شاعر مشرق علامہ اقبال

ڈاکٹر عزیز سہیل

علامہ اقبال ؒایک بڑے مفکر اور عظیم المرتبت شاعر تھے علامہ نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی اور اپنی شاعری کے ذریعہ انہوں نے  امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی اور قوم کو ایک پیغام دیا۔ علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعہ انسانیت کی رہنمائی کی ان کی شاعری انسانی زندگی کو راہ راست پر لگانے کا ایک بہترین کارگروسیلہ ہے۔ آج علامہ اقبال کو اس دنیا سے رخصت کئے ہوئے آٹھ دہے گزر گئے لیکن ان کا کلام آج بھی امت کی رہنمائی اور ہمت افزائی کا باعث ہے۔

علامہ اقبال 9؍نومبر1877ء؁ کو سیالکوٹ(پاکستان)میں پیدا ہوئے۔ 1899ء؁ میں فلسفہ سے ایم اے کیا اور اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1905ء؁ میں انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان کا سفر کیا۔ 1907ء؁ میں انہوں نے جرمنی کی میونک یونیورسٹی سے Ph.D.کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1908ء؁ میں وہ واپس لاہور آئے اور وکالت کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ علامہ اقبال کو1923ء؁ میں بر طانوی حکومت کی جانب سے سر کا خطاب دیا گیا۔  21؍اپریل1938ء؁ کو علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اردو میں علامہ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبرئیل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز شائع ہوئے۔ علامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا اپنا ایک مستقل پیام ہے اور فلسفہ حیات بھی ہے اسی بنیاد پر ان کو شاعر انقلاب اور پیامبر شاعر بھی کہاجاتاہے۔ علامہ کوشاعر مشرق اور فلسفی شاعر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ابتداء میں انہوں نے غزل گوئی کی اور داغؔ کے رنگ میں غزلیں بھی کہیں لیکن انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم گوئی شروع کی اور نظم کی طرف مائل ہوگئے۔ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز بطور غزل گو شاعر کے کیا لیکن اقبال کو نظم کا شاعر کہا جاتاہے ان کی نظموں میں حب الوطنی کی نمایاں تصویر نظر آتی ہے علامہ اقبال کی وہ نظمیں جن میں ہمیں حب الوطنی اور امت مسلمہ کو دعوت عمل کا درس ملتا ہے۔  ان میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت،ترانہ ملی، نیا شوالہ، وطنیت، خطاب بہ نوجوا نان ِ اسلام، ہلال عید، آفتاب، تصویرِ درد، ترانہ ہندی شامل ہیں۔

علامہ اقبال نے شاہین کی علامت کو اپنے کلام میں جگہ جگہ بہ کثرت استعمال کیا ہے شاہین دراصل طاقتور پرندہ ہے جس کی خصوصیت فقر و غناء اور وسیع النظری ہے شاہین کی صفت سے مراد نوجوانوں کی سیرت و کردار ہیں۔  اس متعلق چند اشعار ملاحظہ ہوں؎

جوانوں کو مری آہ سحردے

پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے

خدایا آرزو میری یہی ہے

مرا نوربصیرت عام کردے

قناعت نہ کرعالم رنگ وبو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبدپر

توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

پرندوں کی دنیا کادرویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتانہیں آشیانہ

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرزکلام اور ہے

موجودہ دور میں علامہ اقبال کے کلام کے ذریعہ امت مسلمہ کو درس زندگی حاصل کرناچاہئے۔  اور اپنی زندگیوں کی قدیم روش کو چھوڑ کر ایک نئے جوش وجذبہ کے تحت بامقصد زندگی گذارنا چاہئے۔ ہمارے دلوں میں جوش وہ ولولہ پیدا کرنے کے لئے علامہ اقبال کایہ کلام کافی ہے جس کو مشعل راہ بناتے ہوئے ہم اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال کی شخصیت و تعمیر میں ان کے اساتذہ، تعلیمی ادارے اور جدید تعلیمی نظام نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے، علامہ اقبال کی شخصیت اور افکار پر روشنی ڈالٹے ہوئے مولاناابوالحسن علی ندوی نے کیا خوب لکھا ہے کہ

 ’’پہلا عنصرجو اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں داخلہ کے بعداول ہی دن حاصل ہواوہ اس کا ’’ایمان ویقین ‘‘ہے،یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اس کی طاقت وقوت اور حکمت وفراست کا منبع اور سرچشمہ ہے لیکن اقبال کا وہ’’ یقین و ایمان ‘‘اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں جو بے جان تصدیق یامحض جامد عقیدہ ہے بلکہ اقبال کا یقین عقیدہ محبت کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان،اس کی عقل وفکر،اس کے ارادہ و تصرف اس کی دوستی و دشمنی غرض کہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہات راسخ الایمان تھے اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت،شغف اور ان کا اخلاصہ انتہا درجہ کا تھا۔ ‘‘(نقوش اقبال،ص۵۵)

علامہ اقبالؒ کا کلام مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں کے لئے ایک نوشتہ دیوار ہے کاش موجودہ دور میں علامہ کے پیام کو مشعل راہ بناکر ہم اپنے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کریں۔  موجودہ دور میں بے دینی بے حیائی اور فحاشی و عریانیت اور مخرب اخلاق لٹریچر کا چلن عام ہے ایسے میں ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید سیرت النبیﷺ اور ہمارے اسلاف کے کارناموں کے ساتھ ہی علامہ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں اور ان پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران ہوں۔

علامہ اقبال کے چند منتخبہ اشعار جن ایمان و عقیدہ کو تازگی ملتی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

 یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو

۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

۔

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

 روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

۔

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے

جہاں گیر وجہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا

۔

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے

۔

خود ی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

۔

 نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کانبیؐ دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

 کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک

۔

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

 کچھ بھی پیغام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں

۔

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

۔

ہر مسلماں رگ باطل کے لئے نشتر تھا

اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہرتھا

جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈرتھا

۔

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورتوحید کا اتمام ا بھی باقی ہے

تبصرے بند ہیں۔