شرکا دامن تھام کر نکلے تھے حکومت کرنے

سید منصورآغا

دربل کو نہ ستائیے، جا کی موٹی ہائے 
مری کھال کی سانس سے لوہ بھسم ہو جائے 

(کمزور کو مت ستاؤ ۔اس کی ہائے بہت موٹی ہوتی ہے۔ دیکھو مردہ کھال کی دھونکنی سے لوہا کس طرح راکھ بن جاتا ہے)کبیرداس (14وی صدی) کا یہ دوہالال کرشن آڈوانی جی کو چناؤ سے باہر کردئے جانے کی خبرپڑھ کر یاد آگیا ۔ان کی جگہ گاندھی نگرسے امت شاہ کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ اس سیٹ سے آڈوانی جی کئی چناؤ جیتے ہیں۔ اسی طرح کانپورسے بھاجپا کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے اورکہہ دیا گیا چناؤ نہیں لڑنا۔یہ دونوں پارٹی کے چوٹی کے لیڈررہے ہیں ۔آڈوانی جی تو شرکا دامن تھام کر پی ایم بننے کی آرزولیے سالوں رتھ یاترائیں نکالتے رہے۔ افسوس ان کی آرزو پوری نہیں ہوئی۔

ایسا ہی کچھ بہار کے دشنام طراز لیڈر گری راج سنگھ کے ساتھ ہوا۔ وہ صدمے میں ہیں کہ جب بیگوسرائے کی سیٹ مانگا کیے توان کو نوادہ بھیج دیا۔اب ان سے پوچھے اوربتائے بغیر بیگوسرائے پھینک دیا، جس سے ان کو بڑی توہین محسوس ہورہی ہے۔مگرسشیل مودی نے کہہ دیا ، چناؤ تو وہیں سے لڑنا ہے۔ بیگوسرائے ان کی جنم بھومی ہے، مگر وہاں جاتے گھبرارہے ہیں۔وجہ یہ کہ دیش بھکتی کے ان ٹھیکیدارصاحب کے مقابلے میں کنہیا کمارکی دیوارآگئی ہے جو ان کی نظروں میں دیش دروہی ہے۔ گری راج جی ہرکسی کو پاکستان بھیجتے رہتے تھے۔ اب خود حیران ہیں کہ کہاں جائیں؟ یہ مقولہ سچ ثابت ہوتا نظرآتا ہے کہ بڑبولا ڈرپوک ہوتا ہے۔

کبیرکا دوہا اورحدیث:

کبیر کے اس دوہے میں، جواوپر نقل کیا، ایک حدیث نبوی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا مظلوم کی بددعا جو ظالم کے حق میں ہو، آسمان پر اٹھالی جاتی ہے اوراللہ فرماتا ہے، میں تیری مدد ضرورکرونگا، چاہے کچھ دیرہو۔‘سزامیں کچھ تاخیرکی مصلحت یہ لگتی ہے کہ اللہ رحمٰن اوررحیم ہے۔ وہ ظالم کو موقع دیتا ہے کہ اپنی غلطی کو مان لے، توبہ کرلے اورظلم کا تدارک کرلے۔ آڈوانی جی نے 1992میں ملک میں فرقہ پرستی کا جو زہر گھولا،جس کے چلتے بے شمار افراد کی جانیں گئیں،ایک بڑے ظلم کی داستان ہے۔ ان کویہ احساس ابھی نہیں ہواہے۔ انہوں نے قوم پرستی کی آڑ میں قوم کوجو دولخت کرنے کا کام کیا وہ بھی کچھ کم گناہ نہیں۔ آج ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف جووارداتیں ہورہی ہیں ، اسی ماحول کا اثر ہے جس کو بنانے میں آڈوانی جی کی سیاست کا دخل رہا ہے۔

بابری مسجد انہدام کے بعد ہزاروں افراد مارے گئے ان خون کے دھبے توان کے دامن پرتھے ہی، ان میں مزید اضافہ2002 میں ہوگیا جب گجرات قتل وغارت کے بعد وہ مودی سرکار کی ڈھال بن گئے ۔افسوس انہوں نے جس کی سرپرستی کی اسی نے موقع ملتے ہین ان کے پگڑی اچک لی۔یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں بلکہ اس فکر(چانکیہ نیتی )کے گل بوٹے ہیں، جس میں مودی جی کی ذہنیت ڈھلی ہے۔ بڑی بات ہوگی اگر آڈوانی جی کا دل پرایشچت کے لیے آمادہ ہو جائے اور مودی سے خوف کھائے بغیراس کا اعلان کردیں۔ ہندستان کے عوام کا دل بہت بڑا ہے، تپ اورتیاگ ان کو بہت عزیز ہیں۔ اگرآڈوانی جی ان دوبڑی غلطیوں کا اعتراف کرلیں تو لوگ ان کو سرآنکھوں پربٹھائیں گے اوروہ آزاد ہندستان کے دوسری گاندھی جی بن جائیں گے۔

پروفیسرمرلی منوہرجوشی بھی ستم رسیدہ بن گئے ہیں۔2014کے الیکشن میں ان سے بنارس کی سیٹ مودی جی کے لیے چھین لی گئی تھی اور کانپوربھیج دئے گیے۔چناؤ جیت گیے۔ کافی کام بھی کرائے۔ چنانچہ یہیں سے 2019 کے چناؤ کی تیاری شروع کردی کہ ان سے کہہ دیا گیا، گھربیٹھو۔ ہمیں آڈوانی جی اورجوشی جی کے سیاسی نظریہ سے تواختلاف شدید ہے، مگر یہ دونوں بزرگ اس دور کے چھچھورے سیاسی کلچر میں بہت غنیمت ہیں۔ ان کو سیاست سے بے دخل کیا جانا اچھی علامت نہیں ہے۔

جہاں تک گری راج سنگھ کا معاملہ ہے توان کا اصل مقام دکھانا بیگوسرائے کے عوا م کی ذمہ داری ہے۔ یہاں مقابلہ دراصل دویا تین افراد کے درمیان نہیں، بلکہ دونظریوں کے درمیان ہے۔ ایک امیج وہ ہے جو گری راج سنگھ کی ان کے بیانات سے بنی ہے۔ دوسری کنہیا کمار کی ہے۔ کنہیا آزادی کی اس آواز کی علامت بن گیا ہے جس کو آئین کے مخالف اوردولت مند کارپوریٹ سیکٹر کے دوست لیڈردبادینا چاہتے ہیں۔ان کو کمیونسٹ اتحاد نے اپنا امیدواربنایا ہے۔ اگرچہ کمیونسٹ حکومتوں کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا، جبراورظلم وہاں بھی ہوا، مگر اب ان کو کافی سمجھ آگئی ہے۔ اس کے مقابلہ ذات برادری کی اونچ نیچ اورمذہب وعلاقہ کے بنیاد پر جس طرح قتل و غارت گری سنگھیوں نے پھیلائی ہے وہ تو ظلم ہی ظلم ہے۔ سماج کو ہزاروں سال پرانے اس ماحول میں لیجانا چاہتے ہیں جس میں برہمنیت کابول بالا ہو۔یہ بدتربرائی ہے ،جس کو روکنے کے لیے سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

انتخابی ماحول:

چندروز قبل عوام کا رجحان معلوم کرنے کے لیے ایک خاتون رپورٹرکیرانہ گئیں۔ ان کی لائیو رپورٹنگ سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ عوام مودی جی کے دام فریب میں نہیں آرہے ہیں اورپاکستان، پلوامہ ، سرجیکل اسٹرائک جیسے موضوعات سے متاثرہونے کے بجائے روزگار، صحت ، تعلیم، فرقہ ورانہ امن چین اورملوں پر گنے کی بقایا کی باتیں کررہے ہیں۔ ایک صاحب نے 2014کی باغپت ریلی میں مودی کے اس وعدے کو یاد دلا یا کہ مرکز میں سرکار بنتے ہی 15د ن میں گنے کا بقایا دلوادیاجائے گا۔مگرابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ عوام کی اس سوچ کی تائیدآج (27مارچ کو) شائع پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ سے ہوگئی۔ یہ رپورٹ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمس کے کل ہند سروے کی ہے جس نے 32ریاستوں میں 534لوک سبھا حلقوں کے پونے تین لاکھ رائے دہندگان سے 31موضوعات پر سوال کئے گئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پینے کا پانی، بجلی، سڑکوں، غذا، تعلیم، صحت خدمات ، آمد ورفت کے ذرائع جیسے ٹرینیں، بسیں وغیرہ مسائل کو نام نہاد دہشت گردی، سیکیورٹی اورفوجی کاروائیوں پر واہ واہی پر ترجیح حاصل ہے۔بھاجپا سرکاروں کی کارکردگی غیر اطمینان بخش قرار دی گئی ۔خاص طورسے روزگار کے معاملہ میں100میں سے 75نے مودی سرکار کے خلاف رائے دی۔اگرچہ یہ سروے اکتوبردسمبر 2018میں ہوا تھا۔ جب کہ پلوامہ واردات فروری میں ہوئی۔لیکن کیرانہ کی رپورٹ میں لوگوں نے صاف کہا پلوامہ میں ہمارے بچوں کو مروایا گیا اوراب بھی مروایا جارہا ہے۔ بچے ہمارے مارے جارہے ہیں۔ کاروائی فوج کررہی ہے واہ واہی سیاست داں لوٹ رہے ہیں۔

اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ آرایس ایس نے خاموشی کے ساتھ عوامی رابطہ مہم چلارکھی ہے۔خصوصاً یوپی، بہار اوربنگال میں جہاں پولنگ کئی تاریخوں میں ہوگی۔ اس وقفہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ سنگھی کیڈر ایک جگہ سے فارغ ہوکر دوسری جگہ ڈیرہ جما سکیں گے۔ جب کہ حزب اختلاف کی ایسی جوابی مہم کہیں نظر نہیں آتی۔ظاہر ہے جو فریق زیادہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گا اورہربوتھ پر ورکر اپنے ووٹروں کولے آئیں گے، وہ فائدے میں رہے گا۔ بہر حال بقول شخصے یہ چناؤ ہے بابا۔ ہوا کا رخ زرادیر میں بدل جاتا ہے۔ البتہ فی الحال ہوا بند ہے اوربولتی بھی بند ہے۔

غریبوں کے لیے تحفہ:

راہل گاندھی نے الیکشن جیت جانے پر ملک کے 20فیصد انتہائی غریب خاندانوں کو 6000روپیہ ماہانہ دئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری اورضعیفی پنشن اورمفت صحت خدمات عام ہیں۔ لیکن اتنا ہی زیادہ ٹیکس بھی ہے۔ قانون کی پامالی اورکرپشن ہمارے جیسا نہیں۔ اس لیے اگر کانگریس سرکار آئی اوراس نے یہ اسکیم لاگو کی تو اس کے پیمانے بنانے ہونگے اورفائدہ ہرضرورت مندتک پہنچنا چاہئے چاہے ان کی تعداد کتنی بھی کیوں نہ ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔