اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھیے!

 مولانا سید آصف ملی ندوی

 اگلے ایک دو ماہ کے دوران بشمول شہر ناندیڑ مہاراشٹر کے کئی شہروں میں بلدیاتی انتخابات کا بِگُل بجنے والا ہے، جس کے پیش نظر کچھ قابل و ایماندار امیدواروں کے ساتھ ساتھ بہت سارے سیاسی شعبدہ باز اور بازیگر فریب دہی و ملمّع سازی کے ذریعے سادہ لوح عوام کی نظروں کو خیرہ کرنے اور کھلا فریب دینے کی خاطر برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرتے ہوئے گتّے داری اور دلالی سے مستفید ہونے اور قوم و ملت کا سودا کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ میدان میں اترچکے ہیں۔  جس طرف دیکھئے ایک شوروغل اور ہمہمہ و ہنگامہ بپا ہے۔  سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر ایک جشن لگا ہوا ہے، مشروبات کی بوتلوں کے کھلنے کی ٹھکاٹھک، قبیلوں و برادریوں کے اتحاد و یک جہتی کی باتیں، کونوں کھدروں میں ہوتے مول تول، انتخابی دنگل میں اترنے کے لئے بال وپر تولنے والے خواہشمند امیدواروں کے عارضی دفاتر پر سالوں سے بچھڑے ہوئے بے روزگاروں کی یومیہ ملاقاتیں و شب بیداریاں، نکڑوں اور کارنروں پرآویزاں ہورڈنگس اور بینروں کی بہتات، خوشنما وعدوں کے دلفریب نعریں۔  غرض یہ کہ ایک نئی مہم شروع ہوگئی ہے، ذاتی مفاد کی خاطر جرائم پیشہ اور غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث افراد سے اپنی وابستگی کے مظاہرے کی مہم، گلپوشیوں کے ذریعے مطلب برآری کی مہم، مد مقابل کی کردارکشی کے لئے کمر باندھنے کی مہم، مخالفین کی پردہ دری و عیب جوئی کی مہم۔  انسانیت نوازوں اور مسیحاؤں کے لباس میں ملبوس قارون و شداد کی غریب پروری و انسانیت نوازی کے لئے اپنے سیاہ خزانوں کے دہانے کھول دینے کی مہم۔

  ہم ہندوستانی مسلمانوں کی عمومی شعوری سطح نہایت ہی سادگی اور بھولے پن سے بھری ہوئی ہے، ہماری اکثر یت زیادہ تر سادہ لوح ہی واقع ہوئی ہے، چڑھتے سورج کے سامنے اپنی جبین نیاز کو خم کرنا اور ظاہری چمک دمک سے اپنی نظروں کو خیرہ کرنا ہمارا  شیوہ بن چکا ہے، سیاسی شعبدہ بازوں اور بازیگروں سے ہر مرتبہ فریب کھاکر بھی بدمزہ نہ ہونا ہماری بدذوقی کی نہایت بدترین دلیل ہے، ہماری اس سادہ لوحی و فریب خوردنی پر میر تقی میر کا یہ شعر پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ

میرکیا سادہ ہے بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

  ضمیر فروشی  اور مفاد پرستی کا یہ حال ہے کہ جس کسی لیڈر یا کارپوریٹر سے کچھ ذاتی مفاد یا مال و منفعت کے حصول کا امکان ہوتا ہے ہم اس کا پرچار کرنا، اس کی تأیید کرنا اور اس کا دفاع کرنا اپنے دین و ایمان کا سب سے اہم فریضہ تصور کرتے ہیں، خواہ وہ شخص کیسا ہی نااہل، بددیانت، مفادپرست، ابن الوقت اور قوم و ملت کا سودا کرکے اپنا محل تعمیر کرنے والا کیوں نہ ہو ۔

  یقیناً یہ سب کچھ محض جہالت، سادہ لوحی اور نادانی ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ بازار سیاست کا یہ ہنگامہ انتخابات، اور اس ہنگامہ انتخابات میں معرکہ آزمائی کے لئے اترنا یا کسی کو  اتارنا، کسی کو اپنا بیش قیمت ووٹ دینا یا کسی کے لئے عوام کے بیش قیمت ووٹ کا مطالبہ کرنا یہ محض ایک ٹھپّہ یا بٹن ہی نہیں ہے کہ جس کو لگایا یا دبایا اور بھول گئے، یا صرف ایک جمہوری عمل ہی نہیں ہے جس کا دین وشریعت سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ ووٹ کا دینا یا ووٹ کا مطالبہ کرنا جمہوری عمل سے کئی زیادہ ایک دینی و شرعی ذمہ داری و فریضہ ہے، اور اس کی اپنی ایک شرعی حیثیت ہے۔

عام طور پر ہم لوگ ووٹ کی طاقت واہمیت اور اس کی شرعی حیثیت سے لاعلمی کی بناء پر اس کو ایسے افراد کے حق میں استعمال کرڈالتے ہیں جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہیں ہوتے ہیں، جس کا خمیازہ ہم لوگ اگلے پانچ سالوں تک اسی دنیا میں بھگتتے رہتے ہیں اور آخرت میں بھی جس کی جواب دہی کرنی پڑے گی ۔  لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو جان کر اس کا صحیح استعمال کریں ۔  ووٹ ایک شہادت اور گواہی ہے، ووٹ دینے والا اس شخص کے متعلق جس کو وہ اپنا بیش قیمت ووٹ دے رہا ہے اس بات کی شہادت اور گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص اس عہدہ کے لئے ہر طرح لائق ہے، اور اس میں اس منصب کی قابلیت موجود ہے۔  اور یہ کہ یہ شخص لیاقت و قابلیت کے ساتھ ساتھ امانت دار و دیانت دار بھی ہے۔

اگر بالفرض وہ نمائندہ اہل نہ ہو، یا اس میں اس کام کی قابلیت و اہلیت نہ ہو، یا وہ امانت دار و دیانت دار نہ ہو، اور ووٹ دینے والا ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی اگر اس کو ووٹ دیتا ہے تو گویا وہ جھوٹی شہادت دے رہا ہے، اور جھوٹی گواہی یا شہادت کی قباحت و شناعت اور شریعت کی نظر میں اس کے گندے اور گھناؤنے ہونے کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ رسالت  مآب  ﷺ نے اس کو  شرک کے ساتھ کبیرہ گناہوں میں شامل فرمایا ہے، اور کبیرہ گناہ  وہ ہوتا ہے جس کے مرتکب پر لعنت بھیجی گئی ہو اور اس کو جہنم کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہو۔ چنانچہ حضرت  ابوبکرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں سب سے بڑے بڑے گناہ نہ بتلاؤں؟  یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے، ہم نے کہا :  ائے اللہ کے رسول  ﷺضرور بتلائیے، آپ  ﷺ نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، (ابھی تک ) آپ ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا :  سنو!!  جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا، پھر آپ یہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کہ آپ خاموش ہوجاتے (صحیح بخاری و مسلم)۔

 اسی طرح کسی کے لئے لابنگ کرنا اور کسی کا پرچار و اشتہار کرنا یہ ایک طرح کی سفارش ہے، اگر کسی کی لابنگ اور پرچار سے  کوئی اہل امیدوار کامیاب ہوکر پوری طرح امانت و دیانتداری کے ساتھ اپنے علاقہ اور عوام کی نمائندگی اور ان کی خدمت کا فریضہ انجام دیتا ہے تو انشاء اللہ ایسے شخص کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے تگ و دوں کرنے والے افراد اجر سے محروم نہیں رہیں گے ۔  لیکن قابل و اہل اور امانت دار و دیانت دار امیدواروں کی موجودگی کے باوجود کسی نا اہل و غیرامانتدار امیدوار کے لئے لابنگ کرنا اور اس کی سفارش اور اشتہار و پرچار کرنا محض ایک جرم ہی نہیں بلکہ بدترین گناہ بھی ہے ۔  اگر کسی کی لابنگ سے کوئی نا اہل امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے  تو وہ جس قدر رشوت خوری کرے گا، حرام خوری کرے گا یا کمیشن و دلالی کا مرتکب ہوگا  اس کے ان تمام حرام و ناجائز کاموں کے گناہ میں یہ لابنگ کرنے والا بھی برابر شامل ہوگا۔

  لہذا ووٹر حضرات کو چاہئے کہ اپنا بیش قیمت ووٹ دینے سے قبل اپنے ووٹ کی طاقت و اہمیت اور اس کی دینی وشرعی حیثیت کو خوب اچھی طرح سمجھ کر کسی کو اپنا ووٹ دیں ۔  خود غرضی، عارضی مفادات، قرابت و تعلقات، دوستانہ مراسم  یا کسی کی غنڈہ گردی کے ڈر و خوف کی وجہ سے جھوٹی شہادت جیسے حرام اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔  یہ انتخابی عمل اور اس میں کسی امیدوار کا حصہ لینا محض سیاسی ہارجیت اور دنیاداری کا کھیل نہیں ہے بلکہ جیتنے والے امیدوار کے ہر اچھے برے کاموں کے اجر یا گناہ میں آپ بھی برابر کے شریک ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔