شاہدؔ کمال کاشعری رنگ و آہنگ

 ڈاکٹر ایم۔ نسیمؔ اعظمی

(عالمی اردو مجلہ، ادبی گزٹ، ڈومن  پورہ۔ کساری، مئوناتھ بھنجن ،یوپی)

شاہدؔکمال تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر ادبی دنیامیں اپنی انفرادی شناخت کی تمام ترجیحات کے ساتھ پیش رفت کررہے ہیں۔ان کاآبائی وطن موضع کٹگھرکمال، اکبرپور (امبیڈکرنگر)اترپردیش ہے حصول تعلیم کے بعد محکمہ اطلاعات و رابط عامہ حکومت اترپردیش میںملازم ہیںاورمحکمہ مذکورہ سے شائع ہونے والے معروف ادبی رسالہ ’’ماہنامہ نیادور‘‘کی ادارت سے وابستہ ہیں۔عصر حاضر کے اہم نوجوان شعرا، نثرنگاران اورادبی صحافیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔نظم وغزل پر یکساں دست رسی رکھتے ہیں۔اورطرزکہن اوررنگ جدیدسے الگ ایک منفردامتزاجی شعریاسلوب کی تشکیل میںسرگرم عمل نظر آتے ہیں۔زیرنظرمجموعہ کلام سے قبل، نعت ومنقبت، سلام ومرثیہ کاایک مجموعہ ’’اجالوں کے سفر‘‘ (۲۰۰۴)اورنظموںاور غزلوں کا مجموعہ ’’باب التجا‘‘منظر عام پر آچکے ہیںاور اہل علم ودانش سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔

زیر نظرمجموعہ ’’شب نورد‘‘ کے مسودے میںپانچ نظمیں بعنوان ’’لم یلد ولم یولد‘‘’قلم زندہ ہے‘‘غیر مقفیٰ فکریں‘‘’آستھا‘‘اور ایک قدر طویل نظم ’’کلمہ گویان محمدکا لہوارزاں ہے آج‘کے علاوہ مختلف غزلیں شامل ہیں۔ان نظموں اور غزلوں کے علاوہ موصوف کی کئی نظمیںاورغزلیںمختلف رسائل وجرائد میںنظر سے گزرچکی ہیں۔انھیں اتنے وقفے وقفے سے پڑھی ہیںکہ ان کی بناپر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی ہے۔اس لئے جو کچھ تحریرہے وہ محض زیر نظر مجموعہ کے حوالے سے ہی تحریر ہے۔جس کی روشنی میںیہ بلاتامل کہاجاسکتا ہےکہ عصری شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ ہےکہ وہ اپنے عہد و ماحول اور فرد کی زندگی کی تلخ و شیریںصداقتوں کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں زندگیاپنی تمام تر رعنائیوں، دل فریبیوں، مسرتوں، کلفتوں، المناکیوںاورباطنی و نفسیاتی کشمکشوںسمیت جلوہ گر ہوگئی ہے۔اور آج کے انسان کی زندگی نئی مادی سہولیات اور نت نئےوسائل کے باوجود مختلف حادثات کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے۔آدمی آدمیوںکی بھیڑ میں گم ہوتا جارہا ہےاور خود اس کی شناخت مشکل ہوتی جارہی ہے۔ہرپل بدلتی اور تیز رفتار زندگی، صارفی کلچراوربازاری ذہنیت نے زندگی کونئی معنویت دینے کے بجائے لایعنیت اور بے معنویت کا شکار بنادیاہے، تہذیبی، روحانی، اخلاقی قدروں کی مسلسل شکست و ریخت نے زندگی کی بے سمتی اوربے یقینی کو آج کے انسانکا مقدر بنادیا ہے اور یہی بے سمتی اور بے یقینی آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ بھی بن گئی ہے۔

مذکورہ بالا تناظرات میں شاہدکمال کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نےاپنی نظموں اور غزلوں کونئے اندازاورزاویوں سے آراستہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔نظموںمیں نئے تجربات کا عمل جاری ہے اور جیسے جیسے تجربات و مشاہدات میں وسعت آتی جائے گی، ان کا نظموںکاکینویس وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا، اور پیرایہ اظہار میں انفرادیت بڑھتی جائے گی۔جہاں تک ان کی غزلوں گوئی کا معاملہ ہے ان کی غزلوں میں عموماًزندگی کی سچی تصویر کشی کے ساتھ ہی ہی ایک ایسے کھردرے پن کا احساس ہوتا ہے جو دراصل آج کے حالات و ماحول کی دین ہوتا ہے۔شاہدکمال کی غزلیہ شاعری میں جہاں سفاک حقیقت پسندی کی عکاسی ہوتی ہے، وہیں کنایوں، اشاروں اور حسب ضرورت قریب الفہم علامتوں سے غزلوں کومزین کرنے کی تخلیقی کاوش بھی پائی جاتی ہے۔مگر وہ زندگی کےتجربات و مشاہدات کو براہ راست پیش کرنے کےبجاے غزلوں کے پیرائے میں ان سے پیداہونے والی کیفیات کے اظہار پرزور دیتے ہیں۔جس سے ان کی فکرو اسلوب میںبھی روایت وجدت کا ایک متوازن امتزاج پیدا ہوتانظر آتا ہےاوران کی نظموں اور غزلوں میں تمام تر جدت و نیا پن اور کھردرےپن کے باوجود ایک ایسی ہلکی رومانیت کی پرت چڑھی ہوئی لگتی ہے جو ان کے اسلوب اور لب و لہجے کی انفرادیت کو اعتباریت کی راہ پر گامزن کرنےکے کے لئے کوشاں نظر آتی ہےاور ان کی شاعری کے اسلوب اور لب و لہجہ میں رسمی انداز سخن کے بجائے جدید طرز اور نفسیاتی و فطری حسن پسندی اجاگر ہوتی جارہی ہے، جس سے ان کی شاعری میں رنگینی و رعنائی سے زیادہ سادگی ومعصومیت کار فرما معلوم ہوتی ہے۔کچھ شعر آپ بھی ملاحظہ کریں،

میں کھولتا ہوں بند کی گرہ تسلسل سے

مگر جنون کے افہام میں نہیں آتا

کسی ملال ہے زخموں کی رائیگانی پر

ہمارادرد کسی کام میں نہیں آتا

کوزہ گر اب کوئی صورت نہیںبننے والے

میری مٹی میں ہی کچھ ریت ملا دی گئی ہے

ہمارا خواب بھی مٹی کا اک کھلونا ہے

جو ٹوٹ جائے تو پھر دوسرا بناتےہیں

تم گنوا دوگے ایک دن مجھ کو

پھر مری جستجو کروگے تم

کیا بات ہے تم آجو سچ بول رہے ہو

پھر ہم سے کوئی بات چھپانی تو نہیں ہے

میں محبت کے مضافات کا باشندہ ہوں

کیوں ترا شہر پُر اسرار مجھے کھینچتا ہے

ہم معتکف دشتِ اذیت تو نہیں تھے

پیروں سے مسافت کے بھنور کیوں نہیں جاتے

عجیب رُت ہے یہ مقتل میں جانثاری کی

ہماری خاک بھی تلوار سے الجھتی ہے

جہاں تک صنف شاعری اور شاعر کے مزاج کی دلچسپی کامعاملہ ہے، ایسالگتا ہے کہ شاہدؔکمال کا مزاج غزل سے زیادہ نئی نظم سے ہم آہنگ ہے۔ انھیں اپنی تاریخ، تہذیب اور شاندار ماضی کا عرفان بھی ہے اورحال کی زبوں حالی کاسچاادراک بھی۔وہ نئے حالات وماحول، اس کے روشن اورتاریک پہلوؤں اور نت نئے فطری تقاضوں سے بخوبی باخبر ہیں۔ان کی نظموں میں اسلوب کی سطح پر بھی اور فکرو خیال اور انداز پیش کش کے لحاظ سے بھی ایک ایسے مستحکم رویئےکی پاسداری ہوتی ہے، جس سے ان کی نظموں میں تلمیحاتی، استعاراتی اور تاریخی تہذیب سے کام لینے کا عمل نظر آتا ہےاور یہ عمل ورویہ ان کی نظمیہ شاعری کے رونماہونے والے تمام امکانی پہلوؤں پر متحقق ہوتی ہے۔یہاں پر صرف ان کی دو نظمیںذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

سیاہ کاغذ کی چمچاتی ہوئی نقرئی پیشانی پر

کچھ ستاروں سے چمکتے ہوئے

سربریدہ

بدن دریدہ

قامت کشیدہ

اور برگزیدہ سے لفظ یہ کہہ رہے ہیں

مجھے پہچانو!!

میرے سینے میں آسمانی صحائف کے اسرار

مقدس ویدوں کا گیان

پوتر پُرانوں کا علم پوشیدہ ہے

میں ہی وہ ہوں!!

جو اس کائنات کا نسب نامہ ترتیب دیتا ہوں

مجھ سے سوال کرو؟

میں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں

میں ہی مشیت کے اردوں کی پہلی اور آخری تشکیل و تکمیل ہوں

جب میںنطق کے مرحلے میں آتا ہوں

آدم و عالم کی تخلیق ہوتی ہے

(غیرمقفیٰ فکریں)

۔۔۔۔

آستھا

یقین و گمان کے

باہمی اختلاط کا نام ہے

اس کی پیدائش ’پُرومتہ ‘ کی کوکھ سے ہوتی ہے

’اَورانوس‘ اور ’ قرانوس ‘کی حلیف

یہ زمین کی نومولود بیٹی

اپنا رزق جہالت کے پستانوں سے کشید کرتی ہے

عقل کی دریوزہ گر

جب اپنے خداؤںسےناراض ہوتی ہے

تو ایک نئے بھگوان کو جنم دیتی ہے

(آستھا)

۔۔۔۔

نظم ہو یا غزل یا کوئی اورصنف شاعری اگر شاعر کے اسلوب و فکر، موضوع و مضامین، لفظیات و ترکیب، زبان وبیان، لب و لہجہ اور انداز پیش کش میں انفرادیت ہے۔روایت کے عرفان کے ساتھ جدت ہے۔عصری حسیت اورشعری اظہار کی سلیقہ مندی ہے تو ایسی شاعری یقیناً قابل اعتنا تصور کی جائے گی اورپسند یدگی اور مقبولیت بھی حاصل کرکے رہے گی۔ شاہد کمال ایک بالکل جدید اور عصری حسیت سے لبیریز فکر کے نجوان شا عر ہیں ان کی شاعیر میں جدت و روایت کی لطیف اور متوازن آمیزش اور اس آمیزش میںبتدریج ارتقا کا انداز ہے اور ان کے فکر و فن میں خلوص کی حدت وشدت بھی ہے اور ندرت و حیرت انگریزی بھی اس لیے ان کی شاعری میں تمام تر عصری پریشانیوں، لجھنوں، دکھوں اور المناکیوں کے اظہار و تذکرہ کے باوجود ایک قسم کی حوصلہ افزائی اور خود اعتباریت ان کی نظموں اور غلزون دنوں میںروشن ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

غزل اردو کی ہر دل عزیز اور مبقول ترین صنف سخن ہے اس کی ہر دل عزیزی اور مقبولیت کا جادو تو ان لو گوں کے بھی سر چڑھ کر بولتا ہےجو اردو سے نا بلد ہوتے ہیں اس کی جادوگری کا سب سے تابناک اور روشن ترین پہلو یہ ہےکہ غزل کے اشعار جلد یا د ہو جاتے ہیں اورمو قع محل سے استعمال کرنے سے بعدمیں جان پڑ جا تی ہے۔ اس کے علا وہ غزل ہماری روزمرہ کی زندگی کی سچی ترجمانی کرنے والی صنف شاعری بھی ہے۔  اس کا ہر شعر ایک الگ معنی و مفہوم اور افسانہ و افسوں کاحامل ہو تا ہے۔  اس میں ردیف وقوافی اور بحر و وزن کے التزام سے جو صوتی حسن و آہنگ پیدا ہوتاہے وہ بڑا پر کشش اور دلوں کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔  اس لیے لو گوں کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔  غزل کے اشعار میں جو کشش و توانائی ہوتی ہے وہ بڑی بے مثال اورلاجواب ہو تی ہے۔

عشق و محبت اگرچہ غزل کا اصل اور بنیادی موضوع ہو تا ہے مگر اب صرف عشق و محبت اور گل و بلبل کے مو ضوعات تک محدود نہیں رہ گئی ہے۔  بلکہ خال و فکر کی سطح پر ایک اتنہائی وسیع صنف شاعری بن گئی ہے۔ عصر حا صل کے کسی بھی غزل گو شاعر کوغالب ؔ کی طرح اس کی تنگ دامنی کی شکایت نہیں رہ گئی۔  کیونکہ عصری غزل حیات و کا ئنات کے سارے مو ضوعات و مضامین اور ہر قسم کے افکا ر وخیالات جذبات مشاہدات کے شعری اور فنی اظہار کا دل نشین اور مو ثر ذریعہ بن چکی ہے۔  یہ تفصیل بجائے اختصار و جا معیت اور کو زے میں دریا سمونے والی صنف شاعری ہے۔  اس میں کسی واقعہ، حادثہ، معاملہ، تجربہ، مشاہدہ، خیال یا جذبے کا براہ راست اظہار کے بجائے اس سے پیدا ہونے والی کیفیات کے اظہار کی اہمیت ہو تی ہے۔  اس لیے اس میں غزل کے ساتھ تغزل کے ساتھ رمز و کنا یہ کو بھی خا ص اہمیت دی جاتی ہے۔  جو فطرتاًایک داخلی صنف ہے۔ یہاں جگ بیتی بھی آپ بیتی بن جاتی اور نت نئے استعاروں، تشبیہوں، تمثیلوں اور علا متوں سے اس کے اشعار جگمگا اٹھتے ہیں اور اس کے معنویت میں اضافہ کا باعث بن جاتے ہیں جس کی مثال خود شاہد کمال کی غزلوںمیں جگہ جگہ موجو دہیں۔ شاہد کی غزلوں میں عصری حسیت کی فراوانی کے ساتھ ہی سیا سی، سماجی، مذہبی، تہذیبی، روحانی، اخلاقی، فلسفیانہ اور دیگر موضوعات کے اظہارمیں ایک خا ص قسم کی ذہنی آزادی اورداخل سے خارج کی طرف مراجعت کا رویہ پایاجاتا ہے۔  اس کے علا وہ انوکھے اور تیکھے لب و لہجے کی کوشش جدید فکر و دانش سے دلچسپی سے نئی لفظیات اور تہذیبی رکھا رکھا ؤ کے درمیان ظاہر و با طن کی کشمکش اور لفظوں کے تخلیقی استعمال کاوش ان کے روشن وتابناک مستقبل کا اشاریہ بنتی معلوم ہو تی ہے۔  چند اشعار ملا حظہ ہوں۔

میری غیرت کا لہو جب تک کہ پی لیتی نہیں

میری اس غربت کے چہرے پر نکھار آتانہیں

ہوس میں عشق میں تہذیب تربیت کا ہے فرق

وگرنہ دونوں اسی مکتب بدن کے ہیں

شہادتیں مرے حق میں ہیں جانتا ہوں میں

مرے خلاف مگر فیصلہ بھی آئے گا

میںڈوبتا جاتا ہوں تری موج بدن میں

یوں رقص میں کرنیں ہیں کہ گرداب ہے روشن

ہمیں جو دیکھ رہے ہو تم اِس حقارت سے

اسی زمیں پہ کبھی آسماں تھے ہم جیسے

حسن بینی کے بھی اداب ہوا کرتے ہیں

اُس کے چہرے کی طرف اتنی جسارت سے نہ دیکھ

چاند روشن تھا جن منڈیروں پر

اب دیا بھی وہاںنہیں جلتا

اندر اندر سے جل رہی ہے وہ

اور باہر دھواں نہیں ہوتا

مجھ کو خود میرے پاس لے آنا

میں تجھے گر کہیں دکھائی دوں

شاہد کمال کامطالعہ، تجربہ اور مشاہدہ وسیع ہے۔ فکر وخیال میں بھی تنوع، رنگا رنگی اور تازگی ہے۔موضوعات ومضامین میں جدت اور اسلوب وانداز میں بھی نیا پن ہے۔اپنےجذبہ و خیال اور احساسکو فنی سلیقہ مندی کے ساتھ شعری اظہار کی قدرت وصلاحیت ہے اور ان کے اندر ایک مخصوص انداز کی خود اعتمادی، تخلیقی سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے جو آئندہ کے نت نئے امکانات کے درکھولتی محسوس ہوتی ہے۔

رنگ غالبؔ کا تو لہجے سے نمایاں ہے بہت

لیکن اشعارہیں شاہدؔ کے سبھی میرؔ پسند

روز کی آپا دھاپی سے کچھ وقت چرا کر لائے ہیں

یار ذراہم دونوں کی اک اچھی سی تصویر نکال

تو صدائے حرفِ کُن کو آیہ تکمیل دے

پھر سے اک تازہ نظام زندگی تشکیل دے

اتنی حیرت سے جسے دیکھ رہے ہو پیارے

وہ ستارہ تو مرے طرہ پیچاک میں تھا

بھول کربھی نہ بھلاپائے گی دنیا مجھ کو

دیکھنا وہ سخن ایجاد کرونگا اک دن

کچھ نئے زخم دے کچھ درد جگر دے مجھ کو

زندگی تو مِرے ہونے کی خبردے مجھ کو

آؤ اب خوف کی پوشاک سے باہر نکلیں

دل میںجینے کی تمنا ہے تو مر کر دیکھیں

مرے جسارت طرزِسخن کی داد تو دے

روایت لب ورخسار توڑ دی میں نے

فکر ایجاد میں ہوں کھول نیا در کوئی

کنج گل بھیج مرے شاخ ہنر پر کوئی

یہ مری مملکت دل ہے یہ دنیا تو نہیں

میں تجھےاس کی خدائی نہیں دینے والا

بریدہ سر کو سجادے فصیل نیزہ پر

دریدہ جسم کو پھر عرصہ قتال میں رکھ

شاہد کمال عہد حاضر کے نئی فکر نئے خیال نئے انداز انوکھے لب ولہجہ اور تیکھے تیورکےنوجوان شاعر ہیں۔ان کے فکر وخیال کے سوتوں میں ابال وروانی اور خوش خرامی ہے اس لئے ابھی ان سے بڑی توقعات بھی ہیںعنقریب ان کے اشعارعوام و خواص کے روز مرہ کا وظیفہ بنیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔