شاید کہ اُتَرجائے کسی دل میں میری بات

احمد علی برقی اعظمی

بیتاب ہے کیوں روح مری میرے بدن میں
اک حشر بپا آج ہے کیسا مرے مَن میں

یہ کس کے اشارے پہ سبھی ناچ رہے ہیں
کیوں دشمنِ جاں بھائی کا بھائی ہے یمن میں

ہر سمت تباہی کا نظر آتا ہے منظر
باقی نہ رہی اب وہ چمک دُرِّ عدن میں

دم توڑ رہی ہے کہیں بیوی ،کہیں بچے
ہیں کتنے مہ و مہر ستمدیدہ گہن میں

مِل بیٹھ کے طے کرلیں گلے شکوے خدارا
اچھے نہیں لگتے ہیں جوانسال کفن میں

ہے آپ کو حق میرا کہا مانیں نہ مانیں
بے ساختہ لکھتا ہوں جو آیا مرے من میں

اشعار نہیں ہیں یہ مرا سوز دروں ہے
جلتا ہے مرا خونِ جگر میرے بدن میں

کیوں برسرِ پیکار ہیں آپس میں یہ سوچیں
ہر شخص کو جینے کا ہے حق اپنے وطن میں

بے موت نہ مارے کہیں مرغانِ چمن کو
بارود کی بدبو کی گُھٹَن صحنِ چمن میں

ہیں پیروِ اسلام وہ سنی ہوں کہ شیعہ
اچھا ہے سبھی مِل کے رہیں اپنے وطن میں

شاداب رہیں گلشنِ اسلام کے یہ پھول
جس طرح سے خوشبو ہے بسی مُشکِ خُتن میں

تبصرے بند ہیں۔