سوڈانی مسلم رہنما ڈاکٹر حسن ترابی کے افکار کا مطالعہ (قسط 1)

       ذکی الرحمن غازی فلاحی مدنی

              مختصر حالاتِ زندگی

        حسن عبد اللہ الترابی (پیدائش : 1932ء) سوڈان کے مشہور ومعروف سیاسی و دینی رہنما ہیں۔ ترابی کی پیدائش سوڈان میں ’’ارتیریا‘‘ کے قریب واقع موضع ’’کسلا‘‘ میں ہوئی۔ ملک کے شمالی حصے پر شرعی قوانین کے نفاذ میں آپ کا نمایاں کردار رہا ہے۔ ترابی کے والد ’’عبداللہ‘‘ اپنے شہر کے قاضی اور فقہ و شریعت کے ماہر مانے جاتے تھے۔ سوڈان کے سابق وزیر اعظم’’ الصادق المہدی‘‘ کا آپ سے قریبی رشتہ رہا ہے۔ 1951ء سے 1955ء کے دوران ’’ترابی‘‘ نے ’’خرطوم‘‘ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون میں تعلیم حاصل کی۔ 1957ء میں لندن یونیورسٹی سے ایم۔ اے کی سند حاصل کی اور 1964ء میں سوربون یونیورسٹی (پیرس )سے ڈاکٹریٹ کیا۔ اس کے بعد خرطوم یونیورسٹی میں آپ کا تقرر شعبۂ دینیات کے صدر کی حیثیت سے ہوگیا۔ ترابی متعدد زبانوں مثلاً عربی، انگریزی، فرنچ اور جرمنی کے ماہر ہیں۔

        1988ء میں آپ کو سوڈان کی وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا گیا۔ 1996ء میں آپ کو صدارت ِ ایوان کا منصب دیا گیا۔ دریں اثنا آپ اخوان المسلمون کی سوڈانی شاخ ’’ میثاق اسلامی فورم‘‘ کے رکن بن گئے تھے۔ 1964ء میں آپ کواس کا امین عام(جنرل سکریٹری) منتخب کرلیاگیا۔ 1969ء میں صدر ’’نمیری‘‘ کے فوجی انقلاب کے بعد فورم کے تمام ارکان کو نظر بند کردیا گیاتھا اور ترابی نے سات سال قید میں گزارے۔ 1977ء میں صدر نمیری اور اسلامی جماعتوں کے قائدین کے مابین مفاہمتی گفتگو کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں ترابی کو آزادی حاصل ہوگئی۔

        نمیری کی حکومت نے 1983ء میں شریعت ِ اسلامیہ کی تنفیذ کا اعلا ن کیا لیکن بعد ازاں اپنے اعلان کو پورا نہ کرتے ہوئے حکومت نے اپنے شریکِ کار ومعاون ’’میثاق اسلامی فورم‘‘ کے خلاف تعزیری اقدامات کرنا شروع کردیے۔ اس مرتبہ سوڈانی عوا م نے حکومت کی من مانی پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ قانونی چارہ جوئیاں مثلاً پارلیمنٹ کی تحلیل اور عوامی مظاہرے عمل میں لائے گئے، حتی کہ 1985ء میں نمیری کے خلاف ایک کامیاب عوامی بغاوت ہوگئی۔ اس کے ایک سال بعد ترابی نے ’’ نیشنل اسلامی فرنٹ‘‘ کی بنیاد رکھی اور خود کو اس کے ذریعے سے امیدوارِ پارلیمنٹ نامزد کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔

         1981ء میں ترابی کی پارٹی کی قیادت میں صدر’’مہدی‘‘ کے خلاف کامیاب فوجی انقلاب برپا کیا گیا جس کے زیرِاثر صدر ’’مہدی‘‘ کی پارٹی کی منسوخی، شریعت ِ اسلامیہ کی تنفیذ اور ’’عمر حسن البشر‘‘ کی منصبِ صدارت پر تقرری روبہ عمل آئی۔ 1991ء میں ترابی نے’’ مؤتمر شعبی عربی اسلامی ‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس کے ’’امین العام‘‘ مقرر کیے گئے۔ اسی دوران ان کو بعض ایشوز جیسے شوریٰ کی بحالی، آزادئ رائے وغیرہ پر حکومت ِ وقت سے سخت اختلاف ہوگیا۔ 1991ء کے اخیر میں ’’صدر البشیر‘‘ نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا، اس کے بعد سے ترابی کی قید و نظر بندی کا سلسلہ چل پڑا تاآنکہ مارچ 2004ء میں ان کو فوجی بغاوت کی سازش کے الزام میں باقاعدہ قید کردیاگیا۔ ترابی کے متعدد فقہی تفردات ہیں جن میں سرفہرست عورتوں کی امامت کا مسئلہ ہے۔

        تفہیمِ فکر ِ ترابی

        حسن ترابی کی اسلامی فکر کا مطالعہ کرنے سے قبل برسرِ موقع ایک اہم بات اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ دراصل حسن ترابی کا شمار ان مفکرین میں کیا جاتاہے جن کی فکری ونظری اساسیں مختلف کتابوں میں اس طور بکھری ہوئی ہیں کہ انہیں کسی ایک یاچند تصانیف میں متصور کرنا غلط ہوگا۔ حسن ترابی کا شماراُن لکھنے والوں (Prolific Writers) میں کیا جاتا ہے جو بے تکان اپنے تحریری افادات کے مجموعے عام قارئین کے سامنے پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہے جس میں انہوں نے اپنی بات ڈھائی سو صفحات سے کم میں سمودی ہو۔ اس لیے ان کی فکری جولانیوں کی درست تفہیم کی خاطران کے سارے یابیشتر لٹریچر کا غائر مطالعہ ناگزیر قرار پاتا ہے۔

        اصل مشکل یہاں پیدا ہوتی ہے کہ وہ بالعموم اپنی کسی بات یا نظریے کو ایک یا دوپیراگراف میں ذکر نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے زیرِ نظر کتاب میں قارئین کو باقاعدہ صفحہ نمبر کے ساتھ ان کی کتابوں کے حوالے نہیں مل پائیں گے، البتہ کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جملہ تصنیفات اور بالخصوص جو اس موضوع سے متعلق ہیں ( تجدید أصول الفقہ، تجدید الفکر الإسلامي، الأشکال الناظمۃ لدولۃ إسلامیۃ معاصرۃ، تجدید الدین، منہجیۃ التشریع) ان کے ناموں کو مراجع و مصادر کی فہرست میں الگ سے ترتیب دے دیا جائے۔

        ستر کی دہائی کے اواخر میں حسن ترابی ایک طوفانی وہنگامی حالت سے دوچار ہوئے تھے۔ یوں تو ترابی کی شخصیت اورتنازعات کا باہمی رشتہ کافی مشہور ہے لیکن درپیش صورت حال اب تک کے مقابلے زیادہ سنگین ثابت ہوئی تھی، کیونکہ اس وقت حسن ترابی جلد ہی ایک دراز سیاسی نظر بندی سے آزاد ہوئے تھے۔ اس نظر بندی کے پیچھے جو سبب بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سوڈان کے صدرِ جمہوریہ جعفر نمیری (1969-85) کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش میں حسن ترابی ملوث پائے گئے تھے۔ عالمِ اسلام کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ’’الاخوان المسلمون‘‘کی سوڈانی شاخ ’’ جبہۃ المیثاق الاسلامی‘‘ 1964ء سے ترابی کی متحرک قیادت میں طلبہ و تعلیم یافتہ طبقات کے ذہن و دماغ پربری طرح حاوی چلی آرہی تھی۔ تجارتی یونینس اور مخالف سیاسی محاذN.F.(National Front)  اس تحریک کا مخصوص میدانِ کار تھے۔ اس وسیع حلقہ اثر سے مہمیز پاکر اس تحریک نے وقت کی فوجی حکومت (1969-77) کے خلاف متعدد بغاوتیں کیں یا ان میں حصہ لیا۔ 1977ء میں ’’نیشنل فرنٹ‘‘ کے قائدین نے حکومتِ وقت کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا، جس کے بعد حکومت وقت کی طرف سے حسن ترابی کو ملک کی واحد عظیم تر سیاسی پارٹی (Sudani Socialist Union) میں غیر واضح حالات میں ایک اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کردیا گیا۔

        ستر کی دہائی میں حسن ترابی کو در پیش پریشان کن وہنگامہ خیز حالات کانہ صرف اس پارٹی بلکہ سیاست تک سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اس سارے ہنگامے کا تعلق بہ ظاہر ایک معمولی اور مضحکہ خیز سوال سے تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ اگر کسی مشروب میں مکھی گر جائے تو آیا اسے پھینک دینا چاہیے یا مکھی کو مشروب میں مکمل ڈبو کر بہ رضا ورغبت پی لینا چاہیے۔ ثانی الذکر موقف کی تائید و توثیق اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپﷺ نے متذکرہ بالا سوال کا یہی جواب دیا تھا۔ یہ حدیث صحیح بخاریؒ میں اس طرح منقول ہے کہ: ’’إذا وقع الذباب فی شراب أحدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فإن فی إحدی جناحیہ داء والأخری شفاء‘‘(صحیح بخاریؒ:3320)یعنی جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس مکھی کو مزید ڈبو دے اور پھر اس کو باہر نکال دے، کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے پر میں شفا ہے۔ ‘‘

        مجموعہ ہائے احادیث میں امام بخاریؒ کا مجموعہ جمہور اہل سنت کے نزدیک احادیثِ رسولﷺ کا معتبر ترین مجموعہ ہے۔ البتہ فنِ طب اور ادویہ جات کی پیش رفت وترقی نے موجودہ زمانے میں اس حدیث کو محلِ اختلاف بنادیا ہے۔ کچھ معذرت خواہ (Apologists)مسلم مفکرین نے میڈیکل سائنس کی مدد سے اس حدیث کی صحت و صداقت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حضرات اس حدیث کو اسلام کا معجزہ اور اس کی حقانیت کی دلیل قرار دیتے ہیں، کیوں کہ چودہ صدیوں قبل اس طرح کی معلومات کسی الٰہی و ربانی مصدر سے ہی مستفاد ہوسکتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

        حسن ترابی نے اس سلسلے میں اول الذکر موقف اختیار کیاہے۔ انھوں نے اس حدیث کو مردود اور سرے سے ناقابلِ عمل قرار دیا۔ ان کا یہ موقف عوام وخواص دونوں سطح پرمسلم اکثریت کے لیے ناپسندیدہ و ناقابل قبول تھا۔ اپنے او پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ترابی نے شریعت کی افادیت و عملیت کے متعلق کچھ ’’میتھوڈ لوجیکل‘‘ فارمولے(منہجی نماذج) تخلیق دیے جو بقول ان کے روایتی مسلم فقہ کے مسائل و مشکلات کا کامیاب سدِ باب اور اس بابت کسی بھی اصلاح پسند تحریک کوبجا رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں۔

         اولاً انھوں نے صحیح بخاریؒ میں موجود تمام احادیث کی صداقت کے مروجہ خیال کو چیلنج کیا۔ ان کے نزدیک امام بخاریؒ نے احادیث کی چھان پھٹک اور صحت وضعف کے سلسلے میں آخری انسانی حد تک جو کاوشیں اور جانفشانیاں کی ہیں وہ قابلِ تعریف اور ہمارے شکریے کی مستحق ہیں، لیکن اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہوسکتے کہ امام بخاریؒ و دیگر جامعینِ احادیث کو ’’معصوم عن الخطا‘‘ مان لیاجائے اور ان کے مجموعوں کو قرآن کے ہم پلہ قرار دے دیا جائے۔ لہٰذا وہ احادیث جو عقل عامہ (Comman Sense) اور جدید سائنسی حقائق کے صریح خلاف جاتی ہوں -جیسا کہ زیرِ بحث حدیثِ ذباب کا معاملہ ہے- ان کو غیر صحیح اور غیرثابت مان کر رد کیاجاسکتاہے۔ اسی طرح ایسی احادیث کے بارے میں یہ بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ ان کا سلسلۂ سند جس صحابی سے جاملتا ہے یقینا ان کو مدعائے نبوت کے سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی اور یہاں اس کا بھی امکان ہے کہ کسی راوی نے مخفی محرکات یا ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی ایسے قول یا واقعے کو غلط روایت کر دیا ہو۔

        حسن ترابی اس مسئلہ میں اس حد تک مبالغہ آرائی کرتے ہیں کہ بقول ان کے، اگر کوئی حدیث اپنے بے عیب اور عدول راویوں اور اختتامِ سند پر موجود صحابی کے واسطے سے خود رسول اکرمﷺسے جاملے تب بھی اس کی صداقت پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے، کیوں کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی دو حیثیتیں تھیں، بشری حیثیت اورنبوی حیثیت۔ آپﷺ کے کچھ اقوال آپ کی بشریت کا اظہار تھے اور کچھ اقوال آپﷺ کے منصبِ نبوت سے مستفاد ہوتے تھے۔ آپ ﷺکی بشری حیثیت کے ضمن میں وہ تمام اقوال و افعال آجاتے ہیں جو خالصتاً دنیوی معاملات سے متعلق ہیں۔ یہ اعمال شرعاً واجب الاتباع نہیں ہوتے، الا یہ کہ واضح طور پر ان کی مشروعیت اور ’’من جانب اللہ‘‘ ہوناثابت ہوجائے۔ احادیث کے ذخیرے میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سے اِن معاملات میں مختلف مواقع پر بہ تقاضائے بشریت غلطیوں کا صدور ہوا ہے۔

        جمہورمسلم مکتبِ فکر کے مطابق ترابی کی یہ دینی تشریحات اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی واقع ہوئی ہیں۔ خیرالقرون سے تاایں دم مجددین اور مصلحینِ امت نے اولین مصادرِ اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی ہے اور اولین مصادرِ اسلام سے مراد وحئ قرآن، سنتِ رسولﷺ اور سنت خلفائے راشدینؓ ہی کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس ترتیب میں قرآن بلا واسطہ کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے سرِ فہرست آتا ہے، لیکن سنت کی آئینی حیثیت بھی مرکزی ہی ہے کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ کی صحیح وصریح سنت ہی کی وجہ سے قرآنی آیات اور نبوی اقوال میں باہم امتیاز کیا جاسکتا ہے اور ہمیشہ کیا جاتا رہاہے۔ اس فہرست میں صحابہ کرام ؓکا کردار بھی فیصلہ کن اور بنیادی(Decisive & pivotal) ہے۔ جمہور المسلمین کے عقیدے کے مطابق تمام صحابۂ کرام ؓعدول ہوتے ہیں اور انھوں نے احکاماتِ رسولﷺ کو بے کم و کاست، درست سیاق اور واضح الفاظ میں آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کر دیا ہے۔

        آخری تجزیے کے طور پر کہا جاسکتاہے کہ قرآن کی تفسیروں اور احادیث کے مجموعوں سے ہی اسلامی نظامِ زندگی تشکیل پاتاہے۔ متذکرہ بالا ملّی عقائد پر ترابی کی تنقید ایک طرح سے روایتی اسلامی فریم ورک اور مکمل شرعی نظامِ زندگی کو مسمار کردینے کے مرادف بن جاتی ہے۔

        قدامت پسند ردِ عمل

        ترابی کے اس موقف نے سوڈانی تحریکِ اخوان کی صفوں میں اول اول ایک بے چینی پیدا کردی جو بعد میں قیادت سے مکمل بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔ تحریکِ اخوان کے قدامت پسند حلقوں نے ترابی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا تاآنکہ 1980ء میں سوڈانی اخوانی تحریک آئینی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس تقسیم کا سہرا ترابی کے سیاسی حریفوں، روایت پرست حلقوں اور سلفی مخالفین کی متحدہ کوششوں کے سر جاتا ہے۔ دراصل سیاسی واقعیت پسندی اور فکری ونظریاتی لچک کے علاوہ سوڈان کے صوفی وخانقاہی حلقے کے تئیں رواداری کے رویے نے سلفی حضرات کوبھی ترابی کے خلاف صف آرا کردیا تھا۔

        سیاسی حریفوں کے نزدیک صدر نمیری کے ساتھ معاہدہ کرنا اور اخوان المسلمون کے مصر میں قائم بین الاقوامی ہیڈ کوارٹرمیں شرکت واندماج سے گریز و تذبذب برتنا، ترابی کے ناقابل معافی جرم قرار پاتے ہیں۔ اگر چہ یہ مخالف محاذ ترابی کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا، لیکن اس نے ترابی کو دفاعی پوزیشن میں ضرور لا کھڑا کیا۔ لہٰذا ترابی اپنی بیشتر دینی تشریحات کو چھپانے یا ان سے تنازل اور دست کشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے اور آئندہ اس قسم کے اختلافی مسائل میں اظہار ِ رائے کے لیے انھیں محتاط انداز اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تاہم مخالفین نے اتنے پرہی اکتفا نہیں کیا اور ترابی مخالف اس مہم کی بازگشت جلد ہی ملک سے باہر بھی سنائی دینے لگی۔

         1980ء میں ایک مشہور مصری عالمِ دین علامہ متولی الشعراوی نے جن کا شمار اخوان کے فکری وروحانی قائدین میں بھی ہوتاتھا، ایک استفتاء سعودی عرب کی مجلس العلماء کے صدر ’’شیخ عبد العزیز بن بازؒ ‘‘کی خدمت میں ارسال کیا۔ اس خط کا خلاصہ یہ تھا کہ حسن ترابی نامی ایک شخص جو سوڈان میں وزارت برائے مذہبی امور یا اسی قسم کے کسی منصب پر متمکن ہے، عجیب وغریب دینی نظریات کاحامل دکھائی دیتاہے، مثلاً حدِ رجم کا انکار، مسلمان عورت کا یہودی و عیسائی مرد سے نکاح کا جواز، یہودی یا عیسائی مذہب قبول کرنے پر حدِ ارتدا د کاانکار، شربِ خمر پر حد کے بجائے تعزیر، ماضی کے مسلّمہ فقہی اصولوں اور احادیث کی خاص اصطلاحات کو موجود ہ دور میں غیر واجب العمل قراردینا، مرد و زن کے باہمی اختلاط کا جواز وغیر ہ وغیرہ۔ مراسلہ نگار نے شیخ بن باز سے درج بالاالزامات کی روشنی میں فتویٰ دینے اور ان خطرناک افکار و خیالات پر قدغن لگانے کی درخواست کی تھی۔

        شیخ بن بازؒ نے مذکورہ خط ترابی کو ارسال کرکے ان الزامات کے تئیں ان کی صفائی طلب کی جو ترابی نے دی۔ شیخ بن بازؒ کے نام اپنے خط میں حسن ترابی نے لکھا تھا کہ حدِ رجم کے بارے میں وہ اپنی ایسی کوئی رائے نہیں رکھتے ہیں، البتہ ہوا یہ تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے علمی حلقے میں جید مصری عالمِ دین شیخ ابوزہرہؒ کی متعلقہ مسئلے پر رائے پر تبادلۂ خیال کررہے تھے، جس کو غلط انداز میں روایت کردیا گیا۔ ’’زواجِ مسلمہ بغیر المسلم‘‘ کے مسئلہ پر انھوں نے کہا کہ وہ صرف ان امریکی مسلمان عورتوں کے بارے میں یہ موقف رکھتے ہیں جو خود تو حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئی ہیں لیکن ان کے شوہر ابھی حالت کفر ہی میں ہیں۔ حالتِ ارتداد سے متعلق تفصیل میں جائے بغیر انھوں نے چند قدیم فقہاء کی آراء ذکر کی ہیں، جن کی رو سے حدِ ارتداد کا محملِ تطبیق صرف اور صرف مسلم حکومتِ وقت کے خلاف اعلانِ جنگ کرنا ہے۔

        حدِخمر سے متعلق انھوں نے کہا کہ صدر نمیری کے دور ِ اول میں جب معاشرے کی اسلامی خطوط پر تنظیمِ نو کے منصوبے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جارہی تھی، اسی دوران ملکی قانون پر نظر ثانی کرنے والی کمیٹی(Law Revision Committee)  کے ممبران میں خمر(شراب) کے مسئلہ پر اختلافِ رائے ہوگیا تھا۔ یہ کمیٹی شراب کی ممانعت پر تویک لفظ متفق تھی، لیکن حدِ خمر کے اوپر اس میں اتفاقِ رائے نہیں ہوپارہا تھا۔ اس وقت میں (ترابی)نے شراب کی ممنوعیت کو قانونی درجہ بخشنے کے لیے زیرِ بحث رائے کا اظہار کیا تھا اور میرا مقصود قانون ساز کمیٹی کو کسی بھی صورت میں ممانعتِ خمر پر راضی کرلینا تھا۔

        اصولِ فقہ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اصول فقہ کو دو قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے۔

        (1) وہ جو صریح اسلامی احکامات پر مبنی ہوں یا ان سے مستفاد اور مشتق ہیں۔

        (2) وہ جو متأخرین فقہاء کے وضع کردہ ہیں۔

        ان دونوں میں سے اول الذکر واجب الاتباع ہوتے ہیں جب کہ ثانی الذکر کی یہ حیثیت نہیں ہوتی۔ جنسی اختلاط سے متعلق انھوں نے کہا کہ عہد ِ نبویﷺ میں عورتیں معاشرتی سرگرمیوں سے الگ تھلگ نہیں تھیں، لیکن موجودہ مسلما ن معاشروں میں حال یہ ہوگیا ہے کہ صنف نازک کو گھروں کی چہار دیواری میں نظر بندرکھنے اور اجتماعی زندگی سے منقطع کردینے کو مناسب مذہبی تعلیم وتربیت کا بدل خیال کیا جاتا ہے، جوکہ غلط ہے اور نہایت درجہ غلط ہے۔

        اپنے مفصل جوابی خط کے خاتمے پر ترابی نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ ان کو مصر کی اسلامی تحریک ’’اخوان المسلمون‘‘ کے قائدین کی طرف سے چلائی جارہی الزام تراشی اور بدنامی کی سیاسی مہم کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ انھوں نے مزیدکہا کہ منحرف یا الحادی نظریات کا وجود جدید مسلم فکر کا اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مرض یہ ہے کہ امت مسلمہ آج اسلام کو بہ کمال و تمام ماننے سے عملاًسرتابی کیے ہوئے ہے۔ ’’رجوع الی الاسلام‘‘ کی تجدیدی دعوتوں اورتحریکوں کے لیے اس پورے منظر نامے کو ذہن نشیں رکھنا ضروری ہوگا اور اصلاح و تربیت کے عبوری مراحل کے لیے انھیں متعدد تنازلات اور مصالحات اختیار کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا۔

        خط میں نمایاں اس مفاہمتی اور مصالحتی انداز کے علی الرغم ترابی کے نظریات وافکار کے خلاف قدامت پسند حلقوں کی مہم جاری رہی۔ اسّی کی دہائی کے اوائل میں ایک گمنا م عالمِ دین ’’ابن مالک‘‘ نے ایک کتاب بنام ’’ الصارم المسلول في الرد علی الترابي شاتم الرسول‘‘ (The Unsheathed Sword in reply to Turabi The Abuser of Prophet)  شائع کی۔ کتاب میں ترابی کے اُس لیکچر کو لفظ بہ لفظ نقل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے احادیث کے سرمائے سے متعلق اپنے افکار پیش کیے تھے اور شدید ترین الفاظ میں اِن افکارکا رد کرتے ہوئے اُن میں مضمر کفریات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

        1983-85 میں نمیری حکومت کے دور ِ اقتدار میں اسلام کی تشکیلِ نو کے پروگرام نے اس ترابی مخالف مہم کو مزید ہوا دی تھی اورپھر 1986-89 میں ملکی سیاست کے جمہوری دور میں ان الزامات اور اعتراضات کو کھلم کھلا پھیلایا جاتا رہاتھا۔ اسلامائزیشن کے مباحثے میں ترابی کی شرکت اور بیانات نے اس آگ میں تیل بلکہ بارودڈالنے کا کام کیا اور اندرون و بیرونِ سوڈان یہ موضوع عوام الناس کی توجہ اور گفتگو کا مرکز بن گیا۔ اخبارات کی سرخیاں اس کی نذر ہوگئیں اور مہینوں تک مثبت اور منفی ہر طرح کے تاثرات اور مباحثے اس پر انجام دیے گئے۔

تبصرے بند ہیں۔