شام میں انسانیت کی شام

محمدصابرحسین ندوی

آج چہار سو مسلمان شیطانیت و باطل پرست طاقتوں کے نرغہ میں ہیں، مشرق و مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کو روحانی آزمائشوں سے لے کر سر قلم کر دئے جانے اور زمین دوز کردینے پر آمادہ ہیں، ان کے حوصلے، اعتماد، ایمان اور زندگی پر شب خوں مارا جا رہا ہے، ابھی تازہ خبر شام کی ہے جہاں حوثیوں اور روسیوں نے آتشگیری سے حلب اور حماۃکو تہس نہس کرنے کے بعد’’غوطہ‘‘کو نیست ونابود کردیا ہے، جواں مرد، عورتیں، بوڑھے اور خصوصا بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کردیا گیا اور پورا کا پورا ملک ویران و بیابان ہوتا نظر آتا ہے، لاشوں کے انبار نے گویا منارہ بنادیا ہو، ٹپکتے خون اور سسکتی آہوں نے شہر خموشاں سی وحشت پیدا کردی ہے، تکبیر وتہلیل کی صدائیں دل چیر دیتی ہیں، معصوموں کی چیخیں گویا کانوں میں آگ سے تپی سلائیوں کا کام کر رہی ہوں، دل بیٹھا جاتا ہے، کلیجا منھ کو آتا ہے، آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور بار بار اپنے ماضی کی ورق گردانی کررہی ہیں۔

واقعہ یہ ہے ؛کہ یہ وہی شام ہے جس سے آثار قیامت وابستہ ہیں، جہاں انبیاء کرام علیہم السلام نے دستک دی، اور جس کاتعلق قدیم اسلامی وراثت سے ہے، جو عہد قدیم میں سلطنت روما مرکز تھا، جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےاس کی جانب سب سے پہلا مسلمانوں کا قافلہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فوج کشی کی تھی، اور پھرجیش اسامہ کی فتح وکا مرانی کے بعدآپؓ نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی معیت اور تقریباچارہزار مجاہدوں کی قیادت کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولیدؓ کوملک شام کی طرف روانہ کیا تھا ؛جنہوں نے سب سے پہلے شمالی اور مشرقی فلسطین کو فتح کیا اور پھر حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ایک طویل مجاہدہ وقتل قتال کے بعدپندرہویں ہجری میں جنگ یرموک سے قبل ہی شام پر اسلامی پھریرا لہرادیاتھا، نیز یہ وہی شام ہےجو حضرت معاویہ كا پائے تخت اور سلطنت وسطوت کی گواہ ہے، جس کی سرسبزی و شادابی اور خوبصورتی نے ہمیشہ نظر کو خیرہ کیا، اس کا تمدن اور اس کی ثقافت پر تاریخیں رقم کی گئیں ہیں، شاید اس کی سب بڑی وجہ وہ احادیث مبارکہ ہیں جن میں شام کی فضیلت اور ان میں قیام کو مبارک بتلایا گیا۔

ایک روایت میں آپ ﷺکا ارشاد ہے:سَتُفْتَحُ عَلَيْكُمُ الشَّامُ، فَإِذَا خُيِّرْتُمُ الْمَنَازِلَ فِيهَا، فَعَلَيْكُمْ بِمَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ، فَإِنَّهَا مَعْقِلُ الْمُسْلِمِينَ مِنَ الْمَلَاحِمِ، وَفُسْطَاطُهَا مِنْهَا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: الْغُوطَةُ

’’عنقریب تمہارے ہاتھوں شام فتح ہوجائے گا، جب تمہیں وہاں کسی مقام پر ٹھہرنے کا اختیار دیا جائے تو دمشق نامی شہر کا انتخاب کرنا، کیونکہ وہ جنگوں کے زمانے میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوگا اور اس کا خیمہ (مرکز) غوطہ نامی علاقے میں ہوگا‘‘ (مسند احمد: ۱۷۴۷۰)، حضرت ابو الدرداءرضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:إِنَّ فُسْطَاطَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ بِالْغُوطَةِ، إِلَى جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: دِمَشْقُ، مِنْ خَيْرِ مَدَائِنِ الشَّامِ’’مسلمانوں کا خیمہ جنگ کے روز غوطہ (ایک جگہ کا نام ہے، جہاں اس وقت خونی کھیل کھیلا جارہا ہے) میں ہوگا مدینہ کی طرف جسے دمشق کہا جاتا ہوگا، جو مدائن شام کے بہتر علاقوں میں سے ایک ہے‘‘(ابوداؤد: ۴۲۹۸)، یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی ہے جس کے الفاظ میں یہ صراحت ہے کہ ان دنوں سرزمین دمشق مسلمانوں کے منازل میں سے سب سے بہتریں منزل ہوگی(مستدرک حاکم:۴؍۵۳۴) اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عقر دار المؤمنین بالشام ’’(فتنوں کے دور میں ) مومنوں کا ٹھکانا شام ہوگا‘‘(نسائی :۳۵۶۱)۔ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں : اس فرمان نبوی کا اشارہ ہے کہ دور فتن میں شام ایمان والوں کا پرامن ٹھکانا ہوگا جہاں وہ اپنے دین وایمان کی حفاظت کرسکیں گے(النہایہ:۳؍۷۱)، مشہور صحابی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ شام کو اہل حق کا مرکز بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا، ان کو رسوا کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہونچے گا اور قیامت تک وہ اسی حالت پر ثابت قدم رہیں گے، (روایت کے راوی حضرت)عمر بن ہانی مالک بن یخامر کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا یہ لوگ ملک شام میں ہوں گے ‘‘( بخاری:۳۶۴۱)۔

حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَيَصِيرُ الْأَمْرُ أَنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ، فَقَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ، فَقَالَ: عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيَرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيَرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ وَاسْقُوا مِنْ غُدَرِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ – عَزَّ وَجَلَّ – تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِه

’’ عنقریب معاملہ اتنا بڑھ جائے گا کہ بے شمار لشکر تیار ہو جائیں گے چنانچہ ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک عراق میں، ابن حوالہ رضی اللہ عنہ نے عر ض کی یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو مجھے کوئی منتخب راستہ بتا دیجئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا، کیونکہ وہ اللہ کی بہترین زمین ہے، جس کے لئے وہ اپنے منتخب بندوں کو چنتا ہے، اگر یہ نہ کر سکو تو پھر یمن کو اپنے اوپر لازم کر لینا، اور لوگوں کو اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اہل شام اور ملک شام کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی ہے‘‘(مسند احمد: ۱۷۰۰۵)۔

کفالت اپنے ذمہ لینے کا مطلب محدثین نے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی اس ملک کی اور اس کے باشندگان کی ہلاکت اور دشمنوں کے تسلط سے خصوصی حفاظت فرمائیں گے، اس لئے کہ اس سرزمین کو اللہ نے اپنے منتخب بندوں کے لئے متعین کیا ہے، اور اللہ کے منتخب بندےیہاں رہتے ہیں، چناں چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا يُسْقَى بِهِمُ الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ وَسَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمُ الْعَذَابُ’’ ابدال شام میں ہوتے ہیں، یہ کل چالیس آدمی ہوتے ہیں، جب بھی ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ بدل کر کسی دوسرے کو مقرر فرما دیتے ہیں، ان کی دعاء کی برکت سے بارش برستی ہے، ان ہی کی برکت سے دشمنوں پر فتح نصیب ہوتی ہے اور اہل شام سے ان ہی کی برکت سے عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے‘‘(مسنداحمد:۱؍۱۱۲، طبرانی :۵؍۳۹)۔ شام کی فضیلت کے سلسلہ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رَأَيْتُ عَمُودًا مِنْ نُورٍ خَرَجَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي سَاطِعًا حَتَّى اسْتَقَرَّ بِالشَّامِ ’’میں نے (خواب میں ) دیکھا کہ نور کا ایک ستون میرے سر کے نیچے سے برآمد ہوا، اوپر کو بلند ہوا اور پھر ملک شام میں جا کر نصب ہوگیا ‘‘(دلائل النبوۃ  بیہقی: ۶۔ ۴۴۹)۔ حضرت علی نے فرمایا:اہل شام کو گالیاں نہ دو ان میں ابدال ہوتے ہیں ’’لاتسبوا اھل الشام فان فیھم الابدال، وسبوا ظلمتھم‘(مستدرک حاکم۴؍۵۵۳، ھکذا فی البیھقی:دلائل النبوۃ)۔

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ، فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي، فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ ’’ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لیجایا جارہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا یاد رکھو! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا(مسند احمد: ۲۱۷۳۳)۔ ‘‘(یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس خواب کی تعبیر یہ بیان کی کہ فتنہ کے ظہور کےوقت میں ایمان شام میں ہوگا)، حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَحَوَّلَ خِيَارُ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى الشَّامِ، وَيَتَحَوَّلَ شِرَارَ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى الْعِرَاقِ وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک عراق کے بہترین لوگ شام اور شام کے بدترین لوگ عراق منتقل نہ ہو جائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم شام کو اپنے اوپر لازم پکڑو‘‘(مسند احمد: ۲۲۱۴۵)۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: ملک شام کے لئے خوش خبری ہے، ملک شام کے لئے خوش خبری ہے، میں نے پوچھا کہ شام کی کیا خصوصیت ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ملک شام پر فرشتے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ (مسند احمد:  ۲۱۶۰۶، ترمذی: ۳۹۵۴)، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، وَفِي يَمَنِنَا’’ اے اللہ ہمیں ہمارےشام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما‘‘(بخاری: ۱۰۳۷)، ان روایات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شام مقدس اور بابرکت سرزمین ہے، جس میں اللہ نے برکتوں کو چھپا رکھا ہے اور جسے اپنے مقربین متقین کے مسکن کے طور پر منتخب کیا ہے، مزید یہ کہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرزمین شام (خیال رہے! احادیث میں شام سے مراد اردن، فلسطین اور لبنان بھی ہیں )کو ہی میدان حشر بنایا جائے گا جہاں قیامت کے بعد اولین وآخرین جمع ہوں گے، چناں چہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:الشَّامُ أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ ’’شام حشر ونشر کی سرزمین ہے ‘‘( مسند بزار:۳۹۶۵)۔

ہائے افسوس !آج باہمی خانہ جنگی اور ان میں بیرونی طاقتوں کی دخل اندازی سے لے کر عرب حکومتوں کی بد نیتی اور دین بیزاری اور مغرب پرستی نے اسے تار وتاراج کردیا ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام کے نام لیوا اور "انما المؤمنون اخوة” کا دم بھرنے والوں پر جوں تک نہیں رینگتی، اور "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا”کا سبق پڑھنے والے آج باہمی اختلافات ونزاعات میں ایسے مگن وبد مست ہیں کہ خواب خرگوش سے فرصت نہیں، اور”مَثَلُ المؤمنين في تَوَادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم: مثلُ الجسد، إِذا اشتكى منه عضو: تَدَاعَى له سائرُ الجسد بالسَّهَرِ والحُمِّى”کے دعویدار بدن چھلنی ہونے اور درد وبےتابی کے باوجود بھی ہونٹوں پر مہر لگائے بیٹھیں ہیں، تو وہیں حضور ﷺ کےاس فرمان کو بھی بھول گئے:’’جب اہل شام تباہی وبربادی کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(ترمذی:۲۱۹۲، باب ماجائ فی الشام)۔ *حالانکہ اس امت کے جاں بازوں اور بہادروں کی داستانیں ایسی ہیں کہ ایمان وعقیدہ سے خالی شخص اسے دیومالائی تصور کرے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین اور مسلمانوں کے خون کو حرام بتلانے سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موت کے آخری لمحہ میں بھی جیش اسامہ کو روانہ کرنا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خالد بن ولید، سعد بن وقاص، عمرو بن عاص اور حضرت علی کی جفاکشی و مجاہدانہ کردار کیوں نہیں یاد کرتے، عمادالدین زنگی، نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی اور محمد فاتح جو تین لاکھ سپاہیوں کو لے کر قسطنطنیہ فتح کرنے چلا تو اس نے اپنی عقل مندی وکفن بردوشی کا یہ مظاہرہ کیا کہ لکڑیوں پر چربی مل کر ستر جہاز قاسم پاشا کی سمت سے سمندر میں اتاردیا تھا، اور یہ معتصم بااللہ جس نے دور دراز سے "وامعتصماہ! کی صدا سن کر ایک خاتون کی مظلومیت کا جواب دیا اورظالم حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ (دیکھئے:انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثراز:سیدی علی میاں ؒ)

آج عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود ؛طاغوتی طاقتوں نے لقمہ تر سمجھ لیا ہے، آخر کیا بات ہے؛ کہ مظالم کی یہ سسکیاں ہماری رگوں میں پھڑ پھڑاہٹ پیدا نہیں کرتیں، ہمارے دلوں میں یہ کیسا جمود اور تعطل ہے؛ جسے معصوموں کی آہیں بھی تحریک نہیں دیتیں، یہ کونسا اسلام اور یہ کون سے مسلم اور کس کتاب کے متبعین اور کس نبی کے پیرو ہیں، جو مظالم برداشت کرتےہیں اور اف بھی نہیں کرتے؛ جو ظالموں کے ہاتھ مروڑنے کی طاقت اور صلاحیت سے محروم ہیں، جو موصول وڈیوز اور ظلم وقہر کی داستان بیان کرتی تصویریں دیکھ کر سرد وبےجان سے پڑے رہتے ہیں، جس کا خون ابال نہیں مارتا، جسکی غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی بیدار نہیں ہوتی، جس میں کوئی طوفان اور تموج پیدا نہیں ہوتا اور پل پل مسجدوں اور منبرون پر، درسگاہون اور محفل یاراں میں وعظ و پند اور مراقبت و للہیت کی شیخی بگھارتے ہیں، اللہ۔ ۔ ۔ اللہ۔ ۔ ۔ کیا یہ شان مسلمانی ہوسکتی ہے۔ !

حقیقت یہ ہے ؛کہ اس دور بے مروتی اور خزاں میں اسلام کے ایسے پھلدار درخت کی ضرورت ہے جو وقت اور تقاضہ کے اعتبار سے برگ وبار لائے اور موسم بہار کی وہ فضا قائم ہو ؛جہاں بے نظیر انسانیت وجواں مردی اور شجاعت وبہادری کا بول بالا ہو، جن میں اضمحلال وانحطاط کے بجائے عزیمت وجد وجہد کا عنصر نظر آئے، جو ممالک وحکومت اور سلطنت کی دریوزہ گرنہ ہو ؛بلکہ ا س کا ہر فرد اور ہر شخص اپنے آپ میں ایک امت اور عزم وبلندی میں ہمالیہ کو شرما دے، وہ سرحدوں اور قیود کی پابندیوں سے آزاد ہو کر انسانیت کی کھیتی کو سیراب کرے اور دعوت وتربیت، بلند سیرت، مجاہدانہ کردار، حوصلہ وایثار پیشہ داعی وسپاہی ہوں جو اپنے ایمان ویقین، للہیت وخلوص اور دینی جوش وحمیت سے قرن اول کی یاد تازہ کردیں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مظلوم کی حمایت کا سیدھا سا کلیہ یہ ہے کہ ظالم کو پہچان کر اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے اس کے ظلم کی ساری داستان (بنا کسی افواہ ، جذباتی دباؤ ، اور غیر تصدیق شدہ خبر کے) سب سچ سچ دنیا کو بیان کر کے بتا دیا جائے کہ یہ شخص ظالم ہے اور یہ فلاں ظلم فلاں غرض کےلیئے کر رہا ہے۔ ظالم کو پہچان کر بے نقاب کرنا ، اور اس کی زبان ، عمل اور ہر طرح سے مذمت کرنا ہی سچ میں مظلوم کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ ورنہ صرف مظلوم کی مظلومیت اور زخم دکھانا اس کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔

    شام میں معصوم اور بے گناہ شیعہ، سنی اور دیگر طبقوں عوام کے خون سے جس کے بھی ہاتھ رنگے ہیں چاہے وہ بشاری ہوں، ایرانی ہوں، سعودی ہوں، یا ترکی ہوں، سب ظالم ہیں اور ایک ہی طرح سے مذمت کے قابل ہیں۔ ( غیر مسلموں سے تو شکوہ ہی کیا)۔

    شام کے ظالم بلکل یمن ، بحرین اور عراق کے معصوم اور بے گناہ انسانوں کے خون میں رنگے ظالموں کی طرح ہی مذمت اور نفرت اور بے نقاب ہونے کے لائق ہیں۔

    جب بات مظلوم کی آتی ہے تو مظلوم کا کوئی مسلک مذہب رنگ فرقہ نسل اور قوم ملت نہیں ہوتی۔ سب انسانوں کا خون ایک جیسے ہی سرخ ہوتا ہے اور سارے انسانوں کو ایک جیسے ہی درد محسوس ہوتا ہے۔
    تو جب مظلوم کے ساتھ مذمت اور نفرت کا اظہار کرنا ہو تو سارے ظالموں، چاہے وہ جس بھی مذہب، رنگ ،نسل، قوم، ملک ملت علاقے اور رنگ کے ہوں۔ سب کو ایک ہی طرح برابری سے بے نقاب کر کے مذمت اور نفرت کا نشانہ بنایا جانا چاہیے۔ تب ہی مظلوم کی حمایت سچی ہو گی۔ ورنہ ایک جگہ ظالم اور دوسری جگہ مظلوم کے ساتھ ہونے کا مطلب بلکل ڈھونگ اور منافقت ہوتی ہے۔

    عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
    یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
    سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
    حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

تبصرے بند ہیں۔