شراب و منشیات: سماجی ناسور!(دوسری قسط)

محمد آصف ا قبال

 قرآن حکیم میں سب سے پہلے سورۃ النحل ، آیت ۷۶میں شراب اور نشہ کو خراب اور قبیح چیز(رزق غیر حسن) بتایا گیا۔ دوسرے مرحلے میں سورۃ بقرہ ،آیت 219 میں شراب و نشہ میں بڑی خرابی(اثم کبیر) کہا اوراس کے نقصانات کو کثرت سے بیا ن کیا گیا،ساتھ ہی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ فرمایا:”پوچھتے ہیں : شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہے ، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ تیسرے مرحلے میں سورۃ النساء ، آیت 43 میں نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھنے کا حکم آیا۔ فرمایا:”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو”۔

شراب نوشی کے مضر اثرات سے واقفیت ،کراہیت اور نقصانات بتانے کے بعد قرآن نے سورۃ المائدہ، آیت 90 تا 92  میں اسے قطعی طور پرحرام قرار دے دیا ۔ فرمایا :”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہوگے؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات مانو اور باز آجائو، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسولؐ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمّہ داری تھی”۔ دوسری جانب اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شراب کو حرام اور نجس قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس سے کسی بھی نوع کا تعلق رکھنے اور اس کے فروغ و اشاعت میں کسی بھی طرح کی شرکت کو قابل لعنت جرم قرار دیا۔

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”دس طریقوں سے شراب کو ملعون قرار دیاگیا ہے:1) بذات خود شراب ۔ 2) شراب بنانے والا۔ 3) شراب بنوانے والا۔ 4) شراب فروخت کرنے والا ۔ 5) شراب خریدنے والا۔ 6) شراب اٹھاکر لے جانے والا۔ 7) جس کی طرف اٹھاکر شراب لے جائی جائے۔ 8) شراب کی قیمت کھانے والا ۔ 9) شراب پینے والا ۔ اور، 10) شراب پلانے والا”(ابن ماجہ )۔ قرآن و حدیث کے مختصر تذکرے کے بعد یہ بات واضح ہو جانی چاہییکہ شراب بذات خود نہ صرف حرام ہے بلکہ اس سے متعلق کسی بھی قسم کا کام قابل جرم ہے۔

واقعہ یہ بھی ہے کہ شراب و منشیات کے اس کھلے بازار میں عصمتیں نیلام ہوتی ہیں،اخلاقی زوال کی بدترین مثالیں قائم کی جاتی ہیں ،نتیجہ میں نہ صرف ملک کا مستقبل ،نوجوان طبقہ ہلاکت کا شکار ہے بلکہ خاندان اور معاشرہ بھی بتاہیوں کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں۔ دوسری جانب منشیات اور اس کو استعمال کرنے والے افراد کے ذریعہ نہ صرف معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ صحت عامہ کے بھی بے شمار مسائل یہیں سے فروغ پاتی ہیں۔ ساتھ ہی جرائم کے فروغ اور اضافہ میں بھی متاثرہ افراد پیش پیش رہتے ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت ریاست پنجاب کے شہریوں کی بڑی تعداد اِس لعنت میں مبتلا ہے۔ 75%فیصد نوجوان منشیات کے شکار ہیںوہیں عام شہری بھی بلاتخصیص مرد و خواتین ملوث ہیں۔ ممبئی ،حیدر آباد اور دیگر بڑے شہر اس کی لپیٹ میں ہیں۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی 18%آبادی اگر الگ کر دی جائے تو 72%فیصد گھروں میں شراب عام طور پر قابل استعمال ہے نیز اسے ممنوع نہیں سمجھا جاتا۔ ریاستی و مرکزی حکومتیں منشیات میں مبتلا افراد کو چھٹکارا دلانے کے لیے بے شمار  rehab centres  چلانے میں مصروف ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں ہی اس طرح کے سینٹر س کی تعداد تقریباً500ہے وہیں دیگر این جی اوز و ادارے بھی اس کام میں مصروف عمل ہیں۔ اس کے باوجود سچائی یہ بھی ہے کہ حکومت شراب کے ٹھیکوں کو لائسنس دیتی ہے،سستے داموں میں منشیات کھلے عام ہر مقام پر دستیاب ہے اور معاملہ مضحکہ خیز اس وقت بن جاتا ہے جبکہ ملک کا سپریم کورٹ شراب و رقص گاہوںکو چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ ان حالات میں ملک کے ہر شہری،بااختیار فرداور حکومت و عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ شراب و منشیات اور اس کے نتیجہ میں ملک و معاشرہ جس ددرجہ خسران میں مبتلا ہے،حالات کے تناظر میں بڑی ہی نہیں متعلقہ ہر چھوٹی برائی کو بھی ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔ جہاں معاملہ یہ ہو کہ ملک کا مستقبل ،نوجوان طبقہ شراب و منشیات میں حد درجہ مبتلا ہو،اخلاقی زوال کے بے شمار واقعات ہر صبح سننے کو ملتے ہوں،معاشرتی بگاڑ اور خاندانی نظام تباہ و برباد ہو رہا ہو،ملک کی دولت کا ایک بڑا حصہ مسائل کے حل میں صرف کیا جا رہا ہو۔ اس کے باوجود اگر حالات قابو سے باہر ہوں اور اضافہ ہی ہوا جا رہا ہو،توپھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ان حالات میں ہمارا طرز عمل،فکر و نظریہ اور قوانین،تبدیل ہونے چاہیں؟

اس موقع پر نہ صرف قوانین میں بتدیلی لائی جائے بلکہ عمل در آمد کے ٹھوس اقدامات بھی کیے جائیں۔ اس کے برخلاف واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف مغربی تہذیب بلکہ ہندوستانی تہذیب جسے باالفاظ دیگر ہندو تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے،میں اس تعلق سے سنجیدگی نہیں پائی جاتی۔ اور چونکہ ان کے بڑے اور ان کے چھوٹے سب ہی اس برائی میں ملوث ہیں لہذا عوام جو عموماً تقلید پسند ہوتی ہے اُس میں بھی اِس تعلق سے کراہیت نہیں پائی جاتی،یہی وجہ ہے کہ حکومتیں بھی اس مسئلہ پر کوئی ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے کتراتی ہیں۔

 وہیں موجودہ دور کا یہ بھی عجیب تضاد ہے کہ مسائل سے نبر د آزما عام طور پر وہی لوگ نظر آتے ہیں جو خود مسائل کے فروغ میں سرگرم عمل ہیں۔ لیکن مسائل کے انسداد کاجو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ عموماً کارگر نہیں ہوتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس سطح پر مسائل کے حل میں پیش رفت کی جاتی ہے اُس سے کہیں زیادہ مسائل کے فروغ میں دولت اور وسائل کا استعمال ہوتا ہے۔ اور چونکہ موجودہ دور میں نظام حکومت پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے اور وہی اسٹیٹ کی معاشی پالیسی مرتب بھی کرتا ہے ۔ لہذا ہر عمل کے پیچھے دولت کا بہائو اورنفع و نقصان پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ماہرین معاشیات کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے،نیز مقاصد کے پیش نظر نئی نئی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ نتیجہ میں مسائل برقرار رہتے ہیں یا ان میں مزید اضافہ ہوتاہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ شراب نوشی و منشیات کے فروغ اور اس کے کاروبارکے پھیلائو میں بھی سامنے آتا رہا ہے۔

شراب و منشیات انسان میں نشہ کی لت پیدا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ شراب و منشیات سے نجات انسان کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہے۔ لہذا جب وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے اور نشہ کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک رقم خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان حالات میں نشہ کی لت اگر ایک امیر انسان کو لگ جائے تو اِس کا حصول اُس کے لیے پریشان کن نہیں ہوتا برخلاف اس کے اگر یہی لت معاشی طور پر ایک درمیانی یا غریب انسان کو لگ جائے تووہ حصول نشہ کے لیے جرائم تک میں ملوث ہونے سے گریز نہیں کرتا ۔ دوسری جانب معاشی اعتبار سے ہر دو سطح پر موجود لوگوں کی دولت ایک ایسی شے کے لیے صرف ہوتی ہے جس سے نہ اس کے جسم کو کسی قسم کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ریاست کا معاشی و معاشرتی نظام مستحکم ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے فرد ،خاندان،معاشرہ ،ریاست اور معیشت ہر سطح پر نقصان پہنچ رہاہے۔

ایسے مواقع پر جب شراب نوشی اور منشیات کے خلاف بین الاقوامی اور ملکی سطح پر سعی و جہد ہوتی نظر آتی ہے تو اس کا طریقہ بھی کچھ مضحکہ خیزی سے کم نہیں ہے ہوتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آج کل ہر مسئلہ کا حل "DAYs”مناکر انجام دیا جاتا ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی و مشرقی ممالک کی جانب سے مختلف مسائل اور ان کے حل کے لیے جو "DAYs”منائے جاتے ہیں وہ بھی دراصل سامراجی طاقتوں کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ جس کے پیچھے اس کے سوا کوئی مقصد کارگر نہیں،کہ سامراجی قوتیں مزید مستحکم اور پائیدار ہوجائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔