شاعر علمدار عدم کے اعزاز میں محفل مشاعرہ

ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا

ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا

جموں وکشمیر اکیڈمی آرٹ آف کلچر اینڈلینگویجز، ریجنل آفس راجوری اور پونچھ کے کلچرل اتاشی جواں سال منفرد شاعر علمدار عدم کی آمد پر ان کے اعزاز میں بہاری کالونی، شاہدرہ، دہلی میں ایک محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام شناخت (ادبی، ثقافتی اور سماجی تنظیم کے زیر اہتمام منعقد کیاگیا۔ محفل کی صدارت ڈاکٹر معروف خاں صاحب (پرنسپل ذاکر حسین میموریل سینئر سکنڈری اسکول، جعفرآباد، دہلی )نے کی۔ اردواکیڈمی دہلی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ شمع افروزی کی رسم چودھری شریف احمد نے انجام دی۔ مشاعر ے کی نظامت منفرد لب ولہجہ کے شاعرڈاکٹر ایم آر قاسمی نے کی۔

مہمان اعزازی علمدار عدم نے اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ راجوری اور پونچھ کا علاقہ اگر چہ خالصتا اردو کا علاقہ نہیں ہے مگر یہاں کیلئے اردو سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ بہت سے مشاعروں میں لوگوں کی تعداد اس قدر ہوتی ہے کہ آڈیٹوریم میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ انھوں نے کرشن چندر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ کرشن چندر اسی پونچھ کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے نوجوانوں کے حوالے سے اپنی دلی وابستگی کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے نوجوانوں کوجومنشیات کی لت میں پڑ سکتے تھے میں نے انھیں ادب کا نشہ لگا دیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر شہپر رسول نے کہاکہ اردو ہندوستان کی زبان ہے۔ یہ کسی خاص علاقہ اور مذہب کی زبان نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرا مانناہے کہ ہندستان میں باہمی رابطہ کی اگر کوئی سب سے بڑی زبان ہوسکتی ہے تو یہی اردو ہے مگر اس کے ساتھ مسئلہ کچھ اور ہے۔ انھوں نے سوالیہ لہجہ میں کہا کہ اگر مغل اعظم اور امراؤجان جیسی فلمیں ہندی کی ہیں تو اردو کی کونسی فلم ہوگی۔ انھوں اردو کے ہندستانی ہونے کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہندستان میں پوری دنیا سے لوگ خصوصا افغانستان، ایران اورعرب ملکوں کے لوگ تجارت ودیگر مقاصدسے آتے تھے تووہ لوگ ہندستانی زبان نہیں سمجھتے تھے اور یہاں کے لوگ ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے، مگر کسی صورت ٹوٹی پھوٹی زبان میں رابطہ ہوتا تھا ایسے ہی جیسے یہاں سے جاکرعرب ملکوں میں کام کرنے  والے لوگ رابطہ کی عربی سیکھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی وہ لوگ بھی کرتے تھے۔ سب کی زبانیں ایک دوسرے سے متاثر ہوتی رہیں۔ آگے چل کر صدیوں کا سفر کرنے کے بعدتمام زبان کے الفاظ سے مل کر جورابطہ کی زبان وجود میں آئی وہی ریختہ کہلائی۔ پھر اسی کو اردو کہا گیا۔ چونکہ اردو کا مطلب لشکر ہوتا ہے اور لشکرمیں بھی ہر رنگ نسل اور مذہب کے لوگ ہوتے ہیں جیسے اردو میں تمام زبان کے الفاط ہوتے ہیں۔ انھوں نے ارودسے اپنوں کی بے رخی کا بھی شکوہ کیا۔

مشاعرہ میں بہت سے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ہے۔ چندمنتخب اشعارباذوق سامعین کیلئے پیش ہیں۔

ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا

ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا

شہپر رسول

خاموشی سے جب بھی ہم دوچار ہوئے

آوازیں آواز لگانے لگتی ہیں

مجھ کو باہر جاتے دیکھ کے زنداں سے

زنجیریں طوفان اٹھانے لگتی ہیں

علمدار عدم

کررہا ہوں ناس یارو عوام الناس کا

فکر ہے دن رات مجھ کوصرف اپنی ساکھ کا

؎سوٹ پہنایا ہے مجھ کوآپ نے دس لاکھ کا

آپ کو پہنائی ٹوپی میں نے پندرہ لاکھ کی

احمد علوی

اس کے وعدے تھے کھوکھلے جتنے

وقت نے بے نقاب کرڈالا

وہ کیا اچھا کرے گا اس نے تو

اچھے دن بھی خراب کر ڈالے

اقبال فردوسی

یہ کس طرح کا سویر اوجود میں آیا

میں بجھ گیا تو اندھیرا وجود میں آیا

ارشدندیم

کہتا نہ تھا میں آپ سے معیار طے کریں

جوتی ہمارے پاؤں کی اب سرتک آگئی

سراج طالب

ورق پہ رات کے تحریر کہکشاں ہوجاؤں

پھر اپنی آگ میں اتنا جلوں دھواں ہوجاؤں

ڈاکٹر ایم آر قاسمی علیگ

میرادل بھی ایک ہے اور دل بھی ایسا دل

میرا دل ہے ایک شیشہ دیکھئے لوہا نہیں

زینت دہلوی

نفرتوں کی فصل سے تو کچھ نہ حاصل ہوسکا

اب محبت کا کوئی پودا لگا کر دیکھئے

سائرہ بھارتی

ان کے علاوہ رتیش کمار، نیاز احمد نیاز، سیف ازہر اور کئی دیگر شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ سینکڑوں کی تعدا د میں موجود سامعین نے مشاعرے کابھر پور لطف لیا۔

تبصرے بند ہیں۔