اذان اور دعوت میں تعلق (تیسری قسط)

 مفتی کلیم رحمانی

اذان کا پہلا کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ

 اذان کا پہلا کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ہے، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اَللّٰہُ اَکْبَرْ یہ وہ جامع کلمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی بڑائی کے اعلان کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اللہ صرف بڑا ہی نہیں  بلکہ سب سے بڑا ہے اور یہی لفظ اکبر کے معنی ہے، مطلب یہ کہ نہ اللہ کے برابر کوئی ہے اور نہ اللہ سے بڑا کوئی ہے، تمام انسان اللہ سے چھوٹے ہیں ، اور تمام انسان اللہ کے محتاج ہیں ، اور اللہ کی یہ بڑائی صرف ذات کے لحاظ سے ہی نہیں  ہے بلکہ صفات کے لحاظ سے بھی ہے، اور اللہ کی صفات میں  ایک اہم صفت قانون بنانے والا اور حکم دینے والا ہے، اس لحاظ سے قانون اور حکم کے سلسلہ میں  اللہ سے بڑھ کر کسی انسان کے قانون اور حکم کو بڑا سمجھنا یہ کھلے طور پر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی خلاف ورزی ہے، اور کسی کو بڑا سمجھنے اور بڑا ماننے میں  لازمی طور سے یہ شامل ہوتا ہے کہ اسے حکم کے لحاظ سے بھی بڑا مانا جائے، مثلاًکسی ملک کا وزیر اعظم اور صدر ملک میں  سب سے بڑا ہے، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ملک میں  سب سے بڑا اسی کا حکم اور آرڈر ہے.

کسی جماعت اور پارٹی کا کوئی امیر اور صدر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کا حکم بھی جماعت اور پارٹی میں  سب سے بڑا ہے، اسی طرح کوئی کسی یونیورسٹی میں  چانسلر ہے یا کسی کالج میں  پرنسپل ہے، یا کسی اسکول میں  صدر ہے، یاکسی مدرسہ میں  ناظم ہے تو اس میں  لازمی طور سے یہ بھی شامل ہے کہ اس کا حکم یونیورسٹی، کالج، اسکول اور مدرسہ کے تمام انتظامات اور تمام معاملات میں  سب سے بڑا ہے، ایسا نہیں  ہوتا کہ کوئی کسی ملک کا وزیر اعظم اور صدر ہو، اور حکومت کے بعض معاملات میں  اس کا حکم بڑا ہو اور بعض معاملات میں  کسی اور کا حکم بڑا ہو، بلکہ اگر کوئی فرد اور ادارہ حکومت کے بعض معاملات میں  صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ کسی اور کے حکم کو بڑا سمجھے  تو وہ فرد اور ادارہ حکومت کی نظر میں  باغی شمار ہوگا، اسی طرح اگر کوئی کسی جماعت اور پارٹی کا فرد جماعت اور پارٹی کے بعض معاملات میں  جماعت اور پارٹی کے امیر اور صدر کے حکم سے بڑھ کر کسی اور کے حکم کو سمجھے تو وہ یونیورسٹی کی نظر میں  باغی شمار ہوگا، اسی طرح اگر کوئی کالج کے بعض معاملات میں  پرنسپل کے حکم سے بڑھ کر کسی اور کے حکم کو سمجھے تو وہ کالج کی نظر میں  باغی شمار ہوگا، اسی طرح اگرکوئی دار العلوم اور مدرسہ کے بعض معاملات میں  ناظم کے حکم سے بڑھ کر کسی اور کے حکم کو سمجھے تو وہ دار العلوم اور مدرسہ کی نظر میں  باغی شمار ہوگا، اسی طرح اگر کوئی بیوی گھر کے بعض معاملات میں  شوہر کے حکم سے بڑھ کر کسی اور کے حکم کو سمجھے تو وہ شوہر کی نظر میں  باغی شمار ہوگی، غرض یہ کہ کسی کو کسی شعبہ میں  بڑا ماننے کا لازمی تقاضہ ہے کہ اس شعبہ کے تمام  معاملات میں  اس کے حکم کو سب سے بڑا سمجھا جائے۔

چونکہ اس پوری کائنات میں  اللہ کی ذات سب سے بڑی ہے، اس لحاظ سے انسانی زندگی کے تمام شعبوں  میں  اللہ کا حکم سب سے بڑا ہے، کیونکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا حقیقی اور صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اسلئے انسانی زندگی کے تمام شعبوں  سے متعلق قانون بنانا اور حکم دینا صرف اسی کا حق ہے، اسلئے کہ یہ مُسلّمہ حقیقت ہے کہ صحیح رہنمائی کے لئے صحیح علم ضروری ہے، اور چونکہ کسی انسان نے اپنے آپ کو پیدا نہیں  کیا اور نہ کسی دوسرے انسان کو پیدا کیا ہے اسلئے انسان اپنے آپ سے بھی لا علم ہے اور دوسرے انسان سے بھی لا علم ہے، اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کے حقیقی خالق و عالم اور تمام انسانون کے حقیقی خالق و عالم سے معلوم کرے کہ وہ کیا ہے ؟ اور تمام انسان کیا ہیں ؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ اپنی کتابوں  اور نبیوں  کے ذریعہ بتلادیا ہے کہ انسان کیا ہے؟ اور اس دنیا میں  اس کی حیثیت کیا ہے؟ اور اللہ کی حیثیت کیا ہے؟ اور اسی کی یاد دہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اذان کے پہلے کلمہ میں ، اَللّٰہُ اَکْبَرْکے اعلان اور پیغام کو رکھ دیا، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اور اس کا حکم بھی سب سے بڑا ہے، مطلب یہ کہ انسان اللہ سے چھوٹا ہے، اور اس کا قانون او رحکم بھی اللہ سے چھوٹا ہے، اور اسی میں  یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے قانون اور حکم کو اللہ کے قانون اور حکم کے برابر سمجھے یا اپنے قانون اور حکم کو اللہ کے قانون اور حکم سے بڑا سمجھے تو نہ صرف یہ کہ اللہ کے ساتھ بغاوت اور دشمنی ہوگی، بلکہ خود اپنے جسم اور زمین و آسمان، چاند و سورج سے بغاوت اور دشمنی ہوگی، کیونکہ انسان کا جسم مسلم ہے، اسی طرح زمین و آسمان، چاند و سورج بھی مسلم ہیں ، اور یہ سب اللہ ہی کے حکم کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں ، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے پاگل پیدا کیا ہے، وہ زندگی بھر پاگل ہی رہتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اندھا پیدا کیاہے وہ زندگی بھر اندھا ہی رہتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے گونگا پیدا کیا ہے وہ زندگی بھر گونگا ہی رہتا ہے.

اسی طرح زمین و آسمان، چاند و سورج بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں ، لیکن اللہ کے حکم کی بڑائی نہیں  ماننے والے انسانوں  کے لئے یہ بات کتنی افسوس ناک ہے، بلکہ نمک حرامی کے مترادف ہے، کہ وہ اللہ کے پیدا کئے دل، دماغ، آنکھیں ، کان، زبان، ہاتھ، پیر، ہوا، پانی، کھانا، زمین وغیرہ استعمال کرے، اور پھر بھی اللہ کے حکم کی بڑائی کو تسلیم نہ کرے، یا تسلیم کریں  بھی تو زندگی کے بعض معاملات میں ، اور بعض معاملات میں  انسانوں  کے حکم کی بڑائی تسلیم کرے، چنانچہ آج دنیا میں  انسانوں  کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں  اللہ کے حکم کی بڑائی کو تسلیم نہیں  کرتی، اور انسانوں  ہی میں  سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو زندگی کے بعض شعبوں  میں اللہ کی حکم کی بڑائی کو تسلیم کرتی ہے، اور بعض شعبوں  میں  انسانوں  کے حکم کی بڑائی کو تسلیم کرتی ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تعداد میں  بہت سے مسلمان بھی ہیں ، بلکہ مسلمانوں  کی اکثریت اس تعداد میں  شامل ہے، چنانچہ اس وقت مسلمانوں  کی اکثریت صرف شعبہ عبادات مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں  اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھتی ہیں ، اور شعبہ معاملات میں  اور خصوصاً شعبہ سیاست میں  اللہ کے علاوہ دوسرے انسانوں  کے حکم کی بڑائی کو تسلیم کئے ہوئے ہیں ، یہاں  تک کہ بہت سے ممالک میں ، کافروں ، مشرکوں ، عیسائیوں ، یہودیوں  اور منافقوں  کے حکم کی بڑائی کو تسلیم کئے ہوئے ہیں ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں  صاف طور سے اعلان کردیا۔

وَلَنْ یَجْعَلَ اللہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلیَ الْمُومِنِیْنَ سَبِیلاً  (سورئہ نسا آیت141)

ترجمہ : (اور ہرگز نہیں  بنایا اللہ تعالیٰ نے کافروں  کے لئے مومنین پر کسی بھی قسم کی ولایت یعنی سربراہی۔)

مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں  کو ایمان والوں  کی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں  سربراہی کا حق نہیں  دیا، اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کسی ایمان والے کے لئے یہ جائز نہیں  ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں  کافر کی سربراہی کو تسلیم کرے، یہاں  تک کہ اس کے لئے یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ وہ کسی بے دین مسلمان کو کسی بھی شعبہ میں  اپنا سر براہ تسلیم کرے، لیکن افسوس ہے کہ آج عالمی، ملکی اور مقامی سطح پر زیادہ تر مسلمان سیاست میں  یاتو کافروں  کو اپنا سربراہ تسلیم کئے ہوئے ہیں  یا بے دین اور بد کردار مسلمانوں  کو اپنا سر براہ تسلیم کئے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے آج عالمی، ملکی اور مقامی سطح پر سیاست میں  سب سے زیادہ کمزور بے بس اور رسوا، اگر کوئی قوم ہے، تو وہ مسلمان قوم ہے، جب کہ یہی مسلم قوم آج سے دیڑھ سو(150) سال پہلے تک پوری دنیا کی حاکم قوم شمار ہوتی تھی، دنیا کی تمام قومیں  اس کی محکوم تھی، لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلمان آج سے دیڑھ سو سال(150) پہلے تک میدان سیاست میں  صرف اللہ ہی کو اپنا حاکم تسلیم کرتے تھے، اور اس کے علاوہ کسی اور کو اپنا حاکم نہیں  مانتے تھے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں  دوسری قوموں  کا حاکم بنا دیا تھا.

چونکہ دیڑھ سو سال(150) سے مسلمانوں  نے اللہ کو چھوڑ کر دوسری قوموں  کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو سیاست میں  دوسری قوموں  کی ٹھوکروں  میں  ڈال دیا ہے، اور یہ سیاسی ذلت مسلمانوں  پر اس وقت تک مسلط رہے گی جب تک مسلمان میدان سیاست میں  غیر اسلامی سیاست سے توبہ کرکے اللہ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں  کرتے، اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ مسلمان عالمی، ملکی اور مقامی سطح پر سیاسی لحاظ سے حکمراں  اسلئے تھے کہ ان کی تعداد زیادہ تھی، تو اُس کا یہ خیال صحیح نہیں  ہے، اس کی اطلاع کے لئے یہ بات عرض ہے کہ آج کی بہ نسبت اُسو قت مسلمانوں  کی تعداد کم تھی چنانچہ آج عالمی سطح پر مسلمانوں  کی تعداد کا تناسب تقریباً اٹھائیس   (28) فیصد ہے جب کہ اتنا تناسب مسلمانوں  کا اپنے دور حکمرانی میں  کبھی بھی نہیں  رہا۔ویسے بھی قوموں  کی تعداد کی بنیاد پر نہ ماضی میں  کبھی کوئی حکومت قائم ہوئی ہے، اور نہ حال میں  قائم ہے اور نہ مستقبل میں  قائم ہو سکتی ہے، بلکہ ہر دور میں  کسی بھی حکومت کے قیام کے لئے، نظریہ، اجتماعیت، اور جدوجہد درکار ہوتی ہے.

یقینا کسی بھی ملک کی حکومت چلانے کے لئے اس ملک کی کم ازکم دس فیصد تعداد کو حکومت کے ملازمین کے طور پر کام کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ ملازمین دوسری قوم کے بھی ہو سکتے ہیں ، جیسے اس وقت عالمی سطح پر میدان سیاست میں  یہود قوم غالب ہے، جب کہ یہود کی تعدادپوری دنیا میں  صرف دیڑھ کروڑ (1,50,00000)ہے، اور دنیا کی کل آبادی اس وقت سات سوکروڑ (700,00000) ہے، اس لحاظ سے یہود کی آبادی کا تناسب دنیا کی کل آبادی میں  صرف پائو0.5 فیصدہے، جب کہ دنیا کے اسّی فیصد (80%) سے زائد ممالک کی سیاسی پالیسی یہود کے اشارہ پر بنتی ہے اور چلتی ہے، ان اسّی فیصد (80%) ممالک میں  بہت سے مسلم ممالک بھی ہے، اور یہود کو دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہونے میں  اتنی کم تعداد کے باوجود کامیابی اس لئے ملی کہ وہ ایک نظریہ، اجتماعیت اور جدوجہد سے جڑی ہوئی قوم ہے، اگرچہ اس کا نظریہ سیاست باطل ہے اور اس کا طریقہ سیاست بھی تخریبکاری پر مبنی ہے، اور یہود ہی سے ملتی جلتی صورت ہندوستان میں  بسنے والی ایک قوم برہمن کی ہے، چنانچہ ہندوستان کی کل آبادی میں  برہمن قوم کی آبادی صرف تین فیصد(3%) ہے، لیکن ہندوستان کی نوے فیصد سے زائد سیاست و حکومت پر برہمنی سوچ غالب ہے، کیونکہ یہ قوم بھی ایک نظریہ، اجتماعیت اور جدوجہد سے جڑی ہوئی قوم ہے، لیکن یہ قوم بھی یہود کی طرح ایک باطل نظریہ سیاست سے جڑی ہوئی ہے، اور اس کا طریقہ سیاست بھی تخریبکاری پر مبنی ہے، اور جس طرح یہود کے نشانہ پر خصوصی طور پر مسلم قوم ہے اسی طرح برہمن کے نشان پر بھی مسلم قوم ہے، کیونکہ عالمی اور ملکی سطح پر یہود اور برہمن قوم کی تخریبی سیاست میں  سب سے زیادہ مسلم قوم ہی رکاوٹ ہے۔اور اللہ کی یہ سنت رہی ہے، کہ جو بھی اس دنیا میں کوشش کرتا ہے اُس نتیجہ اُس کے سامنے آتا ہے۔اگر کوئی اچھی کوشش کرے تواس اچھا نتیجہ سامنے آتا ہے، اور اگر کوئی بُری کوشش کرے تو اُس کا نتیجہ بھی بُرا ہی آتا ہے۔

جولوگ یہ سمجھتے ہیں  کہ دنیا میں  حکومتیں  ووٹوں  سے بنتی ہے، جس قوم کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں  اس کی حکومت بنتی ہے، ایسے لوگوں  کی سوچ کی اصلاح کے لیے عالمی طور یہود قوم کی مثال اور ہندوستانی سطح پر برہمن قوم کی مثال کافی ہے، در اصل ووٹوں  کے ذریعہ نہ آج تک کسی ملک میں  کوئی حکومت قائم ہوئی ہے اور نہ کوئی حکومت گری ہے، بلکہ آج تک کسی ملک میں  حکومت کے لئے الیکشن ہو ا ہی نہیں  تو کسی حکومت کے ووٹوں  کے ذریعہ بننے  اور گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔