوجاؤ۔ اور تم نہ دیکھو اس زینت دنیا کی طرف جو ہم نے ان کی بعض جماعتوں کو دے رکھی ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے ان کا امتحان لیں ، تمہارے رب کی روزی زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے، اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دو اور اس پر ثابت قدم رہو، ہم تم سے روزی نہیں مانگتے، ہم تم کو روزی دیں گے اور انجام کار کی کامیابی تقویٰ کیلئے ہے‘‘ (سورہ طٰہٰ، آیات:130 تا 132)۔

  دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’اور جو اپنے رب کی رضا کی طلب میں ثابت قدم رہے اور نماز قائم کی‘‘ (سورہ رعد، آیت:32)۔

   نیز فرمایا: ’’پس ثابت قدم رہو، بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے اور اپنے گناہ کی مغفرت چاہو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کی تسبیح پڑھو، بے شک جو لوگ اللہ کی آیات کے بارہ میں بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، جھگڑتے ہیں ، ان کے سینوں میں محض ایک گھمنڈ ہے جو پورا نہ ہوگا، پس اللہ کی پناہ ڈھونڈو، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ مومن، آیات: 55تا56)۔

  اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ کے عہد پر قائم رہنا، اس پر پورا بھروسہ کرنا، اس کی راہ میں مصائب جھیلنا اور انجام کار کی کامیابی کا منتظر رہنا کتنی کٹھن راہ ہے اور اس میں ہر قدم پر صبر و ثبات کی کتنی ضرورت پیش آتی ہے۔

یہی حال قربانی کا بھی ہے۔ یہ اس عظیم الشان صبر کی تعلیم پر مبنی ہے جس کا نمونہ ابراہیم خلیل ؑاللہ نے پیش کیا۔ بڑھاپے تک خدا نے ان کو کوئی اولاد نہیں بخشی، لیکن جب بخشی اور ایسی اولاد بخشی جس کے حسن باطن اور حسن ظاہر نے ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا تو اسی اولاد کو خدا نے اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دے دیا۔ غور کیجئے؛ کتنا کٹھن امتحان تھا! لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پائے ثبات کو ذرا بھی لغزش نہیں ہوئی بلکہ وہ خدا کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے ان سے وہ چیز مانگی جو ان کو تمام دنیا میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب تھی۔

  اس سے معلوم ہوا کہ نماز پر ہمارا صبر، اسی طرح کا صبر ہے جس طرح کا صبر ہم مصائب کو برداشت کرتے وقت کرتے ہیں ۔نماز اور خدا کی جانی و مالی آزمائشوں کے وقت صبر میں جو تعلق ہے اس کو آیت ذیل بے نقاب کر رہی ہے۔

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، بے شک اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ، ان کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔ ہم تم کو کسی قدر خوف، قحط اور مال، اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔ اور ثابت قدموں کو بشارت دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ وہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ راہ یاب ہیں ۔ بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں ۔ پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، کچھ مضائقہ نہیں کہ ان کا طواف کرے اور جس نے اپنی خوشی سے نیکی کی تو اللہ قبول کرنے اور جاننے والا ہے‘‘ (سورہ بقرہ، آیات:153 تا 158)۔

 اس آیت میں مروہ کا بھی تذکرہ ہے اور ہم اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں مفصل لکھ چکے ہیں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی قربانی کی تھی۔ غور کیجئے؛ اس آیت میں نماز، صبر، جہاد، مصائب اور مقام قربانی کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس وجہ سے کہ ایک جامع حقیقت نے ان سب کا رشتہ ایک ساتھ جوڑ دیا ہے۔

 (10  ان دونوں میں اس امر کا اقرار و اعتراف ہے کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے اور تمام نعمتیں اسی کی بخشی ہوئی ہیں ۔ نماز میں تو یہ حقیقت بالکل ظاہر ہی ہے، ا س کی بنیاد ہی شکر اور اقرارِ ربوبیت پر ہے۔ غور کرنے سے یہی بات قربانی میں بھی معلوم ہوتی ہے، یہ بھی زبانِ حال سے گویا اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ ہم قربانی کرکے گویا اقرار کرتے ہیں کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے، تمام نعمتیں اسی کی بخشی ہوئی ہیں ۔ ہماری جانیں اور ہمارے مال سب اللہ کے خزانۂ وجود و فیض ہی سے ہم کو نصیب ہوئے، اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو خدا ہی کے حوالہ کریں اور اسی کی اطاعت و بندگی کی راہ میں ان کو استعمال کریں ۔ یہ ہم کو اسی لئے بخشے گئے ہیں کہ ہم اس کے فضل و احسان کا شکر ادا کریں اور جہاں اس کی مرضی ہو وہاں ان کو قربان کر دیں ، اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے، اس وجہ سے ہم صرف اسی کی بندگی کرتے ہیں اور اسی کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور جو کچھ اس کا بخشا ہوا ہے اسی کے دربار میں پیش کرتے ہیں ۔ وہی پیدا کرنے والا اور وہی بخشنے والا ہے۔ اسی نے ہماری زبانوں پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کا اقرار جاری کیا؛ یعنی ہم اور ہماری تمام ملکیت خدا ہی کیلئے ہیں ۔ حکومت اور احسان صرف اسی کی صفت ہے، ہمارے لئے صرف اطاعت اور شکر گزاری ہے۔ جس طرح ملکیت صرف مالک کی طرف لوٹتی ہے، اسی طرح ہم کو بالآخر خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

  یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے کسی چیز سے بھی یہاں تک کہ اپنے نفس سے بھی متمتع ہونا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک ہم اس کا نام لے کر، اس کی بخشش کا اقرار نہ کرلیں ۔ اسی چیز کی تعلیم کیلئے اس نے ہمارے لئے قربانی کا فریضہ ٹھہرایا تاکہ جو انعام و بہائم اس نے ہمارے لئے مسخر کئے ہیں ہم ان کو اس کے نام پر قربان کریں ۔

 ’’اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی قرار دی تاکہ جو چوپائے ان کو روزی کئے ہیں ، ان کو اللہ کے نام پر قربان کریں ۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ اس نے تم کو جو ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی کرو‘‘ (سورہ حج، آیت:37)۔

 حیوانات پر انسان کو خدا نے جو اختیار و تصرف بخشا ہے اس میں جیساکہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے، آقائی اور بندگی کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے ان کو ذبح کرتے وقت خدا کا نام لینا ضروری کر دیا ہے۔ اسی طرح زمین کی پیداوار میں بھی اس نے اپنا ایک حق رکھا ہے تاکہ ہم یہ بات بھول نہ جائیں کہ یہ خدا ہی کی بخشش سے ہم کو ملی ہے:

   ’’اور جب پھل آئے تو ان کا پھل کھاؤ اور کاٹنے کے وقت اس کا حق دو‘‘ (سورہ انعام، آیت:141)۔

  چونکہ ہمارے قبضہ میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کی ملکیت ہے، اس وجہ سے اسراف ناجائز ہوا اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی مالکیت کی سب سے بڑی شہادت دی، یہاں تک کہ اپنی جان اور اپنے محبوب لخت جگر کو بھی اس کی راہ میں پیش کردیا، اس وجہ سے قربانی کے بیان کیلئے انہی کا نمونہ مثال قرار دیا گیا کیونکہ خدا کی امانت خدا کے حوالہ کرنے کی اس سے بڑھ کر کوئی اور مثال نہیں تھی۔

   (11 یہ دونوں تقربِ الٰہی کا ذریعہ ہیں ۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔ نماز کی سب سے زیادہ نمایاں حقیقت توجہ الی اللہ ہے۔ جو شخص نماز میں ہے وہ گویا اپنے رب کے حضور کھڑا ہے اور اس سے مناجات و گفتگو کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دائیں بائیں کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتا۔ اس پہلو سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ نماز نہ صرف ذریعہ تقرب بلکہ عین تقرب ہے۔ ’’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘‘ (اور سجدہ کرو اور قریب ہوجاؤ)۔ اس لئے نماز رأس العبادت قرار پائی۔ میرے خیال میں عربی میں صلوٰۃ کا اصلی مفہوم بھی قربت قریبہ ہی کا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی چیز کی طرف بڑھنا اور اس میں داخل ہوجانا، اسی لئے گھڑ دوڑ کے اس گھوڑے کو جو اگلے گھوڑے کے بعد ہو ’مصلی‘ کہتے ہیں ۔ جو شخص آگ کے پاس نہایت قریب ہوکر تاپ رہا ہو، اس کو ’صالی‘ کہتے ہیں ۔ یہی لفظ اس شخص کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا جو آگ میں گھس جائے۔

بعینہٖ یہی حقیقت قربانی میں بھی مضمر ہے۔قربانی کرنے والا اپنی قربانی ایسی جگہ لاتا ہے جو ا س کے خیال میں خدا کی طرف سے اس عبادت کیلئے مخصوص اور مقدس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے قربانی کیلئے ایک مخصوص و متعین جگہ قرار پائی۔ یہود کے یہاں بیت المقدس کے سوا کسی دوسری جگہ قربانی جائز نہیں ، لیکن مسلمانوں کیلئے جس طرح تمام روئے زمین کو مسجد ہونے کا شرف حاصل ہوا، اسی طرح قربانی بھی ان کیلئے ہر جگہ جائز ہوئی، تاہم جس طرح مسجد کی نماز کو فضیلت حاصل ہے، اسی طرح قربان گاہ پر قربانی کرنا بھی افضل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ متعین فرمائی تھی۔ یہی جگہ ہمارے لئے بھی مخصوص ہوئی؛ چنانچہ جس طرح ہم ان کی تعمیر کی ہوئی مسجد کیلئے سفر کرتے ہیں ، اسی طرح اپنی قربانی کے جانوروں کو بھی ان کی قربان گاہ پر لے جاتے ہیں ۔ ان باتوں کا مقصد ہمارے دل میں یہ اعتقاد راسخ کرنا ہے کہ ہماری حیثیت خدا کے غلاموں اور چاکروں کی ہے جو لبیک کہتے ہوئے آقا کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی بندگی کے اقرار کیلئے اپنی قربانیاں اس کے حضور پیش کرتے ہیں ۔ پس جس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر صلوٰۃ کو صلوٰۃ کہا گیا ہے، اسی حقیقت کی رعایت سے قربانی کیلئے قربانی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: استشرفوا ضحایاکم فانھا علی الصراط مطایاکم۔

 قربانی اور جہاد: قربانی میں چوپایوں کا ذبح کرنا (جیسے کہ پہلے گزرا) در حقیقت ذبح نفس کی علامت ہے۔ گویا ایک چوپایہ کے عوض ہم اپنی جان چھڑا لیتے ہیں ۔ بعینہٖ یہی حقیقت جہاد کی بھی ہے؛ یعنی جان کو قربان کرکے اس کو جہنم کی آگ سے بچالینا۔ پھر حج کے تمام آداب و مناسک میں بالکل جہادکی حقیقت جلوہ گر ہے۔ یہ روز کا کوچ اور قیام اور عجلت کی نمازیں کیا ہیں ؟ ہر حج کرنے والا پورے یقین کے ساتھ محسوس کرتا ہے کہ یہ مرحلے کسی قائد ہی کی قیادت کے مقتضی ہیں ۔ منازل پر حجاج کی حالت علانیہ فوجی نظم کی ضرورت کا یقین دلاتی ہے۔

 مسلمان حج میں اپنے ارادۂ جہاد کی تصحیح کرتا ہے اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرکے گویا اس امر کا اعتراف و اعلان کرتا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کیلئے بالکل سر بکف ہے۔

تبصرے بند ہیں۔