شام : انبیاءکی سرزمین ہوئی خون آشام

محمد شاہ نواز عالم ندوی

واقعات اتنے دردناک ہیں کہ میں ہواس باختہ ہوں کہ کیالکھوں اور کہاں سے بات شروع کروں۔ رہ رہ کر ایک ہی سوال ذہن میں گردش کرتاہے کہ آخر یہ ہوکیوں رہاہے؟کل کشمیر جل رہا تھا، آج شام کا شہر حلب جل رہا ہے۔آمر بشار الاسد کی حکومت اور اس کے فوجی تاریخ کا بدترین قتل عام کررہے ہیں۔عورتیں بچے اور بوڑھے سب زد پر ہیں۔ صورت حال خوفناک ہے۔ حلب کے مشرقی حصہ میں بشار الاسد کے ظلم، جبر اور تشدد سے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے قبضہ والے چھوٹے سے علاقہ میں پھنسے ہوئے لوگوں نے گزشتہ روز جذباتی انداز میں اپنے آخری پیغامات بھیجے اور شامی فوج کی گولہ باری بمباری کے درمیان ان لوگوں نے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی۔گزشتہ رات ایک رضاکار لینا شامی نے ٹویٹ کیا ”پوری دنیا کے لوگو، سوئیں نہیں۔ آپ کچھ کر سکتے ہیں، مظاہرے کریں اور اس قتل عام کو رکوائیں۔“اپنے ویڈیو پیغام میں لینا شامی نے کہاکہ ہر کوئی جو مجھے سن سکتا ہو! محصور افراد کا حلب میں قتل عام ہو رہا ہے۔ یہ میرا آخری ویڈیو ہو سکتا ہے۔آمر اسد کے خلاف بغاوت کرنے والے50 ہزار سے زیادہ لوگوں کے قتل عام کا خطرہ ہے۔ لوگ بمباری میں مارے جا رہے ہیں۔ ہم جس علاقہ میں پھنسے ہوئے ہے یہ دو مربع میل سے بھی چھوٹا ہے۔ یہاں گرنے والا ہر بم تباہی اور قتل عام ہے۔ حلب کو بچاو؟ انسانیت کو بچاو؟۔(بحوالہ بی بی سی عربی)
حلب سے آنے والے باقی پیغامات میں لوگوں کی امید ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے۔ ”ہم بات چیت سے تھک گئے ہیں، تقریروں سے تھک گئے ہیں۔ کوئی ہماری نہیں سن رہا ہے۔ کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔ وہ دیکھو بیرل بم گر رہا ہے۔“یہ ویڈیو بم گرنے کی آواز کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ایک سات سالہ بچی بنا العابد نے اپنی ماں کی مدد سے منگل کی صبح دل کو جھنجھوڑنے والا پیغام ٹویٹ کیا:”میں مشرقی حلب سے دنیا سے لائیو بات کر رہی ہوں۔ یہ میرے آخری لمحے ہیں یا تو میں زندہ بچوں یا مر جاو¿ں۔“حلب میں قیامت خیز منظر ہے اور نفسی نفسی کا عالم ہے۔بشار الاسد کی درندہ فوجیں قتل عام کررہی ہیں۔دنیا خاموش ہے۔اس سے پہلے کے ٹویٹس میں بنا نے لکھا:”آخری پیغام۔ گذشتہ رات سے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ میں بہت حیران ہوں کہ میں زندہ ہوں اور ٹویٹ کر پا رہی ہوں-اس کے کچھ گھنٹے بعد بنا نے لکھا کہ میرے والد زخمی ہو گئے ہیں۔ میں رو رہی ہوں۔حلب سے موصول ہونے والے پیغامات سے یہ واضح ہے کہ وہاں اب تک کی شدیدترین بمباری ہو رہی ہے۔مشرقی حلب میں کام کرنے والے شامی ریلیف گروپ وہائٹ ہلمٹس نے لکھا: ”جہنم کا منظر ہے۔ تمام سڑکیں اور منہدم عمارتیں لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔“
مشرقی حلب سے ٹویٹ کرنے والے استاد عبدالکافی الحمدہ نے اسے ”قیامت کے دن“سے تعبیر کیا۔انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا: ”ہر طرف بم گر رہے ہیں۔ لوگ بھاگ رہے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں، صرف بھاگ رہے ہیں۔ سڑکوں پر زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں جا پا رہا ہے۔ کچھ لوگ ملبے میں دبے ہیں۔ کوئی ان کی مدد نہیں کر پا رہا ہے۔ انھیں مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ گھر ہی ان کی قبر ہے۔ “ ایک لائیو ویڈیو میں انھوں نے کہا:”اب اقوام متحدہ پر اعتماد مت کرو۔ بین الاقوامی برادری پر انحصار مت کرو۔ یہ نہ سوچو کہ انھیں نہیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم مارے جارہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم عہد نو کی تاریخ کے سب سے شدید قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔میں بس یہ چاہتا تھا کہ میری بیٹی کیلے چکھ پائے۔ اسے اچھا کھانا پسند ہے۔ اس نے کبھی ایسا کھانا نہیں کھایا۔ میں شاید اسے کبھی اچھا کھانا نہ کھلا پاو¿ں۔کچھ لوگ حلب کے اندر سے بی بی سی کو پیغام بھیج پائے۔ ایک باپ نے لکھا کہ یہ آخری پیغام ہے۔ ان سب کا شکریہ جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے لیے دعا کی۔ اب سب ختم ہو گیا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ ہم سب کو مار دیں گے۔ حلب کے بارے میں فیس بک پر اطلاعات دینے والے صفحے پر لکھا گیا کہ سڑکیں لاشوں سے بھری ہیں۔حلب کو الوداع۔بہرحال حلب جل رہا ہے اور تاریخ کا بدترین قتل عام جاری ہے۔(بحوالہ بی بی سی عربی)یہ وہ واقعات ہیں جو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہیں۔ یہ کیوں ہورہاہے، آخر امت اسلامیہ اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے، ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ یہ چند اہم سوالات ہیں جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
انتہائی معذرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ یہ سب ہمارے شامت اعمال کے نتائج ہیں- ہم ان برائیوں میں ملوث ہیں جن کو مٹانے کے لئے آقائے مدنی تاجدار بطحا کو مبعوث کیاگیا- امت جسد واحد ہے جب جسم کے کسی حصہ کو ٹھوکر لگتی ہے تو پورا جسم اس درد میں شریک ہوتاہے- (خلاصہ حدیث نبوی) لیکن متفرق ومنتشر ہونے اور کرنے کا سبق سیکھاہے- دشمنان اسلام کو اور کیا چاہئے وہ تو یہودیوں کے اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں کہ بانٹو اور حکومت کرو، بغض وحسد ہم میں ہے، نکاح کو ہم نے مشکل اور زنا کو آسان کردیا، جبکہ اسلام کا نقطہ¿ نظر تو تھاکہ نکاح اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے- شراب ہمارے معاشرہ کا فیش بن چکی ہے، شراب (خمر) کو مختلف ناموں اور نئے لیبلس کے ساتھ معاشرہ میں عام کردیا گیاہے- حق تلفی ہم کرتے ہیں، ظلم ہمارا شیوہ ہے، وہ بھی صرف اپنو ں پر کیوں کہ غیروں کے پاس تو ہماری دال نہیں گلتی ہے- انصاف خود انصاف کے لئے ترس رہاہے- علماءسے اسی طرح ہم دور ہوچکے ہیں جس طرح پچھلی قومیں اپنے انبیاءاور علماءومصلحین سے دور ہوگئی تھیں- یہی نہیں دانشوران قوم وملت نے بھی قوم کو تنہا چھوڑدیا ہے، اپنے مفاد کی حد تک قوم کا استعمال کرتے ہیں اور پھر ان سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں- اختلاف کی ایسی بری شکلیں پیدا ہوچکی ہیں کہ بنی اسرائیل کے اختلاف کی صورتیں اور شکلیں ہیچ نظر آرہی ہیں- ان سب کا نتیجہ یہ ہواکہ اللہ نے ہم سے منہ موڑلیاہے- اپنی رحمتیں ہم سے اٹھالی ہیں- ہم پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کردیاہے- کیوں کہ قانون الٰہی ہے ”یداللہ علی الجماعة“ اللہ کی رحمت اور اس کی قدرت تو جماعت پر ہواکرتی ہے اور اس کے برعکس ”من شذ شذ فی النار“ جس نے اختلاف کیا اور جماعت سے علاحدگی اختیار کی وہ جہنم رسید ہوگیا- (حدیث نبوی)
بس ضرورت ہے کہ ہم نئے سرے سے اپنے ایمان کی تجدید کریں، اور نئے جوش اور حوصلوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوں- یہ تو ہم کرہی سکتے ہیں- پھر دعائیں مانگیں اور آج دور ہے انٹرنیٹ اور میڈیا اور قلم کا، اس لئے دانشوران قوم وملت اور اہل قلم سے عاجزانہ اپیل ہے کہ اپنے قلم سے قلمی جہاد شروع کریں، ظلم وعناد، سرکشی اور اسلام دشمنی کے خلاف یک آواز ہوکر میڈیاکے ذریعہ اپنی منوانے کی کوشش کریں- لیکن ان سب سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد کی شدید ضرورت ہے- اپنی انا کو کچل کر ہم کی وسعتوں میں آنے کی ضرورت ہے- اللہ توفیق سے نوازے آمین-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔