شراب بندی کے باوجود گوپال گنج سانحہ کیوں رونما ہوا

اسجد عقابی

نشہ کی بہت ساری قسمیں ہوتی ہے، بعض لوگوں کو بْری چیز کا نشہ لگ جاتا ہے اور بعض کو اچھی چیزوں کا۔ اگر آدمی شراب کے نشہ میں مبتلا ہوگیا ہے تو جب تک اسے شراب نہ ملے اس کے ذہن کو سکون نہیں ملتا ہے، دیگر تمام آسائشوں سے مزین گھر اور پرتکلف کھانے کے سامان بھی اسے اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، اسی طرح اگر کسی کو پڑھنے کا نشہ یا کتاب کا نشہ سوار ہوجائے تو دنیا کی ساری قیمتی اشیاء اس کے سامنے ہیچ ہوتی ہے۔ دنیا اپنی تمام تر رنگینیوں کے باوجود اس کیلئے پھیکی ہوتی ہے، وہ دنیا کی ساری رعنائیوں کو چھوڑ کر کسی پرانے کتب خانہ میں اپنی زندگی کی معراج کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے، آج کل صوبہ بہار بھی کچھ اسی قسم کے نشہ سے دوچار ہے، ایک طبقہ وہ ہے جسے شراب کا نشہ ہے، جسے پانے کیلئے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں حتی کہ زندگی جیسی قیمتی شئے کو بھی اپنے نشہ میں گنوانے سے خوف محسوس نہیں کرتے ہیں، اتنا سخت قانون پاس ہونے کے باوجود لوگوں میں اب بھی شراب کی لَت موجود ہے، دوسری جانب بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار ہے جو اپنے نشہ میں چور ہیں، نتیش کمار کو نشہ سوار ہے شراب بندی کا چاہے کچھ ہوجائے لیکن شراب بندی ختم نہیں ہوگی، حالانکہ بہار حکومت کی سب سے زیادہ آمدنی شراب سے تھی، مگر دوران الیکشن عوام سے کئے وعدے کو پورا کرنے کیلئے نتیش کمار نے اپنا سب کچھ جھونک دیا ہے، بہار میں شراب بندی سے یوں تو سماجی اور اخلاقی طور پر ہر کسی کو فائدہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان عورتوں کو ملا ہے جن کے گھر کے مرد حضرات شراب نوشی میں ملوث تھے، جو اپنی کمائی گھر سے زیادہ اپنے نشہ پر خرچ کردیا کرتے تھے، جہاں محض نشہ کی وجہ سے ہر آئے دن گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا تھا، جو بچوں کے اسکول کی فیس بھی اپنے نشہ میں اڑا دیا کرتے تھے اب ان گھروں میں سکون ہے، روز روز کے لڑائی جھگڑے سے نجات مل گئی ہے، بچوں کے اسکول کی فیس بھی ادا ہورہی پھر بھی ابھی بہت کچھ باقی ہے، اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا کہ سمجھا جاتا ہے، شراب بندی بہار میں ہوئی ہے۔ بہار سرحد سے متصل دیگر صوبوں میں شراب کا کاروبار عام ہے، ایسے میں کچھ ناہنجار قسم کے لوگ غیر قانونی طور پر شراب کی خرید و فروخت میں جْٹ گئے ہیں، تقریباً ہر دوسرے دن پولس والے اپنی مستعدی کا مظاہرہ کرکے کہیں نہ کہیں سے شراب برآمد کررہے ہیں، جن کے پاس سے شراب برآمد ہورہی ہے ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں محض ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا جارہا ہے، شراب بندی کے معاملہ میں حکومت تو مکمل طور پر سنجیدہ ہے مگر کچھ سماج دشمن عناصر اس کالے دھندے میں لگے ہوئے ہیں، جو حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر شراب کا بیوپار کررہے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی چیز پر پابندی عائد ہو پھر بھی وہ سامان آپ کو کچھ تکالیف کے بعد مل رہا ہے تو وہ پیور اور خالص نہیں ہوسکتا ہے، کچھ اسی طرح کے حالات اب بہار میں ہے، شراب نوشی کے شوقین افراد پیسہ بہا کر کسی دلال سے شراب خریدتے ہیں، پابندی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے دلال بھی اچھی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور زہریلی شراب پہونچا دیتے ہیں، صوبہ بہار کے گوپال گنج میں اسی طرح کا دلدوز سانحہ پیش آیا، معاملہ شراب کا ہے یا نہیں یہ تو خدا بہتر جانے لیکن اپوزیشن کے کچھ لیڈروں نے ہنگامہ کھڑا کردیا ہے، بعض نے نتیش کمار سے استعفی کا مطالبہ تک کردیا ہے، بہار کا شمار ہندوستان کے بڑے صوبوں میں ہوتا ہے، نتیش کمار نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے، دیسی بدیسی ہر طرح کی شراب پر پابندی عائد کر دی ہے، حکومت اس جانب توجہ بھی دے رہی ہے ایسے میں کیا عوام کا یہ فرض نہیں بنتا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں ؟ اتنے بڑے صوبہ میں اگر چوری چھپے کہیں سے شراب آتی ہے تو اس میں حکومت کیسے قصور وار ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان لوگوں کی مذمت کریں جو غیر قانونی کاموں میں مصروف ہوکر دوسروں کی زندگی سے کھلواڑ کررہے ہیں، حکومت کو ایسے وقت میں عوام کے اعتماد اور حمایت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے منصوبوں پر سختی سے جمی رہے۔ بہار حکومت تو اپنے اس قول پر مکمل طور سے عمل پیرا ہے لیکن فسطائی طاقتیں نتیش کی شبیہ کو داغدار بنانے کے لئے ایسے کام کررہی ہے تاکہ ان کی حکومت شراب بندی کے باوجود بھی بدنام ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کل ہی کی خبر ہے دربھنگہ سے بی جے پی کے کارکنان کے گھروں سے بھاری مقدار میں شراب برآمد کی گئیں ہے اگر وہ پکڑی نہ جاتی تو چوری چپکے کہیں اور بھیجی جاتی جس سے گوپال گنج جیسا دوسرا سانحہ رونما ہوتا اور نتیش سوالوں میں گھرتے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔