شام کی شامِ غریباں: کب سحر ہوگی؟

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 "شام” کی وہ مقدس وبابرکت سرزمین  جہاں متعدد روایات کے مطابق قیامت کے دن محشر بپا ہو گا، آج وہ ظالم بشار الاسداوراسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں قیامتِ صغری کا منظر پیش کررہی ہے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ سرزمین ِ شام پرمحشر کی سی دہشت و ہولناکی اور قیامت کی سی وحشت وسراسیمگی ہرسُو پھیلی ہوئی  ہے، سسکتے بلکتے، گودوں میں دم توڑتےمعصوم بچے، بچوں کی شہادت پر روتی چلاتی، سینہ  پیٹتی بےبس مائیں ، خواتین و بچوں کو  کاندھوں پراٹھائے لاچار شوہر، مجبورباپ اور بےکس بھائی ….فریادکریں تو کس سے کریں ؟مددمانگیں تو کس سے مانگیں ؟دکھ درد سنائیں تو کسے سنائیں ؟

کوئی ایسا اہل دل ہو؟  کہ فسانہ مصیبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے

    شام کے دارالحکومت دمشق کے مشرقی حصے "غوطہ” میں جو باغیوں کے زیر قبضہ ہے، ہفتے کےروز فضائی حملوں کےخوفناک  سلسلے میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں ؛جس کے بعد پچھلے ایک ہفتے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد500 سے متجاوزبتلائی جارہی ہے جن میں 120 بچے بھی شامل ہیں ۔ برطانیہ میں قائم سیرین آبرویٹری فار ہیومن رائٹس اور عینی شاہدوں نے بتایا کہ حالیہ فضائی حملے شام کی حکومت اور روس کی تازہ فضائی مہم کا حصہ ہیں اور یہ حملے اتنے شدید ہیں کہ کسی کو یہ موقع تک نہ مل سکا کہ وہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کر سکے۔

شام کی عوام ایک ڈکٹیٹر شپ کی قہرمانیوں کی زد میں ہے، ان کی زندگی ویران و اجیرن ہو چکی ہے، ظلم و بربریت کا علمبردار ایک سرکش حاکم ان کے لیے عذاب الیم بن کر مسلط ہے۔ اب تک لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور اس قتل عام سے کہیں زیادہ متاثرہ خاندانوں اورزخمی افراد کی تعداد ہے، ہزاروں افراد بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ، بے شمار گھروں کومنہدم کر کے ویرانیوں کو بسا دیا گیاہے۔ بدقسمت اہل شام اوراس کے مظلوم ایمانی حرارت سے لبریز نوے فیصد سُنّی مسلمان گزشتہ  نصف صدی سے ظلم و جبر اور بدترین کمیونسٹ نظریات رکھنے والی اقلیت شیعہ کے زیرِ تسلط سسک سسک کر غلامی کی زندگی بسر کررہےہیں ۔ منحوس کمیونزم نظام اور بدبخت اسد خاندان کی قوم دشمن پالیسیوں نے اہل ِ شام کی تمام تر انسانی حقوق ‘ آزادی اظہار رائے اور ترقی و خوشحالی کو برسہا برس سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ پہلے بشار الاسد کا باپ حافظ الاسد تیس سال تک قصرِ صدارت پر قبضہ جمائے ہوئے شامیوں کا خون چوستا رہا اورمخالفین سُنیوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتا رہا۔

اس بدبخت انسان نے صرف 1982ء میں حماة شہر میں علماء اور نہتے شہریوں پر ٹینکوں کی مدد سے چالیس ہزار کے لگ بھگ افراد کو بیدردی کے ساتھ قتل کیا اور پورے شہر کو بمباری کے ذریعے پیوند ِخاک کردیا اور ہزاروں سیاسی مخالفین ‘علماء ‘ دانشور’ صحافیوں کو پوری دنیا میں فلسطینیوں کی طرح اپنے وطن سے ہمیشہ کے لئے جِلا وطن کردیا۔ اس کے جہنم رسید ہونے کے بعد شامیوں کو یہ خام خیالی اور توقع تھی کہ اس کا بیٹا بزعم خود باپ سے مختلف ہوگا؟ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق بشار الاسد کے اس آمرانہ اقتدار کے دوران بھی شامی عوام سکھ چین کا ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکے اوروہی باپ والی آمرانہ طرزِ حکمرانی ‘ شامیوں کے مقدر میں پیوند لگاتی رہی؛لیکن سلام ہو شامی مسلمانوں کی اس دینی حمیت پر، سلام ہو ان کی مسلسل جہد وعزیمت پر سلام ہو ان کے ولولہ ایمانی اور غیرت اسلامی پر ؛جنہوں نےاپنے خون جگرسے ظالم حکمرانوں کے خلاف جہاد اور مزاحمت کے ایسے عناوین قائم کردیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔

"غوطہ” لہو لہو:

سرزمین شام  کی فضیلت سےمتعلق متعدد آیات وروایات قرآن وحدیث میں موجودہیں ؛مگربہ طور خاص "غوطہ”ــــ جہاں اس وقت  بم وبارود کی بارش  ہورہی ہے، فلک شگاف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ، زمین بوس ہوتی عمارتیں اور ان میں دب جانے والے سیکڑوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ــــ کےسلسلے میں بھی حضور ﷺنے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ مسلمانوں کا قیامت سے پہلے جو سخت قتال ہوگا اسمیں ان کا خیمہ غوطہ نامی شہر میں ہوگا جو دمشق کی جانب ہے۔ (طبرانی )

آج اسی شہر میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ، ہرسڑک اورہرگلی خون اگل رہی ہے، ملبوں سے لاشیں برآمد ہورہی ہیں ، فضائی حملوں اورکیمیائی ہتھیاروں سے خوفناک تباہی وبربادی کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے، ایک معصوم بچہ اپنی شہید ماں کاخون آلودہاتھ تھامے گریہ وزاری کررہاہے اور بلک بلک کر امت مرحومہ سے فریاد کررہاہےکہ کس قصور میں میری ماں کو موت کی گھاٹ اتاردیاگیا؟ کس گناہ کی پاداش میں وہ ماں کی ممتا سے محروم ہوگیا ؟وہ زبان حال سے کہہ رہاہے :میں بے کس ولاچار ہوں !رنج وغم کی تصویربنا کھڑاہوں ، آؤ ہماری بہنوں کو بچالو!ہماری ماؤں کی حفاظت کرو، ہمارے باپوں کا سہارا بنو!ہمارے گھر بارخاکستر ہوچکے ہیں ، ہماری دنیا اجڑ چکی ہے، ہمارا خاندان بکھر چکاہے۔

کلیجہ تھام لو! رودادِغم ہم کو سنانےدو

تمہیں دکھا ہو ا دل ہم بتاتےہیں بتانے دو

اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے؟:

اس ضمن میں کاروان امن وانصاف کے جنرل سیکریٹری مولانا سمیع اللہ خان کی تحریر سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

” اس وقت سب سے پہلے تو آپ کو یہ مکمل اطمینان ہونا چاہیے کہ اسلامی اعمال اور انسانی فرائض کسی خاص آواز کے مقید نہیں ، اگر آپ کو اطمینان ہوچکا ہے، کہ یہ مظلوم ہیں ، اور آپ ان کی مظلومیت پر باخبر ہوچکے ہیں تو اب آپ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ کسی کا انتظار کریں ، یا خاموش بیٹھے رہیں ، اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ آپکے ایمانی بھائی بھی ہیں تو پھر تو، شرعاً بھی آپ پر واجب ہوجاتا ہے کہ آپ کے اختیار میں جس قدر ممکن ہے آپ ان کے لیے جدوجہد کریں ، اس وقت ہندوستانی ہی نہیں عالمی سطح پر مسلمان یہ کوششیں بلا کسی رکاوٹ تھوڑی سی جدوجہد کے ساتھ کرسکتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو دعا اور خلوص نیت لازمی ہے، جس کے کہنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہی اصل عمارت اور جڑ ہے، اس سے ملنے والی طاقت سے آپ ان کاموں کو کریں !

1۔ شام کی صحیح صورتحال سے قوم کو باخبر کرائیں ، شام کی تاریخی اور اسلامی حیثیت عام کریں ، ظالم بھیڑیوں کی نشاندہی اور مظلوم بھائی بہنوں کی پہچان کرائیں ، سوشل میڈیا پر زبردست ٹرینڈ چلائیں ، اور ان ٹرینڈز میں عرب کے حکمرانوں اور حقوق انسانی کے دعویداروں کو لاکھوں کی تعداد میں ٹیگ کریں۔

2۔ ہر ملک میں ، ہر ملک کا سفارتخانہ ہوتا ہے، شامی سفارتخانے کو جھنجھوڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر انہیں خطوط بھیجیں ۔ ان کے سامنے زبردست مظاہرے کریں ۔

3۔ سعودی عرب مقتدر مسلم ملک ہے، تمام ممالک میں اسی کو سب سے زیادہ وقار حاصل ہے، لیکن عالم اسلامی پر مظالم کے وقت شترمرغ بن جاتاہے، ابھی بھی اس نے اہل شام / غوطہ کی طرف سے آنکھیں موند رکھی ہیں ، اسلیے خاص طور پرشامی سفارتخانے کے ساتھ ملک بھر میں سعودی عرب کے سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوں ۔

4۔ اس کے بعد عمومی طور پر عالم عربی بالخصوص سعودیہ، دوبئی، کویت، قطر اور ترکی کے سفارتخانوں کے نام جھنجھوڑنے والے خطوط بھیجنے کی پرزور مہم شروع کریں ، اپنے اپنے ممالک میں ان ملکوں کے سفارتخانوں کا مستقل آئینی روشنی میں احتجاجی گھیراؤ کریں ، اور ان ممالک کو مجبور کریں کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے ہر سطح پر اقدامات کریں ، ان ممالک پر اخلاقی دباؤ بنانا ہمارا ٹارگٹ ہو۔

5۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اپنے اپنے شہر و صوبے کی جمعیۃ علما ہند، جماعت اسلامی، جمعیۃ اہلحدیث اور رضا اکیڈمی کے دفتروں پر ڈیرا ڈال دیں ، نوجوانان اسلام اپنی ملی قیادتوں کو اسقدر جھنجھوڑیں کہ وہ مسلمانوں کے عالمی مسائل پر بھی ان کے جذبات و احساسات کو عملی میدان فراہم کریں، اس کے لیے آپ مرکزی، صوبایٔی، شہری و ضلعی جمعیۃ کے آفسوں پر جوق در جوق جائیں ، جمعیۃ کے ذمہ داروں کو راہ چلتے، اٹھتے، بیٹھتے، ہر وقت دستی درخواستیں دیں ، اور انہیں اس پر آمادہ کریں کہ شام کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی وہ ایکشن لیں۔

طوفانی پیمانے پر خطوط لکھیں ، ان کے میل پر بھیجیں ، ان کے گھروں پر بھیجیں ، ان کے گھروں پر جائیں ، جوق در جوق جائیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ وہ شام کے مظلوم و بے بس مسلمانوں کے لیے ہندوستان سے پرزور اقدامات کریں ، جس طرح ہمارے اسلاف نے خلافت پر شب خون مارے جانے کے خلاف ہندوستان میں اقدامات کیے تھے، لہذا ان اکابر علما کو آپ ان کے گھروں پر مستقل جا جاکر یہ احساس دلائیں کہ بھارت کا مسلمان ان کے اشاروں کا منتظر ہیں۔

 اخیر میں سب عزم مصمم کریں کہ وہ جب بھی، اور جیسے بھی ممکن ہوگا اپنے بڑوں کی سربراہی میں ممکنہ قانونی کارروائیوں کو مکمل کرکے ان شاءالله اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے سامان رسد سمیت کوشش کرینگے، بظاہر آپ کو یہ ناممکن نظر آرہا ہوگا لیکن ہماری سابقہ عظمت رفتہ کہتی ہے کہ ” جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ” اسلیے آپ اس وقت عزم و ارادے خلوص نیت، اور اس کو برلانے والے اعمال کے مکلّف ہیں ، سو آپ اپنے حصے کا کام۔ کریں ، اگر واقعی آپ کو مظلوموں کا بہت درد ہے، علاوہ ازیں ڈھنڈورا بازی مردہ ضمیری ہوتی ہے۔ "

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جمہوری تماشہ ٭
    —————
    جمہوریت کے چیمپئین ملک امریکہ اور دوسرے جمہوری چودھری روس ان دونوں کا بغل بچہ ایران اپنے پالتو جمہوری کتے بشار کے ذریعہ سے شام کے علاقہ غوطہ کی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کرتے ہیں ۔۔
    جمہوریت کا خالق فرانس اور برطانیہ بھی موجود ہیں لیکن چپ سادھے دیکھ رہے ہیں کوئی ہفتہ بھر خاموشی طاری رہتی ہے ۔۔۔
    غوطہ” شہر آہ وبکا "۔بنتا ہے کہیں کہیں مسلم شہریوں کی نیند کھلنے لگتی ہے تو جمہوریت کے یہ اصلی صورت گر ایک مزاح کرتے ہیں !!!
    جی جمہوریت کے تھیٹرسلامتی کونسل میں ۔۔۔
    جمع ہوتے ہیں ایک قراداد لاتے ہیں اس پر بحث ہوتی ہے پھر وہ پاس ہوتی ہے اس عمل میں بھی کچھ دن گزرتے ہیں اور آخر بحث وتمحیص کے بعد دنیا کے بہترین جمہوری ملک یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فوری جنگ بندی کردی جائے ۔
    غوطہ کے بچے ملبے تلے سسک رہے ہیں ، عورتیں زیر زمین جاچکی ہیں ، بوڑھے جوان عمارتوں تلے دب چکے ہیں ،۔
    جمہوری ممالک کے منہ کو لگے خون کی پیاس بجھتی ہے ۔۔
    تو کچھ مسلمان نیند میں پوچھتے ہیں یہ کیا ہورہا ہے ؟
    کیوں اتنا شور ہے ؟ یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ؟ یہ عورتیں کیوں چلا رہی ہیں؟
    قطر کے عربی کہتے ہیں فٹ بال کی تیاری کررہے ہیں.
    پاکستانی کہتے ہیں پی ایس ایل دیکھ رہے ہیں سعودی میراتھن ریس اور میوزیکل شو کروا رہے اور اماراتی مودی کے ساتھ پرارتھنا کررہے ہیں
    یہ شور کیوں ہے؟
    بس اتنی دیر میں جمہوریت کا ادارہ سلامتی کونسل کہتا ہے
    ارے آپ جاری رکھیں کیری آن ۔۔!!!
    نیلم مینر کی ادائیں دیکھیں ہم نے قرارداد پاس کر لی ہے جنگ بندی ہوجائے گی اور یہی نہیں ہم نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی بھیج دیا ہے کہ وہ امداد کی چوسنی بچے کھچے لوگوں کے منہ میں دے دیں گے ۔
    اچھا تماشہ ہے پہلے مارو کچھ کو ختم کردو جو قسمت سے بچ جائیں انہیں کچھ امداد دے دو اور اچھے جمہوری بچے ” بن جاؤ
    ابھی یہ کیا ہے ؟؟
    ارے
    اصل جمہوری تماشہ اور انسانی المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہہ رہی ہیں
    کہ قراداد کے پاس ہونے کے چند منٹ بعد ایک بار پھر شدید بمباری شروع ہوچکی ہے
    121 بچے 64 عورتوں سمیت کوئی 500 کے قریب انسانی کیڑے مکوڑے مارے جاچکے ۔۔
    کیسا جمہوری تماشہ ہے آیا نا مزہ ؟؟؟
    نوٹ فرمائیں کہ یہ وہ مغرب ہے جن کی جمہوریت کے رول ماڈل ہونے کے دعویدار ہمارے لیڈران سمیت لبرلز اور جمہوریت کی اسلام کاری کرنے والے اہل علم متجددین بھی ہیں ۔۔۔
    یہ ہے جمہوریت کے دور کا اصل چہرہ
    بھائی صاحب !!!
    ہمیں پتھر کا وہی دور لوٹادو کم از کم کوئی ایسا تماشہ تو نہیں لگاتا تھا
    خلافت راشدہ کی بات اس لئے نہیں کرتا کہ اس کی بات ” علمی ڈسکورس ” میں فرسودہ قراردی جاچکی ہے اب انسانی ارتقاء نے نیا جمہوری نظم حکومت متعارف کروایا ہے نام تو لےکر دیکھیں جمہوری ٹائیگرز آپ کو انتخاب خلفا کے دلائل دے کر جاہل نہ ثابت کردیں تو میں مجرم

    انا للہ وانا الیہ راجعون

    منقول

تبصرے بند ہیں۔