شام کے شہر حلب کا محاصرہ ٹوٹ گیا!

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب

شام کا تاریخی اور اہم ترین شہر حلب جوکہ ترکی کی سرحد سے بہت قریب واقع ہے، جولائی 2012 سے سخت خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ شہر کی آبادی پچیس لاکھ سے کم ہوکر تقریبا پانچ لاکھ رہ گئی ہے؛ اکثریت نے ہجرت کرکے ترکی یا لبنان میں پناہ لے لی ہے اور ایک بڑی تعداد جنگ کی نذر ہوچکی ہے۔

یہ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب عرب انقلابات کی لہر تیونس سے چل کر لیبیا اور مصر سے ہوتے ہوئے شام میں داخل ہوئی اور شام کی عوام نے اپنی جابر حکومت کے خلاف پرامن احتجاج شروع کیا، نتیجے میں حکومت نے احتجاج کرنے والی عوام کا قتل عام شروع کردیا۔ حکومت کا ظلم دیکھ کر خود شام کی فوج کا ایک حصہ حکومت کے خلاف ہوچلا، فوج کے اس حصے کو عوام کی تائید و نصرت حاصل ہوئی اور اس فوجی گروہ نے منظم ہوکر حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ شام کی حکومت سے دشمنی کی وجہ سے ابتداء میں اس گروہ کو امریکہ، مغرب اور بہت سے عرب ممالک کی تائید حاصل رہی جوکہ بعد میں ان کا اسلامی رجحان دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔

اب یہ خانہ جنگی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور اسلام پسند عوامی علاقائی تنظیموں نے اپنے اپنے علاقوں میں حکومت کے خلاف جنگ لڑ کر انہیں بے دخل ہوجانے پر مجبور کیا۔ خانہ جنگی کی یہ آگ حلب میں بھی داخل ہوئی اور دو سال کی مسلسل معرکہ آرائی کے نتیجے میں عوامی طاقتوں کو حلب کے اہم علاقوں پر فتوحات حاصل ہونے لگیں اور شہر میں موجود اسلحوں اور ٹینکوں کے ذخائر ہاتھ آنے لگے۔حلب کے ساتھ ساتھ آس پاس کی چھوٹی بستیوں پر جن میں حکومت نواز شیعہ اکثریتی  بستیاں بھی شامل تھیں اسلام پسند عوامی گروہوں کا محاصرہ ہوگیا اور 2014 میں قریب تھا کہ پورا شہر حکومت کے قبضے سے نکل جائے کہ اچانک عراق کی سرحدوں سے نکل کر داعش ایک طاقتور جنگی گروہ کی شکل میں خلافت کا نعرہ بلند کرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے اور شام کے اب تک کے دوطرفہ معرکے کو تین طرفہ بنا دیتی ہے۔ داعش کے سامنے جو طاقت بھی آتی ہے اس سے وہ جنگ کرتے ہیں اور جنگوں کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر تباہی پھیلاتے ہوئے تیزی سے علاقے فتح کرتے جاتے ہیں۔ داعش کا یہ قافلہ حلب تک پہنچتا ہے اور حلب کے آس پاس کی بستیوں میں چھوٹے چھوٹے علاقائی گروہوں کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیتی ہے۔ نتیجے میں لڑکھڑائی ہوئی شام کی حکومت کو سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے اور روس کو جنگ میں بلا واسطہ مداخلت کا جواز حاصل ہوجاتا ہے۔ اب شام کی حکومت روس اور ایران کی مدد کے ساتھ  دھشت گردی کے خلاف کاروائی کے نام سے حلب پر تباہ کن حملے شروع کردیتی ہے۔

ادھر مغرب، امریکہ اور بہت سے عرب ممالک احرار الشام جیسی اسلام پسند عوامی تنظیموں کی مدد یہ کہہ کر بند کردیتے ہیں کہ یہ تو اسلام پسند جہادی گروہ ہیں اور ان سے مزید ہمارا تعلق ممکن نہیں ہے۔ نتیجے میں اسلام پسند گروہوں کو حلب میں سخت حالات کا سامنا ہوتا ہے اور اسلام پسند تنظیموں کا حلب پر محاصرہ ٹوٹ جاتا ہے باری باری حلب کے اطراف کے کئی اہم علاقے ان کے ہاتھ سے نکل کر یاتو داعش کے قبضے میں چلے جاتے ہیں یا حکومت خود ان پر دوبارہ قابض ہوجاتی ہے اور شہر میں اسلام پسندوں کے ایک بڑے علاقے کا حکومت محاصرہ کرلیتی ہے اور تحریک کی رگِ جاں یعنی ترکی سے ان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔

اس محاصرے سے حلب کے تین لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں اور مجاہدین کی ایک بڑی تعداد بھی شہر میں محصور ہوکر رہ جاتی ہے۔ وقت گزرتے حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں اور حکومت کا محاصرہ توڑنے کی ساری کوششیں روسی جنگی جہازوں کی اندھادھند بمباری کے سامنے ناکام ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں اردوغان کی سرپرستی میں ترکی کی حکومت اپنا زبردست کردار ادا کرتی ہے اور شام میں الگ الگ ناموں سے لڑ رہے چھوٹے بڑے گروہوں کو متحد کرکے ایک محاذ پر لاتی ہے اور جیش الفتح کے نام سے ایک اجتماعی طاقت کھڑی کرتی ہے اور فوجی تربیت اور سازوسامان کے ساتھ ان کی پوری طرح پشت پناہی کرتی ہے۔ اور انہیں مزید منظم اور متحد کرکے میدان میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اتار دیتی ہے۔

یہ جنگ فریقین کے لیے اس طور پر بہت اہم ہوجاتی ہے کہ روس اور ایران کی بلا واسطہ مداخلت کے سامنے یہ عوامی طاقتوں کا امتحان بن جاتا ہے اور شام کی حکومت کے لیے مجاہدین کو ترکی سے کاٹ کر رکھنا اپنی بقا کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔ بہرحال اب شام کے مستقبل کا فیصلہ اس جنگ کو سمجھا جانے لگتا ہے۔

گھماسان کی جنگ چلتی ہے اور مجاہدین کو الله کی مدد حاصل ہوتی ہے اور حلب کا حکومتی محاصرہ توڑنے میں اسلام پسند تنظیموں کا اتحاد کامیاب ہوجاتا ہے۔ ترکی کے راستے سے سامان رسد حلب کے آزاد علاقے میں دوبارہ داخل ہوجاتا ہے اور باہر سے محاصرہ توڑنے والے مجاہدین محصور شدہ مجاہدین سے مل کر ایک دن جم کر جشن مناتے ہیں اور اگلے ہی روز پورا حلب آزاد کرنے کی مہم لیکر پورے جوش و جذبے کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔

شام کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ملک کا ایک بڑا حصہ یا تو کرد اکثریتی محاذ ‘ایس ڈی ایف’ کے زیر حکومت ہے جسے کہ امریکہ اور یورپ کی پوری مدد حاصل ہے اس گروپ میں اکثریت سیکولر یا کمیونسٹ مسلمانوں کی ہے اور یہ چند ماہ قبل اپنی آزادی کا اعلان کرچکے ہیں۔ ملک کا دوسرا بڑا حصہ داعش کے قبضے میں ہے جسے کسی ملک کی کھل کر تائید تو نہیں حاصل البتہ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے متشدد نوجوان آکر حصہ لے رہے ہیں اور لوٹ کھسوٹ، پٹرول کی بلیک مارکٹ اور خفیہ امداد ذریعہ آمدنی و توسیع ہے۔ یہ گروپ عراق سے لے کر شام کے کئی بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے اور بالجبر خلافت کے قیام کا اعلان کرچکا ہے۔ تیسرا بڑا علاقہ شام کے مقامی اسلام پسند گروہوں کے قبضے میں ہے جسے کہ ترکی کی تائید و سرپرستی حاصل ہے اور اس میں اخوان المسلمون اور دوسری اسلامی تحریکات سے جڑے ہوئے افراد شامل ہیں۔ باقی حصہ بشار الاسد کی حکومت کے قبضے میں ہے جسے لبنان کی حزب اللہ اور ایران و روس کی پوری مدد حاصل ہے۔

فی الحال حلب کے علاوہ شام میں دوسرا بڑا معرکہ داعش اور کردوں کے بیچ چل رہا ہے جس میں کردوں کو امریکی قیادت والا اتحاد، جس میں مغربی اور عرب ممالک شامل ہیں، اس اتحاد کے ہوائی حملوں کی مدد سے تیزی سے فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔

فی الحال حکومت کے قبضے میں دمشق، حمص، حماۃ، اللاذقیة، اور حلب کا تقریبا نصف حصہ، وغیرہ ہیں اور داعش کے قبضے میں الرقة، دیرالزور، المیادن ہیں اور حلب، حمص و حماة  کے اطراف کی بستیاں ہیں اور کردوں کے قبضے میں الحسکة، القامشلی، المالکیہ اور عین العرب وغیرہ ہیں، اور عوامی اسلام پسند تنظیموں کے پاس ادلب، درعا، جیزہ، بصری، حلب کا نصف حصہ وغیرہ ہیں۔

شام کی خانہ جنگی کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ کردوں کی جنگ صرف داعش کے خلاف ہے، حکومت اور اسلام پسند تنظیموں سے ان کا اختلاف تو ہے لیکن آپس میں جنگ نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار جبہة النصرة سے کردوں کی جنگ ہوتی تھی لیکن اب جبکہ جبہة النصرة نے اپنا نام بدل کر جبہة احرار الشام کر لیا اور القاعدة سے اپنا تعلق ختم کرلیا، اس بات کا اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ان کی کردوں سے جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ علاقوں کی تقسیم فی الحال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ داعش عموماً حکومت اور کردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ اسلام پسند عوامی جماعتوں کی جنگ عموماً حکومت کے خلاف ہی ہورہی ہے۔

آج جنگ میں کردوں اور اسلام پسند عوامی تنظیموں کا حوصلہ اور فتوحات کا رخ اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ امریکہ کی مدد سے کرد فوجیں داعش کو پیچھے ڈھکیل کر اپنے علاقوں کی کافی توسیع کرلیں گی اور اسلام پسند جماعتیں ترکی کی مدد سے شام کی حکومت کو سنی علاقوں سے  دھیرے دھیرے بے دخل کردیں گی اور شام کی حکومت دمشق کے آس پاس کے علاقوں تک محدود ہوکر رہ جائے گی، ملک تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ کرد اور اسلام پسند تنظیموں کے علاقے خاص اختیارات اپنے پاس رکھ کر اتحادی جمہوری حکومت کا اعلان کردیں گے اور شام کے محدود علاقے میں بشار کی موجودہ حکومت روس اور ایران کی مدد سے قائم رہے گی۔

تبصرے بند ہیں۔